حسن اخلاق: خصائل کا احسان علم کا ثمر حُسنِ اخلاق اور خوش اخلاقی بہترین عبادت ہے

ڈاکٹر عریف جامعی

’’اخلاق ‘‘دراصل ’’خلق ‘‘کی جمع ہے اور اس کا مادہ ’’خ، ل، ق‘‘ ہے۔ اگر ’’خ‘‘ کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے، تو ’’خلق‘‘ کے معنی ظاہری یا جسمانی ’’شکل و صورت‘‘ کے ہوں گے۔ اگر ’’خ‘‘ کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو ’’خلق ‘‘کے معنی داخلی، باطنی یا نفسیاتی وضع قطع کے ہوں گے۔ جو شخص پاک طینت اور نیک طبیعت ہوگا اسے خلیق کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص ملنسار، حلیم اور نیک خو ہوتا ہے۔ صاحب اخلاق شخص کے لئے ہم ’’با اخلاق‘‘ اور ’’خوش اخلاق‘‘ جیسی ترکیبات استعمال کرتے ہیں۔ ’’علم اخلاق ‘‘کے ذریعے ہم انسانی فضائل اور رذائل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول سے اس کی تشریح ہوتی ہے۔ آپؐ نے دعا مانگی: “اللہم کما حسنت خلقی فحسن خلقی۔” یعنی، خدایا! جس طرح تو نے میری حسین صورت گری کی ہے، اسی طرح میرے اخلاق میں بھی حسن پیدا فرما۔ (احمد و ابن حبان)
اس دعا سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ صورت گری میں انسان کو انتخاب کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ انسان سیاہ فام، گندمی یا سفید فام ہوسکتا اور اس کے جسم میں پیدائشی طور پر کوئی سقم ہوسکتا ہے یا حادثاتی طور پر کوئی ضعف پیدا ہوسکتا ہے جو پوری عمر موجود رہ سکتا ہے، لیکن اس کے اخلاق کی خامی زندگی کے ہر موڑ پر دور کی جاسکتی ہے، کیونکہ اسے صاحب عقل اور ذی شعور پیدا کیا گیا ہے اور اسے اچھا یا برا عمل (اخلاق) اختیار کرنے کی پوری آزادی دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ رب تعالی نے انسان کا امتحان اسی بات میں رکھا ہے کہ وہ اپنا اخلاقی جوہر ثابت کرکے اپنے رب کی رضا حاصل کرے اور خدا کی ابدی جنتوں کا مستحق قرار پائے۔
اب جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو وہ ایک ایسی مثالی دنیا ہے جہاں انسان کو نہ صرف ہر قسم کا سکون دستیاب ہوگا، بلکہ وہاں اسے مکمل سلامتی حاصل رہے گی۔ اس بات کا اعلان اس طرح کیا گیا ہے: ’’نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔ صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی۔‘‘(الواقعہ، ۲۵-۲۶) لیکن اس کے لئے شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ ’’قلب سلیم‘‘ لیکر رب تعالی کے سامنے حاضر ہوجائے۔ قرآن کا بیان ہے: ’’جس دن مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے گا۔‘‘(الشعراء، ۸۸-۸۹) تاہم دل کی سلامتی کے لئے انسان کو ہر طرح سے چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کا ہر عمل انسان کے دل پر اپنے نقوش مرتسم کرتا ہے۔ اس بارے میں قرآن کا کہنا ہے: ’’یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔‘‘ (المطففین، ۱۴) اس کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ عکیہ وسلم کے اس قول سے ہوتی ہے: ’’جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ اس برائی سے باز آجائے، اللہ سے معافی مانگ لے اور نادم ہو تو اس کا دل (اس نقطے سے) صاف ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ برائی کو دہراتا جائے تو وہ نقطہ بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے (پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے) اور یہی ’ران‘ ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے۔‘‘ (الترمذی) اسی طرح ایک حدیث میں روایت ہوا ہے: ’’دلوں کو اس طرح زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے جب اس پر پانی پڑ جاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا، یا رسول اللہؐ! پھر دل کو کیسے صاف کیا جائے؟ فرمایا: موت کو کثرت کے ساتھ یاد کیا جائے اور قرآن کی تلاوت کی جائے۔‘‘ (بیہقی) ظاہر ہے کہ موت کی یاد اور قرآن کی تلاوت دونوں انسان کے خدا کے سامنے جواب دہی کے احساس کو زندہ اور قائم رکھتیں ہیں۔ اس طرح انسان اخلاق کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ اسی لئے اعلان ہوتا ہے کہ ’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حدیث جبرائیل میں جس ترتیب کے ساتھ ایمان، اسلام اور احسان کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان سے انسان کے دل میں للٰہیت یعنی خدا کے رنگ میں رنگ جانے (البقرہ، ۱۳۸) کا ایک بیج پڑتا ہے۔ اسلام سے یہ بیج عمل صالح کا ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ احسان سے اسی درخت میں رنگ برنگے پھول لگ جاتے ہیں اور یہ خوبصورتی اور خوشبو سے پورے ماحول کی رعنائی کا باعث بنتا ہے۔ اس حدیث کی رو سے جب جبرائیل علیہ السلام، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے احسان کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو آپ ؐ جواب دیتے ہیں: ’’احسان یہ ہے کہ آپ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ جیسے اسے دیکھ رہے ہوں، کیونکہ اگر آپ اسے دیکھ نہ سکیں، وہ آپ کو دیکھ ہی رہا ہے!‘‘(مسلم) ظاہر ہے کہ اس سطح پر پہنچ کر انسان کا ہر عمل عبادت بن جاتا ہے اور اس کے ہر عمل میں ’’حسن ‘‘پیدا ہوجاتا ہے۔ اسلامی ثقافت میں اس ’’حسن‘‘ کا یہ مقام ہے کہ ’’جانور ذبح کرتے ہوئے بھی اس حسن کی کیفیت کو برقرار رکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ (مسلم و ابو داؤد) ظاہر ہے حسن کی ایسی کیفیت کے ساتھ اپنے شب و روز گزارنے والا انسان ’’حسن‘‘ ہوگا، ’’حسین‘‘ ہوگا، ’’محسن‘‘ ہوگا یا ’’احسن‘‘ ہوگا! یعنی ایسے انسان میں کسی نہ کسی انداز کا ’’حسن‘‘ ضرور ہوگا۔ ایسے ہی معاشرے کا مجتہد اپنے اجتہاد میں ’’استحسان‘‘کو بروئے کار لاتے ہوئے اس معاشرے کے لئے “زیادہ سے زیادہ بھلائی کے راستے کھولے کی کوشش کرتا ہے۔’’ یعنی وہ قانون کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس میں چھپی حکمت کو جاننے کی کوشش کرتا ہے اور خلق خدا کے لئے راحت کا سامان پیدا کرتا ہے۔ قرآن کی رو سے اسلام لانے کے ساتھ ساتھ احسان کا راستہ اختیار کرنے والے لوگ دراصل خدا کا ’’مضبوط سہارا یعنی العروۃ الوثقیٰ‘‘ پکڑ لیتے ہیں جو کبھی ٹوٹتا نہیں! (لقمٰن، ۲۲)
اب جب انسان کے اخلاق میں حسن پیدا ہوجاتا ہے، تو انسان کی عقلی، اخلاقی اور جمالیاتی جہت میں ایک ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جہاں ایک اخلاقی اور عقلی وجود ہے، وہیں اس کے اندر حس جمالیات کچھ اس طرح رکھی گئی ہے کہ وہ ہر نظری اور عملی حرکت میں حسن و جمال کی ایک خاص سطح کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر کام نہ صرف پختگی سے انجام دینا چاہتا ہے، بلکہ وہ اپنا ہر عمل ایک منصوبہ بند طریقے سے انجام دیتا ہے۔ یہی پختگی، ترتیب اور منصوبہ بندی اس کے اعمال کو ایسا حسن بخشتی ہے کہ اس کا بظاہر چھوٹے سے چھوٹا کام حسین بن جاتا ہے اور وہ قابل تحسین ٹھہرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تحسین کے معنی ہی کسی کام، چاہے وہ عملی ہو یا نظری، کی خوبصورتی کا اعتراف کرنے کے ہیں۔ یعنی ناظر یا مبصر نے کسی چیز میں جو خوبصورتی دیکھی اس کا برملا اظہار کردیا۔ چونکہ انسان کے خیالات، اقوال اور اعمال کی سب سے بڑی ناظر اللہ تعالی کی ذات واحد ہے، اس لئے وہ اخلاق عالیہ یا حسین اخلاق اختیار کرنے والے محسنین کو محبوب رکھتا ہے۔ (آل عمران، ۱۳۴)
تاہم جب حسن اخلاق کی بات کی جاتی ہے تو اس سے اکثر خوش کلامی یا خوش گفتاری مراد لی جاتی ہے۔ اگرچہ میٹھے بول خوش اخلاقی میں شامل ہیں، لیکن میٹھے بول کے پیچھے اصل میں ریا کاری سے پاک میٹھا جذبہ (نیت) ہونا چاہئے جس سے اقوال اور افعال ظہور میں آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا انس ؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! جہاں تک ہوسکے اپنی صبح و شام اس طرح گزارو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کوئی میل نہ ہو۔ پھر فرمایا، اے میرے پیارے بیٹے! یہ روش میری سنت ہے؛ اور جس نے میری سنت سے محبت رکھے اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے مجھ سے محبت رکھی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘ (مسلم) واضح ہوا کہ اخلاق حسنہ کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے اور عمل بن کر ظاہر ہوتا ہے اور انسان کو جنت کا مستحق بنا دیتا ہے۔
