زکوٰۃ کی ادائیگی اہم کشکول کلچر باعث ِ شرم

بشارت  بشیر 
ایک فلاحی اسلامی معاشرہ جن بنیادوں پر قائم رہتا ہے اُن میں ایک دوسرے کے تیئں رحم،شفقت ،محبت و مودت اور ہمدردی و غم خواری کو اہم تر مقام حاصل ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ میدان معیشت میں ہر شخص بر سر جدوجہد نظر آتا ہے لیکن قدرت کے ازلی قانون کے تحت حصول سرمایہ میں سب برابر نہیں ہوسکتے اور معاشرہ میں اقتصادی لحاظ سے اونچ نیچ ایک لازمی اور فطری عمل ہے اور سماج کا وہ طبقہ جو کافی جدوجہد کے بعد بھی جینے کی حد تک اپنی ساری ضروریات پوری نہیں کرسکتا،اسلام نے اُن سے آنکھیں نہیں پھیر لی ہیں اور نہ انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے اپنے اسباق کا اہم ترین موضوع بناکران کی امداد و عانت کوصاحب ثر و ت لوگوں اور متوسط طبقہ پر لازم ٹھہرایا ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ نظر رہے کہ انتہائی کٹھن اورد شوار گذار حالات میں بھی اسلام اپنے پیرو کاروں کے ہاتھ میں گدائی کا کشکول دیکھنا نہیں چاہتا کہ اس سے ان کی عزت نفس کی موت بُری طرح ہوتی ہے،وہ ہر لحاظ سے ایک مومن کو صابر،محنتی اور جفاکش دیکھنا چاہتا ہے اس لئے اُس نے دن بھر حلال ذرائع سے خون پسینہ ایک کر کے شام کو اپنے اہل خانہ کو کھلانے والے ہر لقمہ تک کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے۔جفاکشی کی تعلیم اسلام کس انداز سے دیتا ہے کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے والے ایک انصاری صحابی سے اُس کا پیالہ اور کمبل فروخت کروا کر کچھ پیسے غذا اور کچھ سے کلہاڑی  خریدنے کا حکم فرمایا اور پھر اس کلہاڑی میں خود اپنے مبارک ہاتھوں سے دستہ لگایا۔ اُسے یہ فرماکر جنگل سے لکڑی کا ٹنے کا راستہ دکھایا کہ توپندرہ دن تک میری مقدس نگاہوں سے نہ گذرے۔سائل گیا ،مشقت شروع کردی ،کاٹی ہوئی لکڑی شام کو بازار میں فروخت کرنے لگا،کچھ پیسہ مل گیا۔ضروریات زندگی کی کچھ اشیاء خریدیں ۔پندرہ روز کے بعد حاضرخدمت ہوکر سرگذشت سنائی تو زبان و حیٔ ترجمان گویا ہوئی۔یہ(یعنی مشقت کا یہ عمل)اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم کسی سے بھیک مانگو۔اور قیامت کے دن ذِلت اٹھائو،فرمایا:’’سوال کرنا تین حالتوں میں درست ہے۔سخت افلاس یا قرض میں یا خون ناحق کے تاوان میں‘‘۔
غرض اسلام دستِ سوال دراز کرنے کے ہر عمل کو انتہائی ناپسند کرتا ہے،کچھ حضرات جو محنت سے جی چرانے اور پاؤں پسارے کوئی کام کئے بنا کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور کام کاج سے بچنے کے لئے اس حدیث نبوی کو دلیل بناتے ہیں اور اس کو تو کل کا نام دیتے ہیں کہ ’’ اگر تم خدا پر بھروسہ کرو تو وہ تم کو پرندوں کی طرح رزق عطا کرے گا ،تم دیکھتے ہو کہ وہ صبح خالی پیٹ گھونسلوں سے نکلتے ہیں لیکن شام کو آسودہ ہو کر واپس آتے ہیں‘‘ دراصل وہ اس مقدس ارشاد کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں دانستہ غلطی کے مر تکب ہوتے ہیں۔حدیث کی اصل روح تو یہی ہے کہ پرندے شام کو شکم سیر ہو کر جب ہی آتے ہیں جب وہ دن بھر حصول رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اور یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم معاشی جدو جہد کوجاری رکھنے پر دال ہے۔