روح کی گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھا کرو!

اب ایک نظر ڈالتے ہیں اس رمضان پر جو ہم میں سے بیشتر لوگ بسر کرتے ہیں۔ ہم سحری کھانے کے لیے بالکل آخری وقت میں اٹھتے ہیں جب کہ سحری کا  وقت نکل رہا ہوتا ہے۔ایسے میں بڑی مشکل سے سحری کھانے کا وقت مل پاتا ہے، تہجد کی نماز تو چھوٹ ہی جاتی ہے۔ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ وقت پر سحری کرنے کے بجائے رات میں کچھ کھا پی کر سو جاتے ہیں اور سحری کے وقت میں اٹھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے جب کہ سحری کھانے کی فضیلت ایک سے زائد صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہے۔بھر پیٹ سحری کھانے کے بعد عموما مسجد میں فجر کی نماز کا انتظار کرنا اور مسجد تک جانا طبیعت پر گراں گزرتا ہے اس لیے کبھی گھر میں فجر پڑھ کر اور کبھی فجر چھوڑ کر بھی  سو جاتے ہیں۔جو لوگ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جاتے بھی ہیں وہ بھی سلام کے ساتھ ہی واپس آکر بستروں میں دبک جاتے ہیں اور ذکر اذکار ہمیشہ کی طرح چھوٹ جاتے ہیں۔
اس کے بعد پھر آنکھ کھلتی ہے ظہر کی نماز کے ساتھ وہ بھی ان لوگوں کی جو نماز پڑھتے ہیں ورنہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو عصر کے وقت اٹھتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ بازار سے افطاری کا سامان لانا اور افطاری کے لذیذ دسترخوانوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔عصر سے کچھ پہلے کا وقت عموما بازار کرنے کا ہوتا ہے، اس وقت بیشتر لوگ سودا سلف لانے نکلتے ہیں اور افطاری کے لیے رنگا رنگ دسترخوان سجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ افطاری کے دوران بھی دنیا داری کی ہی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ دیرتک افطاری کرنے اورذائقہ دار پکوانوں سے لطف اندوز ہونے میں مغرب کی نماز مسجد میں چھوٹ جاتی ہے اور گھر پر ہی جماعت بنا کر یا تنہا ادا کر لی جاتی ہے۔
مغرب کے بعد چونکہ افطاری کی وجہ سے طبیعت بوجھل ہوتی ہے اس لیے کچھ دیر آرام کرنے لیٹ جاتے ہیں اور پھر عشاء کی نماز کے لیے کسی ایسی مسجد کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کم سے کم دنوں میں، کم سے کم وقت میں قران مجید سمیٹ دیا جاتا ہو (والعیاذ باباللہ)۔تراویح کی نماز سے واپس آکر کھانا کھاتے ہیں اور اس کے بعد گھروں میں یا سڑکوں پر گپ شپ کے ذریعہ نیند آنے تک وقت گزاری کرلیتے ہیں۔رہی بات روزہ دار کو افطاری کرانے کی تو یا تو وہ شخص ’اجتماعی افطاری‘ کا اہتمام کراتا ہے جو اگلے سال الیکشن لڑنے والا ہوتا ہے یا پھر کچھ اسلامی تنظیمیں جن کو اپنی سالانہ رپورٹ میں ’اجتماعی افطاری‘ کو شامل کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ انفرادی طور پر افطاری تقسیم کروانے کا اہتمام کرتے ہیں وہ بھی عموما اپنے ہی’اسٹیٹس‘ کے لوگوں کے گھروں میں بھجواتے ہیں تاکہ دونوں طرف سے لین دین چلتا رہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم شب قدر کا اہتمام بھی کرتے ہیں تو اس انداز سے کہ عبادت کم اور میلہ زیادہ لگتا ہے۔ چائے اور دیگر مشروبات کے دور چلتے ہیں،محض لوگوں کی نیندیں خراب ہوتی ہیں۔ عبادت کا نام و نشان شب قدر میں بھی نہیں ہوتا۔
معاف کیجئے گا میری باتیں شائد کچھ زیادہ تلخ ہو گئیں لیکن آپ خود اپنے آس پاس ایک نظر ڈالیئے یقینا آپ کو ہمارے معاشرہ اور سماج کے بیشتر افراد کچھ اسی انداز میں رمضان گزارتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ذرا آپ خود بتایئے آخر یہ بے روح رمضان کس کام آنے والے ہیں؟ کیا اس طرح بتائے گئے رمضان قیامت کے دن آپ کے حق میں شفاعت کر سکیں گے؟ کیا ایسی تراویح جس میں نہ سننے والے کو ہوش ہوتا ہے نہ سنانے والے کو کچھ خبر ہوتی ہے اپنے پڑھنے اور پڑھانے والے کے حق میں شفاعت کر سکیں گی؟کیا یہی تربیت اور ٹریننگ اللہ تبارک و تعالیٰ کو منظور تھی جو اس نے ہمیں ایک پورے مہینہ ’ماہ رمضان‘ سے نوازا؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ یہ رمضان ہر گز وہ نہیں جو شریعت کو مطلوب ہے۔ یہ وہ رمضان ہو ہی نہیں سکتا جو پیارے نبی کے امتیوں کو راس آجائے، صالح طبیعتیں کبھی اس طرح سے رمضان کے دن بسر نہیں کر سکتیں۔؎
روح کی گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھا کرو
ایک دھوکا ہے نظر کا یہ سراسر سامنے!
