سیبوں کوباہرکی منڈیوں تک پہنچاناسنگین مسئلہ بن گیا

معاملہ فوری طور حل کیا جائے:چیمبر آف کامرس
سرینگر//کشمیرچیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے سرینگرجموں شاہراہ پرمیوہ بردار ٹرکوں کو کئی کئی روزتک بلاجوازروکے رکھنے پرتشویش کااظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کواس معاملے کو فوری طور حل کرناچاہیے۔چیمبرکے صدر شیخ عاشق نے ایک بیان میں کہا کہ کشمیرمیں اس وقت سیبوں کو درختوں سے اُتارنے کا عمل جوبن پر ہے اور اس معاملے میں کوئی بھی تاخیر کشمیرکی اقتصادیات، جو بیشتر سیب پرمنحصرہے، کو چوٹ پہنچاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کٹائی کاسیزن عروج پر ہے اور ہم پہلی باردیکھ رہے ہیں کہ سرینگرجموں شاہراہ پر اس طرح کی بدانتظامی ہے۔سیب اُگانت والوں نے الزام لگایا ہے کہ سیب سے بھرے ٹرکوں کو کئی کئی روز بلاوجہ روکا جارہا ہے اور ان کی نقل وحمل بری طرح متاثر ہے۔ چیمبرکے ترجمان نے کہا کہ اگرپیداواربروقت باہر کی منڈیوں تک نہیں پہنچاتواس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے جس سے باغ مالکان اورتاجروں کو نقصان ہوگا۔چیمبرنے جموں کشمیر حکومت سے اپیل کی ہے کہ سرینگرجموں شاہراہ پر میوہ سے بھرے ٹرکوں کو بہ آسانی گزرنے کو یقینی بنایا جائے۔

حکومت میوہ صنعت سے جڑی آبادی کے پیٹ پر لات مارنے کی مرتکب : ساگر
سرینگر//حکومتی بے حسی کے باعث میوہ صنعت سے جڑے افراد کے مشکلات میںکوئی بھی کمی نہیں آرہی ہے ، سیبوں کو باہری منڈیوں میں لے جانے کیلئے ٹرانسپورٹ ایک بہت سنگین مسئلہ بن گیا ہے اور میوہ بردار ٹرکوں کی آسان نقل و حرکت کیلئے حکومت ابھی تک کوئی بھی ٹھوس اقدام اٹھانے میں ناکام رہی ہے اور تمام احکامات اور اعلانات کاغذی گھوڑے ہی ثابت ہورہے ہیں۔ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کیا۔ اس موقعے پر پارٹی کے رکن پارلیمان ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، ریاستی ترجمان عمران نبی ڈار اور پارٹی لیڈر ارشاد رسول کا بھی موجو تھے۔ ساگر نے کہا کہ جموں وکشمیر حکومت آئے روز ہارٹی کلچر کی ترقی کے دعوے کررہی ہیں لیکن دوسری جانب اس طبقہ کے لوگوں کو اندھیروں میں دھکیلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیرکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس صنعت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ مالکانِ باغات ہوں، ٹرانسپورٹر ہوں، پیٹی بنانے والے ہوں، میوہ باغات میں مزدوری کرنے والے ہوں یا پھر میوہ صنعت سے جڑے دیگر افراد ہوں، حکومت ان کے پیٹ پر لات مارنے کی مرتکب ہورہی ہے۔ ساگر نے کہا کہ گذشتہ روز ہی میں پارٹی سرگرمیوں کے سلسلے میں جنوبی کشمیر گیا تھا اور میں نے بذات خود لیتہ پورہ سے لیکر قاضی گنڈ تک ٹرکوں کی قطاریں دیکھیں اور اُس وقت شاہراہ پر کسی قسم کی خرابی نہیں تھی اور جو رپورٹیں ہمیں موصول ہورہی ہیں اُن کے مطابق یہ سلسلہ گذشتہ دو ہفتوں سے لگاتار جاری ہے اور صورتحال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ آج میوہ صنعت سے جڑے افراد نے دو دن کی ہڑتال کال دی ہے۔ ساگر نے کہاکہ کشمیر میں نہ تو کولڈ سٹوریج کی وسیع سہولیات دستیاب ہیں اور نہ ہی کولڈ چین ٹرانسپورٹیشن میسر ہے اور عام میوہ بردار ٹرکوں کی آسان نقل و حمل نہ ہونے کی صورت میں یہاں کی زیادہ تر پیداوار باہری منڈیوں تک پہنچنے پہنچنے خراب ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ انٹروینشن اسکیم کا مقصد گرے ہوئے پھلوں کے مسئلے کو حل کرنا تھا اور یہ سکیم اچھا کام کر رہی تھی۔بدقسمتی سے اس سکیم کی جگہ NABARD نے لے لی ہے جو گرے ہوئے پھل لینے سے انکار کر رہا ہے۔اس کے بجائے وہ درختوں سے براہ راست سیب اُنہی نرخوں پر چاہتے ہیں جو گرے ہوئے پھلوں پر لاگو ہوتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ پیکیجنگ اور کیڑے مار ادویات پر 18فیصد جی ایس ٹی کے علاوہ پلائی وینر بنانے والی فیکٹریوں نے سیب کے ڈبوں کی قیمت 70 سے 130 روپے تک بڑھا دی ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے نتیجے میںباغ مالکان کے مجموعی منافع میں کمی واقع ہوئی ہے۔این سی جنرل سکریٹری نے حکومت پر زور دیا کہ وہ میوہ صنعت سے جڑی ایک وسیع آبادی کو راحت پہنچنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ میوہ بردار ٹرکوں کی آسان نقل و حرکت سے باغبانی شعبے سے وابستہ لوگوں کیلئے سب سے بڑی راحت ہوگی اور حکومت کو ہر صورت میں پھلوں کے بلا خلل ٹرانسپوٹیشن کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ انہوںنے کہا کہ باہری ملکوں سے سیبوں کی درآمد سے کشمیری سیبوں کے قیمتوں کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور غیر قانونی درآمد نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اگر مرکزی حکومت اناج کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے اناج کی درآمد پر پابندی لگا سکتی ہے تو وہ سیبوں کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے سیبوں کی درآمد پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ا ولین فرصت میں سیبوں کی غیر قانونی درآمد پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ساگر نے کہا کہ اگر حکومت نے وقت رہتے جموںوکشمیر کی میوہ صنعت کو بچانے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو یہ صنعت جلد ہی دم توڑ بیٹھے گی۔

