جسم میں آکسیجن کی مقدار معلوم کرنے والی ایپ! چند منٹوں میں کورونا کی تشخیص کرنے والا ماسک تیار

ویب ڈیسک
سائنس دان اس جدید دور میں ہر کام کو آسان بنانےکے لیے نت نئی چیزیں تیار کر رہے ہیں ۔دمے سے لے کر کوویڈ۔19 تک متعدد کیفیات ایسی ہیں جن میں خون میں آکسیجن کی موجود گی کے متعلق پیمائش کئی مرتبہ کرنی پڑتی ہے۔ فی الحال یہ پیمائشیں پلس آکسی میٹر سے کی جا تی ہیں۔ اگرچہ بعض اوقات یہ ٹیسٹ کے عمل کو پیچیدہ بناسکتا ہے۔اس عمل کو آسان بنانے کے لیے سائنس دانوں نے ایک اسمارٹ فون ایپ بنائی ہے، جس میں فون کا کیمرا اور فلیش استعمال کرتے ہوئے خون میں موجود آکسیجن کی سطح کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔یونیورسٹی آف واشنگٹن اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے محققین نے دورانِ آزمائش مشاہدہ کیا کہ اسمارٹ فون خون میں موجود 70 فی صد تک آکسیجن کی سطح کی نشان دہی کر سکتا ہے۔

یہ وہ کم مقدار ہے جس کی نشان دہی کے قابل ایک پَلس آکسی میٹر کو ہو ناچاہیے۔نئے طریقہ کار میں صارف کو ویڈیو بنانے سے قبل اپنی انگلی اسمارٹ فون کے کیمرا اور فلیش پر رکھنی ہوتی ہے، جس کے بعد ڈِیپ لرننگ ایلگورتھم فوٹیج کی مدد سے خون میں آکسیجن کی سطح کا پتہ لگاتا ہے۔ایپلی کیشن کی آزمائش کے لیے محققین نے 20 سے 34 سال کے درمیان چھ شرکاء کا انتخاب کیا۔ ہر فرد اپنی ہاتھ کی ایک انگلی میں آکسی میٹر پہنا اور پھر اسی ہاتھ کی دوسری انگلی اسمارٹ فون کے کیمرا اور فلیش پر رکھ دی۔
تحقیق کے مصنف ایڈورڈ وینگ کا کہنا ہے کہ کیمرا ویڈیو ریکارڈ کرتا ہے۔ ہر بار جب آپ کا دل دھڑکتا ہے، تازہ خون اس حصے سے گزرتا ہے جو فلیش کی وجہ سے روشن ہوتا ہے۔ کیمرا یہ ریکارڈ کرتا ہے کہ خون فلیش میں سے نکلنے والی روشنی کو پیمائش کیے گئے تینوں چینلز یعنی سرخ، ہرے اور نیلے میں کتنا جذب کرتا ہے۔ بعد ازاں حاصل ہونے والی انتہائی سطح کی پیشمائشوں کو ڈِپ لرننگ ماڈل میں ڈالا جاتا ہے۔15 منٹ کے دورانیے میں ہر فرد نے آکسیجن اور نائیٹروجن کے مصنوعی ماحول میں سانس لیا ،تاکہ آہستہ آہستہ ان کی آکسیجن کی سطح کم ہوجائے،جس کے بعد اسمارٹ فون نے آکسیجن کی سطح کی درست نشان دہی کی۔سائنس دانوں نے ایک ایسا ماسک تیار کیا ہے جو چند منٹوں میں کورونا وائرس کی تشخص کرسکتا ہے۔ وائرس کی ہوا میں نشان دہی کرکے ماسک پہننے والے کو ان کے فون میں ایک ایپ کے ذریعے مطلع کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس ماسک میں سوائن فلو برڈ فلو کی تشخیص کی بھی صلاحیت ہے۔یہ بیماریاں ہوا میں متاثرہ افراد کے بولنے، کھانسنے یا چھینکنے کی وجہ سے خارج ہونے والے چھینٹوں کی صورت میں پھیلتی ہیں۔ یہ باریک اور نا دِکھائی دینے والے مالیکیول ہوا میں کافی عرصے تک رہتے ہیں اور اس ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے لوگ بیمار پڑتے ہیں۔

چین میں محققین نے اس ماسک کی آزمائش ایک بند چیمبر میں کی جہاں ماسک پر وائرس پروٹینز کا مائع اسپرے کیا گیا۔سینسر نے صرف 0.3 مائیکرو لیٹر مائع چھڑکنے پر ہی وائر کے حوالے سے متنبہ کر دیا۔ یہ مقدار چھینک سے بننے والے چھینٹوں سے 70 سے 560 گُنا کم جب کہ کھانسنے یا بات کرنے کے سبب اس سے بھی کم قطرے بنتے ہیں۔ ماسک میں لگے سینسر میں ایپٹامرز موجود ہیں۔ یہ ایک قسم کا سائنتھیٹک مالیکیول ہوتا ہے جو پیتھوجنز میں موجود پروٹینز کی نشان دہی کرسکتا ہے۔

سائنس دانوں نے جن ماسک کی آزمائش کی ان میں موجود ایپٹامرز کووڈ-19، سوائن فلو اور برڈ فلو کی تشخیص کر سکتے ہیں۔ تحقیق کے ایک مصنف ڈاکٹر یِن فینگ، جن کا تعلق شینگھائی ٹونگجی یونیورسٹی سے ہے، کا کہنا ہےکہ گزشتہ مطالعے میں بتایا گیا تھا کہ فیس ماسک بیمارے کے پھیلنے کے امکانات کو کم کردیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسے ماسک بنانا چاہتے تھے جو ہوا میں موجود وائرس کی موجودگی سے متنبہ کرے اور ماسک پہننے والے کو خبردار کرے۔