اب میں اس سلسلہ میں کچھ عملی باتیں آپ کے سامنے ذکر کرتا ہوں جن کے ذریعہ امید ہے کہ رمضان کے اس بے روح قالب میں جان ڈالی جا سکے گے۔قرآن مجید کی جس آیت کا میں نے بالکل شروع میں ذکر کیا تھا اس میں صاف لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے، اس کتاب کے ذریعہ حق و باطل میں فرق کیا جا سکتا ہے۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم قرآن مجید کو خوب خوب پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن مجید سے ہدایت صرف قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعہ نہیں حاصل کی جا سکتی کیونکہ ہم میں سے بیشتر لوگ عربی زبان سے نا واقف ہیں۔ اس لیے تفسیروں کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ ایک مرتبہ کوئی ایک تفسیر پڑھ جانے سے بھی شائد بات نہیں بنے گی، آپ کو بار بار مختلف تفاسیر پڑھنی ہوں گی تاکہ آپ قرآن مجید کا پیغام صحیح طریقہ سے سمجھ اور سمجھا سکیں۔
رمضان کے مہینہ میں ہونا تو یہ چاہئے کہ گھر میں قرآن مجید کو پڑھنے اور پڑھانے کا ایک ماحول بن جائے۔ گھر کے چھوٹے بچوں سے کہیں کہ وہ قرآن سے اچھی باتیں ڈھونڈھ کر سب کو سنائیں، ان سے کہیں کہ وہ مختلف انبیاء کے قصے قرآن مجید میں تلاش کریں اور پڑھیں، پھر گھر والوں کو بھی سنائیں، جو بچے قرآن نہیں پڑھنا جانتے ان کو اس رمضان میں یہ ہدف دیں کہ ان کو قرآن مجید کی تلاوت کرنا سیکھنا ہے۔ یقین جانیں اس سے آپ کی عید کی خوشیاں بھی دو بالا ہو جائیں گی۔ اسی طرح تراویح کے سلسلہ میں بھی اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ پہلے سے کوئی ایسی مسجد متعین کر لی جائے جہاں آرام آرام سے ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھا جاتا ہو۔ مزید یہ کوشش کریں کہ مسجدیں بدلنے کے بجائے ایک متعین مسجد میں ہی تراویح کی نماز ادا کریں تاکہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں آپ ایک مرتبہ پورا قرآن خوش الحانی کے ساتھ نماز کے دوران سن کر مکمل کر سکیں۔
رمضان میں اگر آپ سحری کر کے سو جاتے ہیں اور آپ کے دن کا بیشتر حصہ سونے میں گزر جاتا ہے تو یقین جانیں آپ نے روزہ کی کیفیت کو محسوس ہی نہیں کیا!! وہی کیفیت دراصل روزہ کی جان ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ روزہ آپ کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرتا ہے لیکن جب آپ روزہ رکھ کے سارا دن سوتے رہے تو آپ کو اس تقویٰ کو برتنے کا موقعہ ہی کہاں ملا؟ حدیثوں میں آتا ہے کہ روزہ دار کو غریبوں اور لاچاروں کے دکھ درد کا احساس ہوتا ہے لیکن روزہ دار اگر سحری کر کے سو گیا اور اٹھنے کے کچھ دیر بعد افطار کرنے بیٹھ گیا تو اس نے اس بھوک کو محسوس ہی نہیں کیا۔ بلکہ صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو ایسے انسان کے سال بھر کے معمول میں کوئی فرق ہی واقع نہیں ہوا۔ کیونکہ عام دنوں میں وہ رات کا کھانا کھا کر سوتا تھا اور اٹھ کر ناشتہ کرتا تھا، رمضان میں سحری کھا کر سوتا ہے اور اٹھ کر افطار کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ دونوں دورانیوں میں کوئی بہت خاص فرق بھی نہیں ہوتا۔ لہذا کوشش کی جانی چاہیے کہ روزہ رکھ کے ایسا نہ ہو کہ دن کا بیشتر حصہ سونے میں گزر جائے۔ بلکہ حتیٰ الامکان دن کے معمولات وہی رکھیں جو رمضان کے علاوہ دنوں میں ہوتے ہیں۔ اسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ روزہ رکھنے سے آپ کے باطن کا تزکیہ اور آپ کی شخصیت کا ارتقاء ہو۔