ارکان اسلام ایک مؤمن کے اعمال (خصائل) میں یہی احسان پیدا کرتے ہیں۔ سب سے پہلے کلمۂ شہادت سے انسان کے اندر نظری حسن (تھیوریٹکل بیوٹی) پیدا ہوتی ہے۔ یہ خوبصورتی پیدا ہوتے ہی انسان ایک طرف فقط ایک خدا کو معبود برحق ماننے لگتا ہے اور دوسری طرف تمام انسانیت کو ’’عیال اللہ‘‘ (خدا کا خاندان) تصور کرنے لگتا ہے۔ نماز اس شخص کا رخ فواحش اور منکرات سے پھیر کر معروف اقدار جیسے حیا، تواضع، انکسار اور فروتنی کی طرف کرتی ہے۔ زکوٰۃ سے اس کا دل آخرت رخی بن جاتا ہے، کیونکہ سیدنا مسیح ؑ کا فرمان ہے کہ ’’جہاں آپ کا خزانہ (مال و دولت) ہوگا، وہیں آپ کا دل بھی ہوگا!‘‘ (انجیل متی، ۶، ۲۱) صوم اس کو سراپا تقوىٰ بنا دیتا ہے اور یہ نہ صرف خواہشات نفس سے اجتناب کرتا ہے بلکہ یہ ’’قول الزور‘‘ اور اور ’’لغویات‘‘ سے بھی کنارہ کش ہوجاتا ہے۔ حج سے یہ انسان مکمل طور پر اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور اس پر قرآن کا یہ قول صادق آجاتا ہے کہ ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالی سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟‘‘ (البقرہ، ۱۳۸) اسی سے اس مشہور قرآنی آیت کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں جس میں اللہ تعالی کی عبادت کو جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا مقصد وحید قرار دیا گیا ہے۔ (الذٰریٰت، ۵۶)
اس طرح اخلاق انسان کے قول و فعل اور نشست و برخاست کو حسن بخشتا ہے۔ ایسے بندے کے اندر اس قدر فروتنی آجاتی ہے کہ وہ ہر شخص کا استقبال سلام سے کرتا ہے۔ اب اس کی طرف سے ہر ایک شخص مامون رہتا ہے۔ سلامتی ایک طرح سے اس کی شناخت بن جاتی ہے جس سے جاہل تک حصہ پا لیتے ہیں۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’رحمان کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔‘‘(الفرقان، ۶۳) سلام کو عام کرکے (الترمذی) ایسے لوگ معاشرے کو سراسر سلامتی بنا لیتے ہیں۔ اس معاشرے کے افراد منافقت سے پاک ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے اندر خوش اخلاقی اور دین کی سمجھ جمع ہوجاتی ہے۔ (مشکوٰۃ) ایسے افراد خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ امانتدار، حق گو اور حلال خور ہوتے ہیں۔ (احمد) ایسے ہی لوگوں کے لئے رب تعالی نے ’’دارالسلام (جنت)‘‘ سجا رکھی ہے۔
واضح رہے کہ یہ منصوبۂ خداوندی ہے کہ موت و حیات کی تخلیق کے ذریعے انسانوں کو پرکھا جائے کہ کون ’’حسن عمل‘‘ (الملک، ۲) اختیار کرتا ہے۔ اب جہاں تک حسن اخلاق کا تعلق ہے تو یہ ’’حسن عمل‘‘ کو بھی حسن بخشتا ہے۔ حسن اخلاق سے مزین ایسے ہی عمل کے بارے میں رب تعالی اعلان فرماتا ہے: ’’کیا ہوگا احسان کے سوا احسان کا بدلہ؟‘‘ (الرحمٰن، ۶۰) اسی بات کا بیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول میں ہے کہ ’’قیامت کی ترازو میں حسن خلق سے بھاری اور وزنی کوئی چیز نہ ہوگی۔‘‘(الترمذی) اللہ کا یہ بندہ دراصل حسن اخلاق سے اپنے ایمان کی تکمیل کرتا ہے، (الترمذی) یہی بندہ مؤمنین میں بہترین ہے (متفق علیہ) اور اسی بندے کو رب تعالی محبوب رکھتا ہے۔ (ابن ماجہ) چونکہ رسول ِرحمت ؐ، اللہ کے حبیب ہیں، اس لئے رب تعالی نے خود آپؐ کے “خلق عظیم” کا اس طرح اعلان فرمایا: ’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔‘‘(القلم، ۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح دین کی تکمیل ہوئی (المائدہ، ۳)، بالکل اسی طرح آپ ؐ نے ہی انسانی اخلاق کی تکمیل فرمائی۔ (بیہقی) تاہم مکارم اخلاق کا نصاب قرآن مقدس میں دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدہ عائشہ ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ ؐ کا اخلاق ہو بہو قرآن تھا۔ (کان خلقہ القرآن، مسلم)۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
: [email protected]