مشرق کا سائنسی وتکنیکی جمود فکروفہم

شہباز رشید بہورو
  روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی ہر مفید شئے میں جو جدت وندرت نظر آتی ہے، اس کا اصلی موجد تلاش کرنے کی میری اکثر تلاش رہتی ہے ۔وجہ یہ ہے کہ میں ہر پہلو کے اعتبار سے اپنا اور مغرب کا تقابلی جائزہ لے کر یہ معلوم کرسکوںکہ کیا محنت و مشقت کا حق صرف مشرقی لوگ جسمانی طور پسینے میں شرابور ہوکر ادا کرتے ہیں یا پھر کسی قوم نے دماغ اور عقل سے بھی کام لے کر ہزاروں ٹن لوہے کو ہوا میں اُڑا کر ،بغیر کسی مادی تعلق کے ہزاروں میل دور بسنے والے لوگوں کو آپس میں بات کرنے کے قابل بناکر یا رات کے اندھیرے میں ایسی قندیلیں روشن کی کہ جن کے بغیر اب ایک لمحہ بھی بسر نہیں ہوتا ۔ محنت و مشقت کی حق ادائیگی کی ہےیا نہیں ۔مشاہدہ اور غور کرنے کے بعد دیکھتا ہوں کہ واقعی انگریز یا مغرب نے محنت و مشقت کا وہ کارنامہ انجام دیا ہے، جس میں ہم یعنی مشرق کوسوں دور ہے ۔ہر نئی چیز کا موجد،ہر نئے ڈئزائن کا پیش کرنے والا،ہر کسی سہولت کو فراہم کرنے والا انگریز ہی اکثرو بیشتر ملتا ہے۔ اگر چہ انگریز کی مذہبی و اخلاقی حالت میں کافی حد تک بگاڑ آچکا ہے لیکن ہم نہ تو مذہب واخلاق میں کوئی مقام آج رکھتے ہیں اور نہ ہی سائنس اور دیگر مروجہ شعبہ جات میں کوئی کارنامہ انجام دے پاتے ہیں ۔نوبل انعام کی تاریخ ایک بار دیکھنے لگ گیا تو معلوم ہوا، ۱۹۰۱ سے لیکر ۲۰۲۳ تک صرف ۱۴ مسلمانوں نے یہ انعام جیتا ہے اور ہندؤں میں سے صرف ۱۱ لوگوں نے یہ انعام حاصل کیا ہے اور دوسری طرف یہودیوں میں سے ۲۱۴ لوگوں نے یہ انعام جیتا ہے، حالانکہ ان کی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف0.2فی صد ہے،پھر بھی ۲۲ فی صد نوبل انعام یہود نے حاصل کئے ہیں ۔باقی نوبل انعام یافتہ صرف عیسائی ہیں جو نوبل انعام کی تاریخ میں ۷۸۳ نوبل انعام اپنے نام کر چکے ہیں ۔
سادہ سی سادہ چیز دور جدید میں اپنے خدوخال ،اپنے رنگ ڈھنگ ،تصنع اوراپنی نوع وقسم میں جوجدت اور نیا پن اختیار کر چکی ہے تحقیق کرنےکے بعد اس جدت کے پیچھے انگریز کا ہی نام ملتا ہے ۔سلائی کی مشین میں استعمال ہونے والی سوئی ہویا نائی کی دکان پر استعمال ہونے والی پانی کا چھڑکاو کرنے والی بوتل،آنکھ پر سجائے جانے والی گاگل ہو یا  دانتوں کی صفائی کے لئے استعمال ہونے والا ماڈرن برش،بال پوائنٹ پن ہو یا جدید پرنٹر اور ان جیسی متعدد اشیاء کا موجد انگریز ہے ۔اس کے علاوہ سینکڑوں آلات اور مشینیں ہیں جن کا موجد انگریز ہے ۔اور ہم ہیں کہ صرف عشق ومعشوقی کی تحریک بخشنے والے ڈرامے،بےحیائی کو عروج بخشنے والی فلمیں ،اپنا سارا وقت بناو سنگار پر ضائع کرنے والے فیشن ڈیزائنگ کے فیلڈ میں مہارت حاصل کرنے کی کوششوں سے دنیا کو متعارف کرتے ہیں ۔ہم نے مغرب کی ہر بُری چیز کو لینے میں وہ مہارت دکھائی ہے کہ مغرب کو بھی مات دے دی اور اچھی باتیں سیکھنے میں وہ سستی دکھائی کہ آج شرم کے مارے کہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں ملتی ،پھر بھی بڑی بے شرمی سے ان کی چیزیں استعمال کرکے ان پر اِتراتے ہیں ۔