حئی علی الفلاح افسانہ

طارق شبنم

میجر نیاز علی باتھ روم سے نہا کر تازہ دم ہو کر نکلا توکمرے میں پھیلی خوشبو سے اس کے مُنہ میں پانی بھر گیا،کیوں کہ ٹیبل پر بھنے تلے گوشت سے بھری پلیٹیںاور اس کی من پسند ولائیتی شراب کی بوتل اس کے منتظر تھے۔وہ من ہی من میں طئے کر چکا تھا دو تین پیگ حلق سے اتار کر کچھ دیر آرام کر لے گا ،کیوںکہ رات بھر ریل گاڑی میں محو سفر رہنے کے سبب اسے شدید تھکاوت محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے وہ جونہی نائو نوش کی غرض سے صوفے پر بیٹھ کر بوتل کا ڈھکن کھولنے لگا تو نزدیکی مسجد شریف سے بھی موذن نے اللہ اکبر کی منادی کردی، جسے سنتے ہی وہ رک گیا، اس کے ذہن نے نہ جانے کون سی کروٹ لی کہ چہرے پر اچانک فکر پریشانی کے آثارنمایاں ہونے لگے۔حالاںکہ نماز روزہ تو دور کی بات رنگین مزاج میجر کو مسجد کا دروازہ تک معلوم نہیں تھا۔اس کے مسلمان ہونے کے لئے صرف اتنا کافی تھا کہ اس نے ایک مسلمان گھرانے میں جنم لیا تھا اور کلمہ طیبہ یاد تھا ۔دین کے باقی تمام احکامات کو اس نے سرے سے ہی فراموش کردیا تھا ۔اذان مکمل ہوگئی لیکن اس کے چہرے پر تذبذب کے آثار اور گہرے ہو گئے۔اس سے رہ رہ کر بزرگ قلی اور تھوڑی دیر پہلے اس کی کہی ہوئی وہ باتیں یاد آنے لگیں جن کی طرف اس نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا ۔۔۔۔۔۔دھیرے دھیرے اس کی بے چینی بڑھنے لگی۔بھوک اور شراب کی شدید طلب ہونے کے با وجود وہ بغیر کچھ کھائے پئے سگریٹ سلگا کر لمبے لمبے کش لیتے ہوئے گہری سوچوں میں کھو گیا۔
نیاز علی آج ہی لمبا سفر کر کے گھر پہنچا تھا۔ جب وہ ریل گاڑی سے اترا تو دو پہر کا وقت تھا اور گرمی کا پارہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔سورج جیسے آگ بر سا رہا تھا،تیز دھوپ کی تپش سے بے حال لوگ بن جل کی مچھلیوں کی طرح تڑپ رہے تھے جبکہ ریلوے اسٹیشن پر خلاف معمول آج کوئی خاص گہما گہمی نہیں تھی۔وہ خود بھی گرمی سے نڈھال ہو چکا تھا۔ اس نے سامان ایک طرف رکھا اور پیاسے اونٹ کی طرح پاس ہی موجود ایک دکان کی طرف لپکااور ٹھنڈے مشروب کی بوتل خرید کر گھٹاگھٹ حلق سے نیچے اتارلی۔سیر ہو کر اس کی نظریں کسی قلی کو ڈھونڈنے لگیں کیوں کہ آس پاس کوئی رکشہ بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔اسی لمحے ایک بزرگ شخص اس کے نزدیک آکر بولا۔
’’ صاحب جی ۔۔۔۔۔۔سامان اٹھانا ہے کیا؟‘‘
اس نے سر تا پائوں بزرگ کا جائیزہ لیا ۔جسم نخیف ہڈیوں کا ڈھانچہ جیسا۔۔۔۔۔۔سفید داڑھی والا نورانی چہرہ۔۔۔۔۔۔ معمولی سا لباس ۔۔۔۔۔۔سر پر ٹوپی اور کندھوں پر لٹکی سفید چادر۔
’’ اگر یہ بزرگ شخص کسی یورپی ملک میں ہوتا تو اولڈ ایج پنشن حاصل کرکے نہ صرف آرام سے زندگی گزار رہا ہوتا بلکہ دنیا کے بزرگ شخص کے بطور اس کا نام گینز بک آف ورلڈ میںبھی درج ہوتا،لیکن ہمارے ملک میں۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔
