سِتارے مقالہ

ملک منظور

 

با لآخر ڈراؤنی رات کے آخری پہر نے صبح کی آمد کے ساتھ ہی اپنا بوریا بستر سمیٹ لیا تھا ۔سورج کی باریک کرنوں سے نور کی شعاعیں بکھر رہی تھیں۔موذن کی اذان سے صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ گلیاں اور چوبارے آنے جانے کے لیے کھلی تھیں ۔پرندوں کی چہچہاہٹ اور گاڑیوں کی پی پی سے لگتا تھا کہ خوبصورت اور دلکش صبح کا آغاز ہوگیا تھا ۔آج کسی کے چینخنے چلانے کی آواز سننے کو نہیں ملی تھی ۔سب لوگ بےخلل نیند سے بیدار ہوگئے تھے اور خدا کا شکر بجا لانے کے بعد ناشتہ کرچکے تھے۔طاہرہ اپنے کچن میں دوپہر کا کھانا تیار کر رہی تھی ۔بچے لابی میں کھیل رہے تھے، اسی اثنا میں دو بھائی اچانک کھیلتے کھیلتے لڑ پڑے۔ چھوٹا بیٹا سالک چلا چلا کر کہنے لگا۔امی امی جان ۔۔دیکھو آکاش بھیا نے مجھے مارا اور میرے سٹارز چھین لئے ۔ماں کچن میں مصروف تھی ۔اس نے یہ سوچ کر توجہ نہیں دی‌کو بچے اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتے ہیں اور پھر صلاح بھی کرتے ہیں۔چینخنے چلانے کی آوازیں سننا اس کا معمول تھا، اس لئے چلانے سے اس پر زیادہ اثر بھی نہیں ہوا ۔لیکن‌جب بچوں نے ہلا مچایا تو وہ غصے سے لال ہوکر باہر آئی اور آکاش سے کہنے لگی ۔آکاش آکاش !ادھر آؤ ۔تم نے بھائی کو کیوں مارا اور تماشے چھین لئے ۔آکاش ہاتھ میں تماشے لے کرماں کے سامنے آیا اور کہنے لگا ۔۔۔ماں دیکھو یہ میرے سٹارز ہیں ۔ماں نے جب تماشے دیکھے تو وہ ہکبکائی اور آکاش سے پوچھنے لگی ۔بیٹا یہ ستارے کہاں ملے تجھے؟

امی  میں نے ان کو کل شام کو چنار کے نیچے سڑک پر پایا ۔یہ وہاں بکھرے ہوئے تھے، آکاش نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔ماں نے مزید جانکاری کے لئے پوچھا ۔وہاں اور کوئی چیز تو نہیں ملی؟ آکاش نکارتے ہوئے ۔۔۔نہیں، امی جان نہیں ۔

طاہرہ یہ ستارے ہاتھ میں لے کر جلدی جلدی اپنے شوہر اعجاز کے پاس گئی جو صحن میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور ستارے دکھا کر کہنے لگی ۔یہ وردی کے ستارے ہیں نا ؟اعجاز نے جب ستارے دیکھے تو ان میں خاکی دھاگے ابھی بھی لگے ہوئے تھے ۔اس نے دست پاچہ ہو کر طاہرہ سے پوچھا ۔یہ کہاں ملے تجھے؟یہ تو سچ مچ کسی خاکی کے لگ رہے ہیں ۔طاہرہ نے گھبرا کر جواب دیا ۔۔۔آکاش نے ان کو چنار کے نیچے پایا ۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی انہونی نہ ہوئی ہو ۔

اعجاز بھی گھبرایا ۔کیوں کہ ان کے شہر میں اَن گنت ایسے سفاک موجود تھے جن کا نہ کوئی نام تھا اور نہ کوئی پہچان۔اس کے علاوہ اس شہر میں دل دَہلانے والے بے شمار واقعات پیش آئے تھے ۔لہٰذا گھبراہٹ اور خوف کا ماحول ہر سو تھا۔کب کون خونخوار درندوں کا شکار ہوجائے، معلوم نہیں تھا ۔لیکن اعجاز نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاہرہ سے کہا ۔چلو وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ کہیں شکاریوں نے شکار تو نہیں کیا ہے۔

دونوں فوراً چنار کے نیچے پہنچ گئے اور بےنام چیزوں کو ڈھونڈنے لگے۔ جب وہاں کچھ نہیں ملا تو پاس والے باغ میں چلے گئے اور ایسے ڈھونڈنے لگے جیسے لعل بدخشاں کھو گیا ہو یا جیسے آسمان سے انہوںنے کسی تارے کو ٹوٹتے دیکھا ہو یا کسی کا لعل جگری کھو گیا ہو۔گھاس میں گھسیٹنے کے نشان دیکھ کران‌کے من میں شبہات بڑھتے گئے ۔ہر درخت کے نیچے اور نالیوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ ایک ندی کے کنارے پر پہنچے ۔جب تھکے ہارے وہ ندی کے کنارے پر بیٹھ گئے ۔تو ان کے من میں ایک پل کے لئے گھبراہٹ دور ہوگئی۔ انہوںنے چین کی سانس لی ۔کیوںکہ اس سے پہلے جب بھی وہ ایسے ڈھونڈنے نکلتے تھے تو کسی نہ کسی کی آنکھوں کا لعل وہ ضرور زمیں بوس ہوکر پاتے تھے ۔لیکن آج اُن کو کچھ نہیں ملا تھا،اس لئے پل بھر کے لئے ان کے چہروں پر مسکراہٹ کی لہر دوڑ گئی اور ڈر ٹوٹ گیا ۔اسی اثنا میں طاہرہ نے اپنے دائیں طرف جب دیکھا تو اس کے منہ سے زور دار چینخ نکلی ۔پاس میں بیٹھے شوہر نے پوچھا ۔کیا ہوا؟

طاہرہ نے روتے ہوئےانگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔وہ دیکھو ۔۔۔۔ !

اعجاز نے جب دیکھا تو اس نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔یا خدا ۔۔۔ ماں کا یہ لختِ جگر تو حلیمی اور شرافت سے مالامال تھا ۔کافی مشقت کے بعد بیچارے کو یہ ستارے ملےتھے۔

[email protected]