گاڑیوں کی نقل و حرکت آسان بنائی جائے :کشمیرٹریڈالائنس
سری نگر//کشمیر ٹریڈ الائنس نے سرینگر جموں شاہراہ پر میوہ بردار گاڑیوں کی بلا خلل نقل و حمل کو یقینی بنانے اور انتظامی احکامات کو عملی جامعہ پہنانے کا مطالبہ کیا۔ کشمیر ٹریڈ الائنس کے صدر اعجاز شہدار نے سرینگر جموں شاہرا پر پھلوں سے بھری ہوئی گاڑیوں کی نقل و حرکت آسان بنانے پرزور دیتے ہوئے کہا کہ درماندہ گاڑیوں میں میوہ خراب ہور ہا ہے،جس کے نتیجے میں تاجروں کو نقصانات کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے ہی منڈیوں میں ایرانی سیب کے نتیجے میں قیمتوں میں گرائوٹ آئی ہیں اور اب فروٹ گروروں کہ شکایت کہ شاہرا پر گاڑیوں کو روکا جا رہا ہے، تشویشناک امر ہے۔شہدار نے با غبانی کو جموں کشمیر میں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے کہا کہ سرکار نے اگر چہ پہلے ہی اس بات کا اعلان کیا تھا کہ شاہرا پر میوہ گاڑیوں کی نقل و حرکت کو آسان بنایا جائے گا اور اس کیلئے احکامات بھی جاری کئے گئے تھے،تاہم میوہ تاجروں کی شکایت ہے کہ ان احکامات کو عملی جامہ پہنانا ابھی باقی ہے۔اعجاز شہدار نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی اور زمینی ہدایات پر عمل درآمد کرے گی۔انہوں نے کہا کہ وادی کی 60 فیصد آبادی باغبانی کے شعبے پر منحصر ہے اور حکومت کو اس شعبے کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