ہماری نوجوان نسل مغربی تخلیقی صلاحیتوں سے وجود میں آنے والی بے شمار اپلیکیشنش میں اتنا گم ہو چکی ہے کہ صبح سے لیکر رات کے وقت تک جب نیند کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے سر سیل فون کی اسکرین سے اوپر نہیں اٹھتا ۔اس مغرب سے درآمد چیز کو ہم نے آڑے ہاتھوں لیا لیکن اس عمل کی نقالی نہیں کرتے کہ مغربی لوگ تجربہ گاہوں میں بیٹھ بیٹھ کر رات دن محنت کرتے ہیں اور ایسی چیزیں ایجاد کرتے ہیں کہ ہم محوحیرت ہیں ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ جدید سیاسیات ،جدید عمرانیات ،جدید معاشیات اور جدید تعلیمات میں بھی انگریزی ناموں کی ایسی بھرمار ہے کہ اگر کسی مسلمان نے یا ہندو نےکوئی خاص کام کیا بھی ہو تو ہمیں یقین ہی نہیں آتا ہے کہ واقعی اس خیال یا تصور کا پیش کرنے والا مسلمان یا ہندوہو سکتا ہے ۔میں اس عام سے ٹرینڈ کی مثال خود اپنی زندگی سے پیش کرتا ہوں ۔انسانی ترقیاتی اشاریہ  Human development Indexجدید دنیا کا ایک اہم ترین انڈکس مانا جاتا ہے ۔یہ ایک جامع اشاریہ ہے جس سے متوقع زندگی  ،تعلیم اور فی کس آمدنی کاجائزہ لیکر ممالک کی ترقی کے اعتبار سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔یہ انسانی ترقی کی پیمائش کا ایک بہترین اشایہ ہے جسے  اقوام متحدہ ممالک کی ترقی کی پیمائش کے لئےاستعمال کرتی ہے ۔یہ اشاریہ کس نے تیار کیا ہے مجھے یہ جان کر تب حیرت ہوئی کہ اس کا پیش کرنے والا ایک مسلمان ماہر معاشیات محبوب الحق ہے۔ حالانکہ اس کا یقین بھی نہیں ہو رہا تھا بعد میں دوبارہ سے تحقیق کرنے کے بعد شرح صدر ہوا ۔ورنہ میں خود اس کا پیش کرنے والا کوئی انگریزی نام سے موسوم ماہر توقع کررہا تھا ۔
خیر یہ بات ضمنا ً مذکور ہوئی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سادہ سی سادہ ایجاد ،جدت اور ندرت کو پیش کرنے سے ہم قاصر ہیں ۔ذرا چند باتوں پر غور کرنے سے ہمیں اپنی پستی کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔لباس کے معاملے کوٹ اور جیکٹس کے نئے نئے ڈیزائن کو تجویز کرنے والا انگریز ہے ۔بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار ہو کر اِترانے والے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہم اِترانے کا بالکل حق نہیں رکھتے، کیونکہ اس گاڑی کا ایک چھوٹا ساپرزہ بھی ہمارا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ انگریز کی ایجاد ہے ۔اپنے گھروں کے دروازوں پر استعمال ہونے والے اسپرنگس ،جدید طرز کے تالے ،جدید ڈسٹ بین تک میں انگریزی ذہانت کارفرما ہے ۔اب آیئے ڈیجیٹل دنیا میں، یہاں تو ہر سوفٹ وئیر کی اصل انگریز کے ہاتھ میں ہے ۔ویب سائٹ بنانے کا فلیٹ فارم انگریز نے مہیا کیا اور ہم زیادہ سے زیادہ کوئی ویب سائٹ ڈیزائن کر پاتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہم کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ایک چھوٹی سی زپ zipبنانے والا بھی انگریز ہے ۔نیل کلیپر Nail clipper))،دھات کی ٹانکن Pin stapler))اور بھی ان جیسی بے شمار سادہ ایجادات انگریز کی دین ہیں ۔