میجر من ہی من میں سوچتے ہوئے گویا ہوا۔
’’ بابا ۔۔۔۔۔۔مجھے رانی گڑھ جانا ہے‘‘۔
’’ صاحب جی ۔۔۔۔۔۔یہاں کوئی رکشہ بھی نہیں ہے،اگر آپ کہیں تو میں سامان پہنچادوں گا۔۔۔۔۔۔ رانی گڑھ پاس میں ہی تو ہے‘‘ ۔
رانی گڑھ اسٹیشن سے کوئی آدھا میل دور تھا ۔۔۔۔۔۔ادھر اُدھر نظریں دوڑانے کے بعد میجر نے حامی بھرلی اور بزرگ قلی بھاری بھر کم اٹیچی کندھے پر اٹھاتے ہوئے بھاری قدم اٹھاتے ہوئے میجر کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ جھلسا دینے والی دھوپ میں بوجھ اٹھائے چلتے چلتے قلی کا حال بے حال تھا۔اس کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپ ٹپ گر کر زمین میں جذب ہو رہے تھے ۔ اس کی حالت پر ترس کھا کر میجر گویا ہوا۔
’’ بابا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر رک کر دم لینگے ‘‘۔
’’قلی اٹیچی نیچے رکھ کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا ۔اس کی سانسیں پھول رہی تھیں اور وہ اوپر سے نیچے تک پسینے میں شرا بور تھا‘‘۔
’’یہ لو با با ۔۔۔۔۔۔تھوڑا پانی پی لو‘‘۔
میجر نے بیٹھتے ہی پانی کے چند گھونٹ پی کر بوتل اس کی اور بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں صاحب جی نہیں‘‘۔
اس نے آسمان کی اور دیکھتے ہوئے نادم سے لہجے میں کہاحالانکہ پیاس کی شدت سے اس کی زبان خشک ہو رہی تھی۔میجر نے یہ سمجھ کر زور نہیں دیا کہ شاید یہ آتے جاتے لوگوں سے شرما رہا ہو۔
’’ بابا۔۔۔۔۔۔ گرمی کی شدت نے لوگوں کا کچومر نکال کے رکھ دیا ہے اور بارش بالکل نہیں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔آسمان والا شاید ہم سے روٹھا ہے‘‘ ۔
’’نہیں صاحب جی۔۔۔۔۔۔یہ قانوں قدرت ہے ۔جب زمین پر بسنے والے لوگ زکوات دینا بند کر دیتے ہیں ، زمین کا سینہ گناہوں کے بوجھ سے بھر جاتا ہے تو آسمان والا بارشوں کو روک دیتا ہے‘‘ ۔
’’سو تو ہے بابا ۔۔۔۔۔۔پھر کیا بنے گا ہم گناہ گاروں کا؟ہم تو تڑپ تڑپ کر مر جائینگے‘‘۔
’’نہیں صاحب جی ۔۔۔۔۔۔اللہ پاک کی رحمتیں بھی بے شمار ہیں ۔۔۔۔۔۔بندوں کو اس کی رحمتوں سے ہرگز نا امید نہیں ہونا چاہیے اور اس خاص با برکت مہینے میں اللہ کی رحمتیں اس کے غصے اور غضب پر حادی ہو جا تی ہیں‘‘ ۔
قلی کی یہ باتیں سن کر میجر کو اندر ہی اندر خفت محسوس ہونے لگی ۔ کچھ دیر دم لینے کے بعد وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں رمضان المبارک اور دیگر مذہبی امورات پر ان کی بات جاری رہی اور میجر بڑی دلچسپی سے قلی کی باتیں سنتا رہا ۔۔۔۔۔۔ قریب ظہر کے وقت جب وہ میجر کے گھر پہنچے تو گرمی سے دونوں کا برا حال تھا ۔میجر بھی پسینے میں شرابور ہو چکا تھا ،اس نے اپنے گھریلو ملازم کو آواز دے کر سامان اٹھانے کے لئے کہا اور قلی کو اپنے ساتھ اندر لے جا کر عالی شان ائیر کندیشنز والے ڈرایئنگ روم میں بٹھایا اور خود بھی صوفے پر دراز ہوکر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد ملازم نے ٹھنڈے مشروبات سے بھرے گلاس اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔
’’صاحب جی ۔۔۔۔۔۔ میم صاحب اور بچے باہر گئے ہیں۔۔۔۔۔۔آپ کیا کھائینگے؟‘‘
’’ ٹھیک ہے راجیو ۔۔۔۔۔۔بڑے زوروں کی بھوک لگی ہے ۔۔۔۔۔۔تم تھوڑا سا گوشت فرائے کرکے لے آئو۔۔۔۔۔۔تب تک میں نہاتا ہوں‘‘ ۔
اس نے قلی کی اور مشروب سے بھرا گلاس بڑھاتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی ۔
’’یہ لو با با آرام سے پی لو ۔۔۔۔۔۔یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔
’’ نہیں صاحب جی ۔۔۔۔۔۔وہ دیکھ رہا ہے‘‘۔
’’ با با ۔۔۔۔۔۔کون دیکھ رہا ہے ؟‘‘
میجر نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا۔
’’صاحب جی ۔۔۔۔۔۔ آسمان والا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔اس سے کچھ بھی نہیں چھپا ہے ‘‘۔
اسی وقت کہیں دور سے فضا میں اذان کی آواز گونجی۔
’’ اچھا صاحب جی مجھے اجازت دیجئے‘‘۔
’’ ارے بابا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر رکو باہر سخت گرمی ہے‘‘۔
’’ نہیں صاحب جی، بلاوا آگیا‘‘۔
’’بلاوا۔۔۔۔۔۔کس کا بلاوا؟‘‘
’’ صاحب جی اللہ بلا رہا ہے‘‘۔
قلی مزدوری کے پیسے لے کر اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے چلا گیا لیکن میجر کو بے چین کر کے چھوڑ گیا۔اس کی باتوں سے میجر کے دل میں ایسی ہلچل مچ گئی جیسے برسوں سے ساکت و جامد کناروں پر کائی جمی جھیل میں کسی نے بلندی سے بھاری پتھر اچھال دیا ہو۔
میجر بہت دیر تک سوچ وفکر کی بھول بھلیوں میں اُلجھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونکتا رہا ۔ قلی کی باتیں ہتھوڑی کی طرح کھٹ کھٹ اس کے کانوں کے پردوں پر پڑ رہی تھیں ۔اپنی زندگی کی تمام ریا کاریاں اور سیاہ کاریاںایک ایک کرکے اس کے سامنے رقص کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔اس کے وجود سے خفت و خجالت کی پیپ بہنے لگیں اور چہرے پر فکر و پریشانی کی برف جم گئی۔دفعتًاپھر سے اللہ اکبر کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی جسے سن کر وہ سوچوں کے خول سے باہر آگیا ۔ اس نے گھڑی دیکھی تو عصر کا وقت ہو چکا تھا،اطمینان سے پوری اذان سننے کے بعد قلی کی یہ باتیں اس کے ذہن کے پردوں پر گونجنے لگیں۔
’’ کائینات کے بادشاہ کا عظیم دربار ہر وقت سب کے لئے کھلا رہتا ہے ،جہاں عفو و درگزر کی رحمتیں برستی رہتی ہیں ۔اس کے پھاٹک پر نہ کوئی پہرہ ہے ۔۔۔۔۔۔نہ پہرے دار۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی دربان۔۔۔۔۔۔ نہ سیکریٹری اور نہ ہی کسی سے اجازت لینے کی ضرورت ہے‘‘۔
اسی لمحے کسی غیبی طاقت نے اس کے وجود کو جھنجھوڑا۔۔۔۔۔۔وہ ایک دم اٹھااور شراب کی بوتل کا ڈھکن اٹھا کرسا را شراب باتھ روم کے کموڑ میں انڈیل کر بوتل ڈسٹ بن میں پھینک دی اور نادم ہوکروضو بنا کر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے مسجد شریف کی طرف چل پڑا۔
���
اجس بانڈی پورہ کشمیر
[email protected]