یہاں ایک انتہائی سبق آموز حکایت بھی اس حوالہ سے سپرد قلم کروں ،جو ہمیں حصول معاش کے لئے جدو جہد اور بے بسوں کی امداد کے تعلق سے بھی درس زرّیں فراہم کرتی ہے۔ایک معروف متقی شخصیت جب اپنے ایک ہم عصر پرہیز گار رفیق کے پاس سفر تجارت پر روانہ ہونے کے لئے اُن سے رخصت حاصل کرنے لگے  دعائیں  لے کر رخصت ہوئے تو تو قع کے خلاف چندہی روز بعدوداع کرنے والی شخصیت نے اُنہیں مسجد میں دیکھ کر اندار ہی اندر تاسف کا اظہار کیا کہ یاالٰہی بس تھوڑے سے دنوں میں میرے یہ دوست کو نسی تجارت کر کے آئے ہیں؟دوست پھر حاضر خدمت ہوئے اور فوری واپسی کے وجوہات بیان کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ حضرت دوران سفر ایک تاریک جنگل میں ایک بے بس معذوراور اندھے پر ندے کو دیکھ لیا اس کی زندگی کی گاڑی کیسے چلتی ہوگی۔گذر بسر کیسے ہوتی ہوگی،بھلا اس جنگل میں اُس کی غذائی ضروریات کون پوری کرتا ہوگا اسی سوچ میں مگن تھا کہ ایک اور پرندے نے اپنی چونچ میں کوئی شئے لاکر اس کے سامنے رکھدی اور خود فضاؤں میں اُڑ کر رفوچکر ہوا،ادھراس معذور اور اندھے پر ندھے نے اس کے سامنے ڈالے ہوئے دانے کھاکر شکم سیری کا سامان کر ہی لیا۔تو پھر کیا ہوا؟دوست نے سوال کیا ۔حضرت پھر کیا ہونا تھا۔میر اتو تجارت کا ارادہ ہی بدل گیا اور سوچا کہ ان کھنڈرات میں بھی اللہ اگر ایک معذورواندھے پرندے کے رزق کا اہتمام کرتا ہے تو میں کیوں حصول رزق کی تلاش میں صحراو بیابان اور شہر و دیہات کی خاک چھانتا پھروں،اچھا تم نے اس واقعہ سے یہ سبق حاصل کیا ،وداع کہنے والے دوست نے جواب دیا۔اصل میں اس واقعہ میں جو فلسفہ پوشید ہ ہے وہ تم سمجھے ہی نہیں ہو‘‘۔تم نے کیوں وہ پرندہ بننا پسند کیا جو انتہائی معذورو بے بس ہے اور دوسروں کے دانہ پانی کا محتاج ہے۔وہ پرندہ بننے میں تم خوش کیوں نہیں جو دن بھر خود معاش ورزق کی تلاش میں رہا ،خود بھی آسودہ ہوا اور ایک اور بے بس پرندے کی شکم سیر ی کا سامان بھی کردیا۔یہ سن کر اُس دوست کی آنکھیں کھل گئیں۔بزرگ کا شکریہ ادا کیا،ایستادہ ہوئے اور سفر تجارت پر روانہ ہوئے‘‘۔
ہاں۔اسلام زبردست جفا کشی اور محنت کا درس دیتا ہے اور خوامخواہ گداگری اور دست سوال دراز کرنے کے عمل سے اسے شدید نفرت ہے۔اس لئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔’’تم میں سے جو بھیک مانگتا ہے وہ جب خدا کے سامنے جائے گا تو اس کے چہرے پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی‘‘۔(بخاری)۔ایک اور دفعہ ارشاد فرمایا’’جس نے پائی پائی جوڑنے کے لئے لوگوں سے سوال کیا وہ درحقیقت روپے کا نہیں آگ کا سوال کرتا ہے اب یہ اس کا کام ہے کہ آگ کے اس ڈھیر کو کم کرے یا زیادہ کرے‘‘۔(مسلم)۔ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا’’جس نے بھیک مانگنے کا راستہ اختیار کیا ِ،خدا اُس کے لئے غربت اور افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے‘‘۔دیکھا آپ نے۔خدا کا یہ آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے جو بلاوجہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیںسے کس درجہ ناراض ہیں۔