ذرائع ابلاغ کی ذمہ داریاں اور ہم!

ذرائع ابلاغ عامہ کے معاشرے پر اثرات کی اہمیت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کیونکہ یہ تعلیم ِ عامہ کا سب سے بڑا ذریعہ بھی کہلاتا ہے۔ ہر ادوار میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور افادیت کووسعت ملتی رہی ہے جبکہ موجودہ ابتلائی وبائی دور میںاس کی وسعت اور اثر پذیری میں بے حد اضافہ ہوا ہے،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جو اس کی رسائی سے باہر ہے۔ اس کا ایک فایدہ ،جو سبھوں کو پہنچ رہا ہے یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اطلاعات و معلومات پہونچانا ممکن ہوگیا ہے۔دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آئے ،اس کی اطلاع ذرائع ابلاغ عامہ سے نشر ہوتے ہی گھر گھر پہنچ جاتی ہے۔بعض اوقات تو لوگ ایسے واقعات کو براہ راست رونما ہوتے ہوئے بھی دیکھتے رہتے ہیںتاہم ذرائع ابلاغ کے بْرے تاثرات سے معاشرے کی روایات اور اقدار پر اثر انداز ہونے والے خطرات بھی نظرا ٓرہے ہیں۔جس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیںاور محسوس بھی کرتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے منفی اثرات سب سے زیادہ نوجوان نسل پر مرتب ہورہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کی اثر اندازی سے ہماری نوجوان نسل نے بہت سی ایسی عادتیں اپنائی ہیں جوکہ ہماری تہذیب و تمدن اور قدروں کے بالکل برعکس ہیں۔عام تاثر یہی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے طرز عمل سے کسی بھی طرح کسی زبان خاص طور پر اردو زبان کی کوئی خدمت نہیں ہورہی ہے بلکہ اس زبان کو زک پہنچانے کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں تواتر کے ساتھ جاری رکھی ہوئی ہیں۔ وادی کشمیر کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں کی مادری زبان کا بھی بْرا حال ہوگیا ہے۔ کشمیریوں نے خود ہی اپنی مادری زبان سے کافی حد تک ناطہ توڑدیا ہے اور اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاط ٹھونس کر اس کا حْلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ایک طرف جہاں اس زبان میں بلا وجہ اور بلا ضرورت دوسری زبانوں کے بعض اچھے اور زیادہ تر لچر الفاظ ٹھونس ڈالے ہیں وہیں دوسری طرف ٹی وی چینلوں کے ذریعے کشمیری زبان میں دکھائے جانے والے ڈراموں ،سلسلہ وار سیریلز کے ساتھ ساتھ گیت سنگیت،ناچ نغمے اور دوسرے پروگراموں میں نہ صرف کشمیری زبان کا کوئی لحاظ ہوتا ہے بلکہ کشمیری تہذیب و تمدن اور کشمیری روایات کا بھی جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔تعجب کا مقام ہے کہ کہ اب کشمیریوں کی ایک خاصی تعداد اپنی مادری زبان بولنے میں شرم محسوس کرنے لگی ہے۔تقریباً ہرطبقہ اور ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی زیادہ ترکشمیری خواتین تو اب اپنے آپ کو کشمیری نسل ہی نہیں سمجھتی ہیں۔ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کی بنیادی وجہ فکری افلاس ہی ہوسکتی ہے جو مَنوں اور ٹَنوں وزن کے کتابوں کے پڑھنے سے بھی دور نہیں ہوسکتا جبکہ دوسری وجہ ذہنی مرعوبیت بھی ہوسکتی ہے۔کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کی سب سے بڑی نمائندہ اس کی زبان ہی تو ہوتی ہے۔اس میں بگاڑ پیدا ہونے سے اس قوم کی نئی نسل پردوسرے قوموں کی مرعوبیت پیدا کرتی ہے اور وہ اپنے تہذیب و تمدن اور روایات سے دورہوجاتی ہے۔ہمارے ذرائع ابلاغ کی ایک اہم ذمہ داری اس ثقافتی یلغار کا توڑ کرنے کی بھی ہے۔اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کا میڈیا اپنی معاشرتی ،اخلاقی اور دینی قدروں سے ہم آہنگ ہوجائے کیونکہ ذرائع ابلاغ پر بہت زیادہ ایسی چیزیں پیش کی جارہی ہیں جن سے معاشرے کو مغرب کے رنگ میں رنگ دینے کا تاثر ملتا ہے۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہم اپنی اُس ایک الگ تہذیب و ثقافت اور اعلیٰ اقدار کے وارث ہیں ،جس میںعاقبت اندیشی کے دولت کی طلب بھی مقدم ہے،جس میں ہر شخص با حیا طریقے پر ایک دوسرے کے تئیں دلی احترام کا جذبہ رکھتا ہے اورجس میں اخلاقی محاسن موجزن ہیں۔ مغربی معاشرے میں جیسے مادر پدر آزادی کے تصور کو ہماری معاشرت میں کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا اور نہ کبھی اسے پنپنے کی جگہ دی۔ اسلام نے ہمیں لچر ثقافت کے مضر اثرات و تلخ نتائج سے پوری طرح آگاہ کرکے رکھا ہے۔الغرض ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا کی وساطت سے ہماری سرکاری زبان اْردو اور ہماری مادری زبان کشمیری کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یادانستہ طورپر کیا جارہا ہے وہ بہر حال ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔بے شک ہمارا معاشرہ کئی برائیوں اور خرابیوں کی زد میں آچکا ہے تاہم اپنے معاشرتی اقدار کے سبب ابھی بھی کافی حد تک مختلف بْرائیوں اور خرابیوں سے صاف و پاک ہے۔اس لئے اپنے معاشرتی اقدار کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے، جس کے لئے ذرائع ابلاغ والیکٹرانک میڈیا پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں۔ یا د رہے کہ ایک انسان کی شرافت اس کے اعمال اچھے ہونے سے ہی ظاہر ہوتی ہے ،بْرا اور بخیل آدمی شیطان کا مددگار ہوتا ہے۔ہماری معاشرتی قدروں میں سے ایک بڑا تصور حیا کا بھی ہے کیونکہ حیا نصف ایمان ہے، لیکن اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو ان کے ذریعے پیش کیا جانے والا تصور بالکل برعکس ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیںکہ اصولی طور پر جو بات غلط ہے وہ کبھی بھی عملی طور پر صحیح ثابت نہیں ہوسکتی،جبکہ عقل مند لوگ کبھی اپنے اصول و اقدار کی پیروی نہیں چھوڑتے ہیں۔اس لئے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ معاشرتی اقدار کے تحفظ کے لئے ذرائع ابلاغ کے کردار کو صحیح سمت میں متعین کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ وہی معاشرہ اچھا کہلاتا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوںاور معاشرے کے مروجہ اصولوں و اقدار کی خلا ف ورزی کا دکھ صرف کردار کی مضبوطی کے بل بوتے پر ہی برداشت کیا جاسکتا ہے اور اس کے اسباب کے بارے میں فکر مند رہنا عقلمندی ہے۔