صحافت کو کثافت کی نذر کرنے کی کوششیں | سوشل میڈیا کےنابہ کار،اسے تماشہ بنارہےہیں فکرو فہم

آصف اقبال شاہ

صحافت کو ایک مقّدس پیشہ مانا جاتا ہے بلکہ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تصّور کیا جاتا ہے۔ صحافت سے ہی عوامی مسائل مسندِ اقتدار پر براجمان لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ ایک بیباک صحافی عوام کا حقیقی ترجمان ہوتاہے۔ قلم کو زبان دے کر عوامی مسائل کو منظرِ عام پر لانے کے لئے ایک صحافی سچائی کا پاسدار بن کر عوام اور سرکار کے بیچ ایک پُل کا کام کرتا ہے۔ صحافی عالمی حالات پر باریک بینی سے گہری نظر رکھنے والا ایک وسیعُ النظر انسان ہوتا ہے، جس کے قلم اور زبان سے صداقت پر مبنی الفاظ ادا ہوتے ہیں۔ جو شجاعت کے جذبات کے ساتھ اور صداقت کے سیاہی سے حقائق کو سامنے لانے کا مہارتِ تامہ رکھتا ہو ،غرض ایک صحافی عوام کا حقیقی ترجمان ہوتا ہے۔ ماضی بعید پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافت سے کتنے انقلاب پیدا ہوئے ہیں۔ سید ابو اعلیٰ مودودی کا ترجمان القُران، مولانا ابو کلام آزاد کا الہلال اورمولانا شبلی کی صحافتی خدمات کو کون بول سکتا ہے۔ پھر درجنوں اخبارات کے مدیران جنکی فہرست اگرچہ بہت طویل ہے مگر ان عوام کے حقیقی ترجمانوں نے صحافت کو مقّدس پیشہ بنایا۔زندگی کا ایک ایک لمحہ صحافت کی شمع کو فروزان رکھنے کے لیے قربان کیا۔ اگرچہ صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی لیکن جتنے بھی تھے، وہ خدادقابلیت میں اپنی مثال آپ تھے۔جن کے قلم سے سنہرے حروف ضبطِ تحریر میں آیا کرتے تھے۔زبان میں معیار تھا،الفاظ میں ادب تھا، اقدارِصحافت بدرجہ اتم موجود تھے جسکی وجہ سے ان لوگوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا ۔ظاہر ہے کہ یہ مہارت کسی کو لمحوں میں حاصل نہیں ہوتی تھی بلکہ صحافت کے میدان میں طبع آزمائی کرنے کے لئے ایک نو آموز صحافی کو دن دوگنی اور رات چوگنی محنت کرنی پڑتی تھی اور پھر کئی سال کے بعد رپوٹر،معاون مدیر اور با الآخر مدیر بن جاتا تھا۔خبروں کی چھان بین ہوتی تھی،عام لوگوں کی عزتِ نفس کو تحفظ دیا جاتا تھا اور یہ دور ِصحافت کا بہترین دور تھا۔ چنانچہ تبدیلی دستورِ کائنات ہے اور تبدیلی میں اپنے آپکو Accomodate کرنے سے
کوئی معمہ پیدا نہیں ہوجاتا ہے بلکہ حالات کے ساتھ چلنے میں کوئی دُشواری پیدا نہیں ہوجاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تبدیلی اپنے ساتھ منفی اور مثبت پہلو دونوں ساتھ لے کر آتے ہیں۔صنعتی انقلاب کے بعد سوشل میڈیا کا انقلاب دُنیا میں سب سے بڑا انقلاب ہے، جس نے پوری دُنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔موجودہ دور میں صحافت سے وابستہ جن لوگوں نے تکنیکی چیزوں کو سیکھ لیا ،وہ اپنی پہچان بنائے رکھنے میں کامیاب ہوگئے ۔ سوشل میڈیا کا انقلاب شروع ہوتے ہی صحافت کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ گیا بلکہ نیمِ بسمل ہوکر اپنا کافی وقار کھوگیا۔سوشل میڈیا پر خود ساختہ صحافیوں کی بھر مار ہوئی،صحافتی اصولوں سے نابلد ان خود ساختہ صحافیوں نے اسکے شاندار ماضی کو تنزل کے سمندر میں ڈبو دیا اور اب ہر کوئی ایرا غیرا ،نتھو خیرا، اپنے آپکو صحافی جتلانے لگا ہے۔ صحافت کا معیار گرتا گیا،ادب کی جگہ بے ادبی نے لی، صحافتی اصول پائوں تلے روند ڈالے گئے،عزت پامال ہوئی، چیخ و پکار اور گلہ پھاڑنا صحافت کا لازمی جُز بن گیا اور اس پر ستم یہ کہ صحافت کے نام پر باعزت لوگوں کی عزت پامال ہوئی اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہر کس و ناکس نے ہاتھ میں موبائل اور کیمرہ ہاتھ میں لے کر ناظرین و کرام کو حفظ کرکے صحافت کو بدنام ہی نہیں بلکہ شرمسار کیا۔ الزام تراشی،عزت ریزی اور طعنہ و تشنیع خود ساختہ صحافیوں کا خاصہ بن چکا ہے اور آئے روز کسی بھی گلی یا سڑک پر صحافت کثافت کے ڈھیر میں دفن ہورہی ہے۔ اب مائک اُٹھاتے ہی انسان ایڈیٹر بلکہ چیف ایڈیٹر بن جاتا ہے اور زبان سے غیر معیاری اور غیر شائستہ الفاظ استعمال کرکے صحافت کے مقّدس پیشے کو تماشا بنارہا ہے۔ صحافت کے معیار کو بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ سرکار خود ساختہ صحافیوں پر قدغن عائد کریں اور اُنکی رجسٹریشن کو کالعدم کرکے معیای صحافت کو فروغ دینے میں اپنا رول ادا کریں۔اسکے علاوہ صحافتی انجمنوں کو چاہئے کہ وہ گرتے ہوئے صحافتی معیار کو دیکھ کر اپنی خاموشی توڑ دیں اور منظم انداز میں اس مافیہا کے خلاف ایک مہم چھیڑ دیں تاکہ صحافت مزید تماشا ہونے سے بچ جائے۔
[email protected]
��������������������������