ہاں جیسا کہ عرض کر چکا کہ اسلام انتہادرجے کی محنت کے بعد بھی اپنی ضروریات پوری نہ ہونے والے اپنے پیرو کا ر کویوں ہی نہیں چھوڑ تا بلکہ غربت وتہی دستی کے شکاران لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے زکواۃ کا ایک مربوط اور مضبوط قاعدہ بنا کے رکھ دیا ہے،اور صاحب نصاب لوگوں کی اس حکم کی تعمیل میں پہلوتہی کو اُن کے لئے شدید عذاب کا موجب گردانتا ہے اور زکواۃ کی اس بروقت ادا ئیگی کو سورہ مومنون میں کامیابی کی دلیل سورہ نمل میں موجب ہدایت و خوش خبری قرار دیتے ہوئے سورہ فصلت میں اس کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کو یہ وعید سناتا ہے۔’’کہ بُرا ہو مشرکوں کا یہ نہ زکواۃ ادا کرتے ہیں اور نہ ہی آخرت پر ایمان لاتے ہیں‘‘۔
قران نے ملت و قوم کے صاحب ثروت لوگوں کو یہ باورکرادیا ہے کہ یہ دولت کی ریل پیل ،یہ باغات ،یہ عالی شان محلات،یہ آرام دہ سواریاں تمہاری ذہنی اُپج اور زور بازو کا کمال نہیں بلکہ یہ تم پر اللہ تعالی کا فضل و احسان ہے۔اس دولت و مال میں مصیبت اور غربت کے ماروں کا خاص حق ہے جس کی عدم ادائیگی تمہیں بُرے انجام سے دوچار کرکے ہی رہے گی۔چشم فلک نے ان احکامات پر عمل پیرا معاشرہ کو بھی دیکھ لیا کہ بہت مدت تک پھر لاکھ ڈھونڈے میں بھی کوئی زکواۃ لینے والا مل نہیں پایا۔یہ بھی واضح رہے کہ اسلام نے زکواۃ کے حقداروں کے مدات بھی مقرر کئے ہیں اور اس کے لئے ہم سبھوں باالخصوص صاحب ثروت و نصاب لو گوں کے لئے قرآن حکیم کی سورہ توبہ کی آیت ۶۰ کو بہ نظر غائیر دیکھنا اور پھر اس کی تشریح و توضیح سے مستفید ہونا لازم بن جاتا ہے۔ان اہم مدات میں سب سے پہلے فقراء و مساکین کا نمبر ہے۔فقراء مساکین کی تعریف میں قول راجح یہی ہے کہ فقیر وہ ہے جو ضرورت اور حاجت  مند ہونے کے  باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے اور مسکین وہ ہے جو ہر کس ناکس کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے،اور بعض نے یہ کہا ہے کہ فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور مسکین وہ جس کے پاس کچھ نہ کچھ ہو۔بہر حال یہ بات تو دواور چار کی طرح واضح ہوگئی کہ پیشہ ور گدا گروں کا زکوٰۃ میں کوئی حصہ نہیں۔جن کی لمبی لمبی قطاریں مسجدوں، خانقاہوں، بازاروںاور صاحب حیثیت لوگوں کے دروازںاور بس اڈوں میں نظر آتی ہیں۔خود حضور ؐنے فقیر کی تعریف یوں فرمائی ہے ۔’’ایک یا دو کھجوروں یا روٹی کے چند لقموں کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے والا فقیر نہیں ،فقیر وہ ہوتا ہے جو ہر ایک سے سوال نہ کرے۔چنانچہ تم چاہو تویہ آیت پڑھو۔{ویسئلون الناس الحافا } (بقرہ:۲۷۳)
کام چوری ،بے وجہ بھیک منگی ،کہالت و سستی تو ایک عرصہ سے کچھ لوگوں کی فطرت ثانیہ بن کے رہ گئی ہے اور یہ لوگ نت نئے بہانے بناکر فرضی داستانیں گھڑ کر سُننے والوں کے دلوں کو نرم کرکے دن کے اُجالے میںانہیں لوٹ لیتے ہیں،یہ بس آج کی صورت حال نہیں سینکڑوں برس قبل بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی۔امام غزلی ؒ نے ان جیسے لوگوں اور ان کی بہانہ بازیوں کو خوب جانچا پر کھا ہے۔فرماتے ہیں۔’’