سفید جزیرہ۔ایک علامتی بیانیہ تبصرہ

خان زاہد

سفید جزیرہ ایک کامیاب سیاسی طنزیہ ناول ہے۔علامت کے پردے میں نسیم حجازی نے سیاسی انارکی اور اندرونی خلفشار کا پوسٹ مارٹم رپورٹ پیش کیا ہے۔نسیم حجازی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ جب بھی کبھی علامت کا دامن تھامتے ہیں تو وہ تب تک اسے نہیں چھوڑتے جب تک کہ نہ پورے پورے معنی و مفاہیم اس سے برآمد کرتے ہیں۔بالخصوص تاریخ پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے۔انہیں تاریخ کے سانچے میں قوموں کے مستقبل کا آئینہ دکھانے میں ید طولی حاصل ہے۔زیرِبحث ناول اس امر پر صدارت کی مہر ثبت کرتا ہے۔ سفید جزیرہ کے وزراء ،اعلی حکام اور سیاسی رہنما دراصل علامت کے پردے میں برصغیر کے اس چھوٹے سے خطے کی تنگ نظری اور آپسی چپقلش کا غماز ہے جو کبھی سیاسی منظر نامے پر یک لخت ایک آزاد ملک بن کر ابھرا تھا۔اس بات کی دلیل خود مصنف کے یہ الفاظ پیش کرتے ہیں:
’’میں نے حال کے واقعات کی روشنی میں مستقبل کے بھیانک سائے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔پاکستان کی مٹی میں برائی کا جو پودا جڑ پکڑ چکا تھا میں نے اسے ایک خیالی جزیرے میں ایک تناور درخت کی حیثیت میں دکھایا ہے۔میں نے سفید جزیرے سے ایک دیوار یا سکرین کا کام لیا ہے اور اگر اس دیوار پر نظر آنے والی پرچھائیوں اور پاکستان کے چند محروم القسمت سیاستدانوں میں کوئی مشابہت پیدا ہوگئی ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جب میں اس دیوار یا سکرین پر ٹارچ کی روشنی ڈال رہا تھا تو میرے آگے قوم کے وہ مجرم کھڑے تھے جن کی کارگزاریوں کے باعث پاکستان میں پتھر کے زمانے کے”گداگر بادشاہ” اور “گدھا وزیر” کی یاد تازہ ہو رہی تھی۔‘‘(۱)
ناول کا انتساب بھی سیاسی چیرہ دستیوں پر ایک زہر آلودہ طنز ہے۔یہ اقوام مسلمہ کے ان باشندوں کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے جنہوں نے سیاسی تنگ نظری کے بنا پر اپنے ملک کی بھاگ دوڑ گدھے نما انسانوں کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ایک سانحہ میں ہی ملک کے سیاسی منظر نامے پر مفاد پرست،ابن الوقت،منافع خور اور اسمگلر غالب آگئے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قسم کی سیاسی غلطیاں معاف نہیں کرتا ہے بلکہ ان غلطیوں کی درد ناک سزا کے طور پر جاہل حکمرانوں کو عوام پر مسلط کرتا ہے۔جن کی سیاسی کوتاہ نظری پورے ملک کے مجموعی امن و سلامتی کو تہہ و بالا کر کے رکھتی ہے اور عوام خارجی دباؤ اور گھٹن کے زیر سایہ اُن ظالمانہ اور بیہمانہ قوتوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت بھی کھو دیتے ہیں۔سفید جزیرہ ایک علامت ہے ماضی،حال اور مستقبل کے ان اقوام کی جن کی طاقتوں،اتحاد اور سیاسی بصیرت کو خانی جنگی نے ریزہ ریزہ کر دیا۔ان کی آپسی خانی جنگی سے وقت کے سامراجی ممالک خوب فائدہ اٹھانے میں محو و مگن ہو جاتے ہیں۔ان سامراجی قوتوں کی علامت “کالاجزیرہ”ہے۔