حصول تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے؟ فکرو ادراک

ہارون ابن رشید۔ ہندوارہ 
تعلیم بنی نوع انسان کے لئے وہ واحد ذریعہ ہے جس سے کہ وہ عرفان و اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا ہے، آج کے دور میں تعلیم صرف حصول روزگار کا ذریعہ بن چکا ہے۔ تعلیم کے نور ہے آراستہ ہونے کے بعد آدمی سے انسان کا سفر شروع ہوتا ہے اور ایک تعلیم یافتہ انسان نہ صرف اپنے لئے ،اپنے گھر کیلئے بلکہ سماج کیلئے ایک انمول سرمایہ ہوتا ہے۔ تعلیم انسان کو عزت و وقار کی ان بلندیوں کی طرف لیجانے کا ذریعہ بن جاتا ہے، جن کا اس سے محروم افراد کیلئے پہچانا تو دور اس بارے میں سوچنا بھی محال ہے۔ لیکن جب ہم اپنے معاشرے کے تعلیم یافتہ افراد کی طرف نظر دوڑائیں تو تعلیم کے نور سے منور ہونے کے بعد بھی اکثر لوگ ان صفات سے عادی دکھائی دیتے ہیں ،جن کے ہونے کا تقاضا ان سے کیا جا سکتا ہے، ہمارے سماج کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہی ہیں جو اپنے فعال و عمل کی چھاپ دوسرے لوگوں پر ڈالتے ہیں، یہی تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو سماج میں اصول و قوانین وضع کرتے ہیں اور انہیں اطلاق کرنے کا جتن بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ افراد ان لوگوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کی ڈگر کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے ہاں یہ احساس گہرا ہو چکا ہوتا ہے کہ تعلیم سے آراستہ زندگی ہی اصل زندگی ہے اور یہ سوچنا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن حصول تعلیم کے بعد ہمارے یہاں تعلیم یافتہ افراد کس پستی کی دلدل میں گر چکے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔بدعنوانی رشوت خوری ،اقرباء پروری ،کینہ بغض ،عداوت ،غیبت اور چاپلوسی کا اگر مظاہرہ دیکھنا ہو تو سرکاری دفتروں میں جا کر دیکھئے کہ تعلیم سے آراستہ ہمارے سماج کے افراد کس طرح ان گھٹیا اعمال میں ملوث ہیں , حالانکہ دھوکہ دہی اور دغابازی کا عنصر فریاد کرنے والوں کے پاس بھی کم نہیں ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو ہمارا پورا سماج ان بدعات و خرافات سے جھوم رہا ہے۔ یہ حالات ان لوگوں کی ہے جو اپنے کو تعلیم یافتہ اور مہذب گرادنتے ہیں۔ افسوس کہ یہ نہج اور ٹرینڈ ثمر بار ہیں جو سماج کو اخلاق کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچا سکے ،کیوں کہ تعلیم کا حصول ہمارے یہاں کردار سازی اور اخلاق کے معیار کو ٹھیک کرنے کیلئے نہیں بلکہ دولت سمیٹتے اور اپنے آپ میں لینے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے، کہ اگر دولت کی ریل پیل ،اونچے بنگلے اور عالیشان عمارتیں اور شادیوں میں غیر ضروری طور اصراف کرکے اپنے آپ کو منوانا ہی مقصود ہو تو تعلیم ہی کو اس کا ذریعہ کیوں بنا لیں ۔دولت کمانے کے اور بھی آسان اور گھٹیا ذرایعے موجود ہیں انہیں کو استعمال کرکے زندگی کو کیف و سرور میں صرف کیا جاتا ۔ تعلیم حاصل کرکے اور اپنے آپ کو تعلیم یافتہ کہہ کر ان غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکات کو اپنانے کا جو وطیرہ ہمارے یہاں پنپ رہا ہے اس سے دیکھ کر شیطان بھی شرمائے۔ یقیناً حصول علم اور تعلیم کی روح کے ساتھ انصاف نہیں ۔ جس سے نہ کہ صرف تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ تعلیم کے نور سے دوران پڑھ افراد بھی تعلیم حاصل نہ کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر حصول تعلیم کے بنیادی مقاصد کو پرکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن سعی کریں تاکہ ہمارے سماج میں پنپ رہے بدعات کا قلع قمع ہوسکے ۔بقول علامہ اقبال ؔ ؎
دل لَرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا
زندگی موت ہے، کھو دیتی ہے جب ذوقِ خراش
معانی:حریفانہ کشاکش: مقابلے کی کھینچا تانی ۔ ذوقِ خراش: تکالیف اٹھانے کا ذوق، لذت ۔
مطلب:تعلیم، دور حاضر میں طالب علم کو صرف روزی کمانے کی فکر میں لگائے رکھتی ہے اور علم کا جو اصل مقصد ہے اس سے بے گانہ رکھتی ہے ۔ اس لیے موجودہ مدرسوں میں پڑھنے والا طالب علم زندگی میں مقابلے کی کھینچا تانی سے گھبراتا ہے اور اس میں زندگی کی تکالیف اٹھانے کی کوئی سکت باقی نہیں رہتی ۔ جس کے  نتیجے میں اس کی زندگی ، زندگی نہیں رہتی موت بن جاتی ہے ۔ ایسی زندگی جس میں زندگی کے اصل مقاصد کے حصول کی کوئی کوشش نہیں ہوتی بلکہ صرف اتنی فکر ہوتی ہے کہ پڑھ کر کس طرح کہیں ملازمت یا روزگار مل سکتا ہے ۔
فیضِ فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا،
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفّاش
معانی: فیض: نفع پہنچانے کا علم ۔ فطرت: قدرت ۔ دیدہَ شاہیں : شاہیں کی آنکھیں ۔ نگاہِ خفاش: چمگادڑ کی نظر جو رات کو دیکھتی ہے اور دن میں اندھی ہوتی ہے ۔
مطلب:قدرت نے تو اپنی نفع بخشنے والی طاقت کے ذریعے اے جدید دور کے طالب علم (خصوصاً مسلمان طالب علم) تجھے شہباز کی آنکھیں بخشی تھیں لیکن انگریز کی سیاسی غلامی اور تعلیمی و نصابی سازش نے تیری نظر کو چمگادڑ کی نظر بنا دیا ہے جس میں دن کی روشنی میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ مراد یہ ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی تعلیم جدید نے تجھے اپنے دینی اور اسلامی سازوسامان سے بے گانہ کر دیا ہے اس قدر بیگانہ کہ اب تجھے اپنے اس نقصان کا احساس تک بھی نہیں ہے ۔