میرا ان انگریزی مصنوعات کا تذکرہ کرنے کا مدعا یہ نہیں ہے کہ میں انگریزی ذہانت کا سکہ منوانے کا داعی بنوں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان وجوہات کو تلاش کیا جا سکے جن سے انگریز اٹھارویں صدی سے لیکر آج تک برابر ترقی کے راستے پر گامزن ہے ۔غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انگریز نے غورو فکر کرنا اور سوچنا جب سے شروع کیا تب سے انگریز آگے نکل گیا اور ہم نے جب سے غوروفکر کرنا چھوڑدیا ،محنت و مشقت سے عاری ہوئے، صرف فضولیات میں حصہ لینے لگے تو ہم قعر مذلت میں پھنس گئے ۔ نیوٹن باغ میں بیٹھا تھا کہ سیب درخت سے نیچے گرا نیوٹن نے سوچنا شروع کیا ،گلیلیو نے اپنے تخیل ہی میں ایسی تجربات کئے کہ جو فزکس میں آج مبادیات مانے جاتے ہیں ،گریگر مینڈل نے مٹر کے پودوں پر سوچا اور جینیات کے بنیادی اصول دنیا کے سامنے پیش کئے ،البرٹ ایناسٹائین Albert Einsteinنے آئینےکے سامنے اپنے آپ کو رکھ کر روشنی کی رفتار سے چلا کر دماغ ہی دماغ میں سوچا کہ کیا میں اس حالت میں اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ سکتا ہوں ،یہ سوچ کر اور پھر اس پر مسلسل ۸سال کام کرکے دنیا والوں کو نظریہ مناسبت Theory of relativityسے متعارف کیا ۔
دراصل مغرب کی ترقی کا راز ہی غوروفکر اور محنت پر مبنی ہے ۔قرآن نے ہمیں غور وفکر کرنے کی تلقین کی ہے لیکن یہ صفت مغرب نے اپنا لی ،قرآن نے ہمیں محنت کرنے کی ہدایت کی ہے لیکن یہ صفت بھی مغرب نے اپنا لی ،جس کی وجہ سے مغرب آج بام عروج پر پہنچ چکا ہے اور ہم پستی کے گڑھے میں گرفتار ہیں ۔مغرب کے سوچنے کا اندازبھی ہم نقل نہ کر سکے ،البتہ ان کی سوچ کی چوریاں کرنے میں ہم نے مہارت ضرور دکھائی لیکن اس چوری کے بعد بھی ہم کچھ نہ کر سکے ۔مغرب نے بھی عربوں سے بہت کچھ چوری کیا لیکن انہوں نے اس پر محنت کی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہیں ۔مغرب کی ترقی کا آج اتنا غلغلہ ہے کہ مغرب جو کچھ بھی کہے ہم بلاچون و چرا مان لیتے ہیں، انکار کی مجال تو کیا ہم تو نفی میں سر ہلانے تک کی اہلیت نہیں رکھتے ۔مغرب نے ہمیں کہا کہ انسان بندر کی اولاد ہے، ہم نے مان لیا،مغرب نے کہا انسان بنیادی طور معاشی جانور ہے ہم نے مان لیا،مغرب نے کہا ہم چاند پر گئے ہم نے مان لیا ،مغرب نے کہا معجزات ممکن نہیں ہم نے قرآن کی تفسیر ہی بدل ڈالی ،مغرب نے کہا پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو ہم نے مان لیا ۔جناب فہرست بہت طویل ہے اگر لکھتے جائیں ۔ہماری جمود کا بنیادی سبب ہماری سوچ کی غلامی اور پھر اس کے بعد محنت سے عاری ہو نا ہے ۔موضوع پر مزید پڑھنے کے لئے مصنف کی کتاب ’’اسلام سائنس اور تحقیق ‘‘دیکھی جاسکتی ہے ۔
(رابطہ۔7780910136)