چنگ سن ایک ایسا دور رس اور عمیق النظر وزیر ہے جو کسی بھی قوم و ملک کی حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔لیکن اختلافی معاشرے میں ان جیسے وزیروں کی بھی سیاسی بصیرت خارجی دباؤ کے نتیجے میں زنگ آلودہ ہو جاتی ہے۔ایسے قوم کی حالت جہاں پر کوئی قوم و ملت کے مفاد سے پرے اپنے ذاتی مفاد کو اولیت اور ترجیح دے،تاریخ گواہ ہے وہاں ہمیشہ سیاسی انتشار ایک ناگ کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ایسے قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے آسمان سےجارج قہر اللہ (کنگ سائمن) جیسے سنگ دل،مفاد پرست،جاہل اور ظالم حکمران حکومت کرنے لگتے ہیں۔ایسے حکمران کی ہر نظر اور ہر سوچ اپنے شاہی تختے کو مضبوط کرنے کے لیے اٹھتی ہیں۔اپنے شاہی تختہ کو دوام بخشنے کے لئے کسی بھی حد تک گرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ،خواہ اس میں قوم و ملک کی پوری اقتصادی،تعلیمی اور معاشرتی حالت بھی بگڑ جائے۔جب جب سفید جزیرہ کے لوگ ہوش کے ناخن لے کر بیدار ہونے کی جسارت کرتے ہیں تب تب کنگ سائمن جیسے حکمران ایسی سازشیں مرتب کرتے ہیں جو ان کے لیے افیون کا تاثیر رکھ کر بے حس و حرکت کر دیتا ہے۔ کنگ سائمن جیسے حکمرانوں کی ظلم و زیادتیاں جب اپنے سرحد پھلانگ کر گزر جاتی ہے تب جاکر قوم و ملک سیاسی خواب غفلت سے بیدار ہو کر اس کے تختے کو الٹنے کی تدبیریں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ناول سفید جزیرہ قوموں کے اس خواب سے غفلت اور غفلت سے خواب کی آمیزش کی ایک علامتی کہانی ہے۔قوم اپنی سیاسی غلطیوں کو یاد کر کر کے اللہ کے حضور میں اس کی معافی طلب کرتے ہیں:
’’زمین اور آسمان کے مالک!آج کے دن ہم تیری بارگاہ میں تشکر کے آنسو پیش کرتے ہیں۔آج کے دن تو نے ہمیں ایک بلاے عظیم سے نجات دلائی تھی۔ہمارے نئے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ ہماری بلند ترین توقعات پوری کر سکیں۔تو نے ہمیں ایک بھیانک دلدل سے نکال کر نئی زندگی کا راستہ دکھایا۔اب ہمیں اس راہ پر چلنے کی توفیق دے۔اس ملک پر کنگ سائمن کا اقتدار ہماری اپنی غلطیوں کی سزا تھی اور ہم صدق دل سے یہ عہد کرتے ہیں کہ آئیندہ ہم غلطیاں نہیں کریں گے ہم اپنی قسمت کسی سائمن کسی شوشلنگ یا کسی ایچو لیچو کے سپرد نہیں کریں گے۔ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہمیں نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کا شعور عطا کر۔‘‘(۲)
اور اس طرح ایک قوم کروٹ بدل کر نئے نئے اصلاحی منصوبوں اور نئے نئے تعمیروں کی راہ ہموار کرنے لگتا ہے۔ ہر قوم کی تقدیر اس کے افراد کے ہاتھوں سے تعمیر ہوتی ہے۔ افراد جب تک نہ انقلابی ذہنیت کے حامل ہوں تب تک ترقی کے تمام دروازے بند پڑے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وعدہ کیا ہے کہ وہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک نہ وہ قوم اپنی حالت آپ بدلنے کی سعی نہ کریں۔
حوالہ جات: (۱)نسیم حجازی،سفید جزیرہ(ناول)صفحہ،۱۱(۲) نسیم حجازی ،سفید جزیرہ(ناول) صفحہ،۲۲۴
(متعلم شعبۂ کشمیر یونیورسٹی)
[email protected]