رشتوں کے اُٹھتےجنازوں کا ذمہ دار کون؟

شیخ ریاض احمد سلفی
اپنے اس کشمیر میں حالات نے ایک ایسا رخ اختیار کرلیا ہے، جس نے اب ہماری سوچ تک کو ہلاکے رکھا ہے۔ آئے دن قتل کی ایسی خبریں گردش کرتی ہیں، جس سے ذہن مفلوج ہوجاتا ہے اور ایک ایسی ہولناک کیفیت طاری ہوتی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم انسان کم اور جانور زیادہ ہوگئے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ماں کی ذات ایک عظیم ہستی کی مالک ہوتی ہے،جس کے احسانات کو چکانا ہر اولاد کے حیثیت سے بالکل باہر ہیں۔ بے شک ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور یہ ماں ہی ہے جو اپنے بچے کے لئے ہر کوئی تکلیف برداشت کرتی ہے۔ بچے کاپالن پوسن کرنے اور اُسے پروان چڑھانے کی نظیر ہمیں ماں کے علاوہ کسی اور سے مل ہی نہیں سکتی ہے۔ تاریخ اس حقیقت کی مکمل تائید کرتی ہے کہ کائنات کے خالق اور اُسکے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اگر کوئی ہستی قابل احترام اور قابل فخر ہے تو وہ ہمارے والدین ہیں۔ جبکہ والدین میں بھی ماں کا رُتبہ ایک باپ سے تین گنا زیادہ ہے، جسکے انصاف ہونے میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔ماں کی قربانیاں دیکھ کر، ماں کی عظمت کی مثالیں ہر دورمیں لاتعداد ملتی ہیں ،اس میں کوئی قباحت کی بات بھی نہیں لیکن کیا اِس ہستی کی عزت و اکرام کی داستانیں بھی لاتعدادنہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس ماں کی تعریف ہم ناسمجھ کس طرح کرسکتے ہیں جس کی تعریف خالق کائنات خود کرتا ہو، ہماری کیا مجال کہ اس ہستی کی تعریف کر سکیں۔ ایک مثال بیان کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں تاکہ میرے بھائی اور بہنیں ماں کی قدر کو سمجھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کو ئی شخص اپنی ماں کی طرف محبت سے دیکھے، گویا کہ اُس نے ایک حج مبرور کا ثواب حاصل کیا اور جتنی بار بھی اُسے محبت کی نظروں سے دیکھے، اُتنے ہی حجوں کا ثواب اُس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جائےگا۔ یہ ہیں ماں کی ہستی اور ہم بدقسمت لوگ کتنے گرے ہوئے ہیں کہ اِسی ماں کو قتل کرنے سے بھی نہیں کتراتےہیں، جسکے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔ تعجب کا مقام ہے کہ ہم کس سماج کی بنیاد ہم ڈال رہے ہیں، جہاں ایک گھر کی بنیاد ڈالنے والی شخصیت کوہی قتل کیا جاتاہو۔ افسوس صد افسوس! جب ہم اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ کہتے تھکتے نہیں۔لیکن جلا دینا چاہئے، اُس ذہن کو جو اپنے آپ کو ایک طرف ترقی یافتہ کہتا ہواوردوسری طرف اس عظیم ہستی کو مٹا دیتا ہے، جسکا پہلا لفظ اسکے کان میں گونجتا ہے۔ اس ترقی یافتہ قوم کو میرا یہ سوال ہےکہ کون ساعلم آپ کو اس عظیم ہستی کو مٹانے کا درس دیتا ہے۔ یہ سوال صرف قاتل سے نہیں بلکہ اُس ذہن سے ہے،جس نے کبھی اپنی ذ مہ داریاں نبھائی ہی نہیں۔ ماں کے قتل کے پیچھے صرف ایک ہاتھ نہیں بلکہ ماں کے قتل کا زمہ دارا پورا سماج ہے۔
اس قتل کا  پہلاذمہ دار وہ باپ ہے،جس نے روزی تو کمائی مگر کس طرح کمائی، اسکو علم نہیں۔ اُسےیہ مال حرام کے راستے سے آیا یا حلال طریقے سے،اُسے یہ بھی پتہ نہیں۔ اسکی ذمہ داری اُس ماں کے کاندھوں پے ہیں،جس نے اپنے آپ کو پہلا مدرس نہ سمجھا، اس ماں نے بچوں کی دنیاوی تربیت کو اخلاقی تربیت پر ترجیح دی، اُس ماں نے اپنے اولاد کو اپنی ہستی سے متعارف نہیں کروایا اور نہ اپنے خاوند کی ذات کا احساس دلایا ۔گویاوالدین بھول چکے ہیں وہ ذمہ داریاں، جن سے انسانیت جنم لیتی ہےاور اخلاق حسنہ کا سبق ملتا ہے۔آخر میں ایک حقایت پیش خدمت ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ اگر ہو سکے تو غور کرکے عمل پیرا ہو جایئے۔
ایک دفعہ ایک شخص خلیفۂ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنی اولاد کی شکایت لےکے حاضر ہوئے۔ لیکن خلیفہ نے کہا کہ کل اپنی اولاد کو ساتھ لانا ،تب جاکے میں کویئ فیصلہ صادر کر سکتا ہوں۔
کل جب دونوں حاظر خدمت ہوے تو خلیفہؓ نے لڑکے سے پوچھا کہ تمہارا والد تمہاری شکایت کرتاہے۔ کیا معاملہ ہے؟ لڑکے نے خلیفہؓ سے پوچھا کہ کیا میرے والد کے مجھ پہ کچھ حق ہیں، تو خلیفہؓ نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ بالکل ہیں تو لڑکا بول پڑا کہ میرے باپ نے ایک غیر اخلاقی عورت سے نکاح کیا، میرا نام جاہلیت کا تصاور دیتا  ہے اور میری تربیت غیر اخلاقی طریقے سے ہوئی ہے۔ اب اگر میرا والد مجھ سے کچھ طلب کرتا  ہے، میں کیوںکر ایسا کروں جب کہ میرے حقوق کوتلف کیا گیاہے۔ یہ سن حضرت عمر فاروق ؓ حیران اور پریشان ہوئے اور بچے کی ذہانت کااعتراف کرتے ہوے اُس شخص کی ملامت کی جو اپنے حق کی دہائی دے رہا تھا۔
اس تاریخی حکایت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اپنے گریباں میں جھانکنے کی وقت کی اولین ضرورت اور پکار ہے، ورنہ اس چمن کو بچانا ہم سے کبھی نہیں ہوسکے گا۔میرے بھائیوں اور بہنوں !اس سے پہلے کہ آگ ہمارے دامن تک آئے، ہمیں اولین فرصت میں اپنی ذمہ داریاں نبھانےکے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ آنے والی نسلیں اس اخلاقی پستی سے ناآشنا نہ رہیں۔