یہ لوگ اپنی مسکینی و محتاجی اور لا چاری کو ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے ڈھونگ رچاتے ہیں،ان کی بعض حرکات ایسی ہیں جو اُنہیں قابل رحم بناتی ہیں کچھ سچ مچ اندھے بن جاتے ہیں اور کچھ اندھوں کے سرپر ست اور بعض کسی فالج زدہ،پاگل یا اپاہج یا بیمار کا روپ دھار لیتے ہیں۔یہ لوگ سچے جھوٹے قصے مقفیٰ عبارتیں اور جوشیلی نظموں کا سہارا لیتے ہیں۔ان کی تاثیر اُس وقت زیادہ ہوجاتی ہے جب اُن میں مذہب کی آمیزش یا حسن و عشق کا سوزو گداز شامل ہوتا ہے۔کچھ لوگ ساز وآواز کا سہارا لیتے ہیںاور چنگ و رباب سے لوگوں کو مسحور کرلیتے ہیں‘‘(احیاء علوم الدین صفحہ 198-197 جلد ۔۳) دیکھا آپ نے حضرت امام غزالیؒ نے بہت پہلے اس قبیل کے لوگوں کی جعلسازیوں کا بھانڈ ابیچ چورا ہے پر پھوڑ دیا ہے اور تا ایں دم یہ صورت حال کچھ نئی شکلوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ رمضان المبارک 1445ھجری اپنے جوبن پر ہے اورگداگروں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ہر طرف لگے ہوئے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی یہ بھیڑہمیں زکواۃ کی ادائیگی کے وقت اصل حقدار تک رسائی حاصل کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہو ۔یاد رہے کہ ہزاروں لاکھوں ہمارے بھائی بہن اس وقت خون کے آنسو رور ہے ہیں،رمضان کے ایام میں جانے کتنے گھروں میں پتہ نہیں کتنے دنوں سے چولہا تک نہ جلا ہو،جو مساکین و فقراء کے زمرے میں آتے ہیں۔ستم ہائے روز گار کے شکار تہی دست لوگوں کا یہ کارواں اپنی داستان درد سنانے پہ آئے تو پھر پہاڑوں کا سینہ بھی شق ہو جائے مگر چہرے پر زردی اور مردنی چھائے یہ لوگ ہماری نظریں بچا کے اور راستے بدل کے چلے جاتے ہیںانہیں اپنی پریشان کُن بپتا سنانا آتاہی نہیں اور ہمارے دروازوں پر آکر اپنی حمیت کا سودا کرنا نہیں چاہتے۔ہمیں انہیں تلاشنا ہوگا۔ڈھونڈنا ہوگا اور پھر تلاش کرکے ان کی ہر نوع کی دل جوئی کے سامان کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔اور یقیناً یہی لوگ ہماری امداد اور زکواۃ کے اولین مستحق ہیں۔  یادرہے،یہ کام پہلے اپنے اقرباء سے ہو اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھے ،یہی روح اسلام ہے۔ہاں یہ بھی واضح رہے،آج اگر ہم نے کسی کی مدد و اعانت کی توکل اُس کی کسی حرکت سے اگر ہمارے دل کو کوئی ٹھیس پہنچی ،ردعمل میںہم نے امداد کا احسان جتلایا تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے۔
بہر حال ہماری امداد کے اولین حقدار فقراء مساکین ہی ہیں اور اس مد کی زبردست اہمیت ہے۔بے شک دینی مدارس بھی اگر وہ شرائط پورے کرتے ہوں جو اس کے لئے لازم ہیں،یہ امداد لے سکتے ہیں۔اس لئے لازم ہے کہ ہم اس جانب ہر نوع کا دست امداد بڑھائیں اور ملی حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں۔مختصر اً یہ کہ زکوٰۃ سے جہاں ہمارے مال کا تزکیہ ہوتا ہے وہاں یہ حب جاہ مال ختم کرنے کا ایک اہم ترعمل اور ملت میں مساوات قائم کرنے کا کارگرذریعہ ہے۔یہی بات زکواۃ کے حوالہ سے علامہ اقبال نے یوں کہی ہے۔
حب دُنیا رافنا ساز زکوٰۃ ہم مساوات آشنا ساز دزکوٰۃ
)رابطہ۔7006055300)