ہرکنبہ سیب کی 2پیٹیاں خریدے
سول سوسائٹی فورم کی میوہ صنعت کوبچانے کیلئے اختراعی تجاویز
سرینگر//سول سوسائٹی فورم نے کشمیرکی میوہ صنعت کو زوال سے بچانے کیلئے کچھ منفردتجاویزپیش کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سب سے لدے ٹرکوں کوسرینگرجموں شاہراہ پربلاجوازروکنے سے احترازکرکے ان کے آسان نقل وحمل کویقینی بنایاجائے۔ایک بیان میں فورم کے چیئرمین عبدالقیوم وانی نے کہا کہ وادی کا ہر کنبہ بازار سے کم سے کم مقامی سیبوں کی دوپیٹیاں گھر کیلئے خریدے ۔انہوں نے کہ اس صنعت میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے کچھ اختراع کرنا ہوگا۔ وانی نے کہا کہ یہ ہر ذی شعور شخص کا کردار بن جاتا ہے کہ وہ مقامی پھل کھائے اور انہیں تحائف کے لیے پسند کرے اور اسے میوہ ضیافت کے طور پر وازوان کی دعوت میں شامل کرے۔بیان میں انہوں نے کہا کہ صحت کیلئے سیب کافی مفیدہے لیکن بدقسمتی سے اس پھل کو تقریبوں اور ریستورانوں میں کھانے کے ساتھ ایک ضیافت کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا، جسے اب ایک رجحان کے طور پر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بعد ازاں ایک صحت مند کھانے کی ڈش کے طور پر کام کرے گا اور سیب کی اقسام کی طرف کشش کو بھی فروغ دے گا۔وانی نے حکومت سے سری نگر جموں شاہراہ پر سیب سے بھرے ٹرکوں کی نقل وحمل کوآسان بنانے پر زور دیا۔ سوسائٹی نے لوگوں، تاجروں، ٹرانسپورٹرز، تاجروں، باغبانوں، بیچنے والوں اور خریداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ چیلنجوں کے اس مشکل وقت میں متحد ہو کر بحران کا مقابلہ کریں۔ سوسائٹی نے فروخت کنندگان سے کہا ہے کہ وہ پھل مقامی خریداروں کو رعایتی نرخوں پر فروخت کریں۔ ہوٹل والوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ سیب کے کچے اور پکے ہوئے اقسام کو سلاد اور کھانے میں شامل کریں اور ماہرین خوراک کی توثیق کے ساتھ کشمیر کے سیب کے طبی فوائد کو لٹریچر کے ساتھ اسے مینو میں شامل کریں۔ سوسائٹی نے معلوم کیا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، کشمیر ہر سال تقریبا 20 لاکھ میٹرک ٹن سیب برآمد کرتا ہے، اور باغبانی کی صنعت کی مالیت 8000 سے 9000 کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں اس سے پیدا ہونے والا روزگار بھی شامل ہے۔ کشمیر ملک میں سیب کی کل پیداوار کا 75 فیصد پیدا کرتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سیب کی صنعت کو دھچکا لگنے کا مطلب ہماری معیشت کو دھچکا لگناہے۔ مارکیٹ میں معیار کے بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے کے لیے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نہ کہ ہمت ہارنی چاہیے۔ تاہم سیب ہمارے بنیادی پھلوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے ہمیں اسے اپنی روزمرہ کی خوراک میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

بلا خلل ٹرانسپورٹ مہیارکھاجائے:نذیرایتو
سرینگر//عام آدمی پارٹی کے انجینئرنذیداحمدایتونے کہاہے کہ میوہ صنعت کے تئیں حکومت کے بے حس رویہ سے کشمیرمیں باغبانی شعبے کو شدیدنقصان ہورہا ہے۔ایتو نے میوہ اُگانے والوں کو سیب باہرکی منڈیوں تک پہنچانے کیلئے بلاخلل ٹرانسپورٹ سہولیات بہم رکھنے کامطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ آئے روز سرینگرجموں شاہراہ پرمیوہ سے بھرے ٹرکوں کو کئی کئی روزتک بلاجوازروکنے سے ان میں موجود میوہ سڑرہا ہے جس سے میوہ اُگانے والوں کونقصان ہورہا ہے۔

کشمیر کی میوہ صنعت تباہی کے دہانے پر: پیپلز کانفرنس
سرینگر // پیپلز کانفرنس نے پیر کو جموں سرینگر شاہراہ پر سیب سے لدے ٹرکوں کو روکنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح کی صورتحال کو کشمیر کی معیشت کے لئے نہایت ہی خطرناک قرار دیا۔ ایک بیان میں سابق قانون ساز اسمبلی ممبر اور پیپلز کانفرنس کے سینئر رہنما منصور حسین سہروردی نے کہا کہ بہترین اور اعلی قسم کے سیبوں سے لدے سینکڑوں ٹرک شاہراہ پر کئی دنوں سے درماندہ ہیں جس سے ٹرکوں میں موجود قیمتی سیب خراب ہونے کا اندیشہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ باغبانی صنعت کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور کشمیر میں ایک اندازے کے مطابق 144,825 ہیکٹر اراضی پر سیب کی کاشت کی جاتی ہے اور سالانہ 1.7 ملین ٹن سیب کی پیداوارہوتی ہے جس کے برآمدات کی مالیت 6000 کروڑ روپے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرینگرجموں شاہراہ کی جتنی ناگفتہ بہہ صورتحال آج دیکھی جا رہی ہے ، ماضی میں کبھی ایسی نہیں دیکھی گئی ہے ۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ سابق حکومتوں کی طرف سے اس شاہراہ پر سیب کے ٹرکوں کے بحفاظت گزرنے کے عمل کو اولین ترجیح ہوا کرتی تھی تاکہ وہ بغیر کسی تاخیر کے اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ تاہم موجودہ حکومت ایسے اہم معاشی شعبے کی حساسیت سے بے خبر دکھائی دیتی ہے۔ طرہ یہ کہ بڑھتے درجہ حرارت کے درمیان میوہ سے بھرے ان ٹرکوں کو شاہراہ پر متعدد دنوں تک روکے رکھنا بنیادی طور پر اس حوالے ایک تباہ کن عمل ہے ۔ اس بنیاد پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ حکومت کشمیر کی میوہ صنعت کو براہ راست شدید نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اس تعلق سے حکومت کو تاجروں کے ساتھ گفت و شنید کرکے کشمیر میں سیب کی صنعت کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مثبت پہل کرنی چاہئے ورنہ تباہ کن صورتحال کے دستک دینے میں کوئی دیر نہیں ہے ۔