افطاری بناتے وقت اس بات کا خیال کیجیے کہ آپ کے پڑوس میں ایسے کون لوگ ہیں جو افطاری کا نظم کرنے سے قاصر ہیں ان کو افطاری میں اپنے ساتھ شامل کیجیے۔ نبی ﷺ نے عام دنوں میں یہ تاکید کی ہے کہ سالن بناو تو اس میں شوربہ بڑھا دو تاکہ پڑوسیوں میں ایسا نہ ہو کسی کو خاشبو جائے اور اس کا دل للچائے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ پڑوسیوں کو رمضان میں افطاری کرانے کا کتنا زیادہ ثواب ہوگا۔ افطاری کا انتظام کرانے کو حتیٰ المقدور خالصۃلوجہہ اللہ کیجیے۔ اس میں ریا کاری اور دکھاوے سے پرہیز لازم ہے۔اگر رات کو دیر سے سونے کی عادت ہے تو کوشش کیجیے کہ الگ سے انفرادی طور پر تہجد کی چند رکعات ادا کرلیں اور اگر جلدی سوتے ہیں تو کوشش کیجیے کہ سحری کے لیے اتنی دیر پہلے اٹھیں کہ اس وقت تہجد کی نماز ادا کر سکیں۔ اس سلسلہ میں ایک مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ تراویح جماعت سے پڑھ رہے ہیں تو تہجد انفرادی طور پر پڑھیے۔دراصل انفرادی اور اجتماعی دونوں عبادتوں کی اپنی اہمیت ہے۔عموما ہم اجتماعی عبادات میں تو شریک ہو جاتے ہیں لیکن انفرادی عبادات کے لیے نفس کو امادہ نہیں پاتے۔ جب کہ ذاتی احتساب اور تزکیہ نفس کی راہ میں انفرادی عبادات زیادہ کارگر ہوتی ہیں۔ آپ تنہائی میں جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو اس وقت اس سے راز و نیاز کی باتیں کرنے کا ایک الگ مزہ ہوتا ہے جو تزکیہ نفس کے پورے عمل کی جان ہے۔
لیلۃ القدر کے سلسلہ میں بھی کوشش ہونی چاہیے کہ خلوص اور للہیت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عبادتیں کی جا سکیں۔ موجودہ دور کے بے ہنگم رواجوں اور تماشوں سے بچنے کے لیے کوشش کریں کہ لیلۃ القدر میں بھی قیام اللیل، تلاوت قرآن اور ذکر و اذکار کا اہتمام گھر کے اندر ہی کریں۔ اس سے آپ جہاں بہت سی بے جا خرافات سے بچ جائیں گے وہیں اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ آپ کے گھر والے بھی آپ کے ساتھ عبادتوں میں شریک ہو سکیں گے اور یہی مطلوب ہے جیسا کہ ہم نے اوپر نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ سے دیکھا۔ وہ لوگ جو استطاعت رکھتے ہوں وہ یقینا اعتکاف کرنے کی بھی کوشش کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں مال و دولت بھی خرچ کرنے سے گریز نہ کریں۔
ایک آخری بات یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھوں شکر و احسان بجا لائیں کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کی عظیم ترین نعمت سے نوازا۔ نہ جانے اللہ تعالیٰ کے کتنے ہی بندے جو پچھلے سال ہمارے درمیان تھے اب اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ نہ جانے ان میں سے کتنے لوگ دلوں میں یہ آس لیے بیٹھے تھے کہ اس رمضان میں قرآن کا مطالعہ کریں گے یا اس رمضان میں اعتکاف میں بیٹھیں گے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ مہلت عمل دی ہے لیکن ہم بھی یہ نہیں جانتے کہ ہمارا بلاوا کب آنے والا ہے۔ ہم میں سے کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسے اگلا رمضان بھی دیکھنے کو ملے گا۔ پچھلے دو سالوں میں کورونا کی وجہ سے نہ جانے ہمارے کتنے قریبی رشتہ داروں نے،کتنے دوستوں نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ یقینا یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ممکن تھا کہ وہ ان کی جگہ ہمیں اپنے پاس بلا لے اور ان کے لیے ہمیں عبرت کا سامان بنا دے۔ لہذا آپس کے گلے شکوے دور کر لیں، عداوتیں اور رقابتیں بھلا دیں اور ایک اللہ کے بندے بن کر اس کی دی ہوئی نعمت سے جتنا ممکن ہو فائدہ اٹھانے میں جٹ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے۔ آمین
)رابطہ۔ 8368964731 )