تِلاوت کا اِنعام کہانی

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی

ہم تین چار دوست روزانہ صبح کی سیر کو ندی کنارے کنارے دور تک جاتے تھے۔
ایک دن سیر سے واپسی پر ہم راستہ بدل کر گاؤں کے اندرونی علاقہ سے گذررہے تھے کہ ہم نے ایک گھر سے بہت ہی پیاری تلاوت کی آواز سنی ۔
تلاوت اتنی مسحور کن تھی کہ ہم سبھی رک کر اطمینان سے سننے کے لئے مجبور ہوگئے۔ تلاوت واقعی لاجواب تھی۔
اب ہم روزانہ ہی اسی تنگ گلی سے جان بوجھ کر گذرتے ۔ تلاوت سن کر ہماری تھکاوٹ دور ہوجاتی تھی۔
ایک دن یہ خوش کن آواز سنائی نہ دی ۔ سوچا کہ آج شاید اس نے جلدی تلاوت ختم کی ہوگی ۔ مگردوسرے دن اور تیسرے دن بھی یہ قرأت سننے کو نہ ملی۔ تجسس بڑھ گیا کہ کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
تیرے دن جب پھر آواز نہ سنائی دی تو ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا،
اندر سے نحیف سی آواز میں جواب آیا ۔’’ میںچند دنوں سے بیمار ہوں۔ بخار اور جوڑوں کا شدید درد ہے ۔ کھڑا اٹھا نہیں جاسکتا ۔ گھر میں دوسرا کوئی نہیں ہے۔ جو دروازہ کھولے۔
ہم تینوں نے پاس کے گھر سے ایک عورت سے التجا کی کہ وہ ہمارے ساتھ اس لڑکی کے گھر آئے ۔تاکہ اس کا حال معلوم کیا جاسکے ۔
اس عورت نے ہماری بات مانی۔
جب ہم اندر گئے ۔ تو دیکھا کہ وہ بہت بیمار ہے اور کمزور ہے۔ اس نے تین روز سے کچھ بھی کھایا پیا نہیں ہے ۔
چولہا بھی کب کا ٹھنڈا پڑا لگ رہاتھا۔
دراصل اس لڑکی کے والدین بہت پہلے وفات پاچکے تھے ۔ ذریعہ معاش اس کا کچھ بھی نہ تھا۔
سوشل ویلفیئر محکمہ کی طرف کچھ حقیرسا بھتہ ملتاتھا۔ وہ بھی اس ماہ ملا نہ تھا کیونکہ محکمہ نے سالانہ شناختی تجدید کیلئے خود دفتر میں حاضر ہونے کو کہا تھا۔
چونکہ وہ وہاں جانے سے قاصر تھی، اس لئے اس کو اس ماہ سے بھتہ روک دیا گیاتھا۔
اب ان تینوں اشخاص نے اس کی دیکھ بھال کے لئے اسی عورت کو منامعاوضہ دے کر منوایا۔
انہوں نے ڈاکٹر سے اس کا علاج معالجہ ، دوا دارو اور راشن پانی کا معقول انتظام بھی کردیا ۔
لڑکی نے بتایا کہ اس کے والدین نے اس کا نکاح ایک لڑکے سے کروایا تھا مگر والدین کے فوت ہونے کے بعد لڑکے نے یہ نکاح توڑ دیا۔
شاید ان کو کوئی مجبوری آن پڑی ہوگی یاا ور کوئی وجہ رہی ہوگی۔
میرا تو نہ لڑکے کے والدین اور نہ ہی لڑکے کے ساتھ کوئی رابطہ رہاتھا۔
شاید انہوں نے سوچا ہوگا کہ بے سہارا اور یتیم لڑکی سے شادی کرنے سے کیا فائدہ۔
میرے اللہ کو شائد بہتر ہی منظورتھا۔
یہ سب کچھ سن کر ان لوگوںکے دل پسیج گئے۔انہوں نے لڑکی کو ہر طرح سے مدد کا یقین دلایا۔
ان تینوں میں سے ایک لڑکے کواس کی تلاوت سب سے زیادہ پسند تھی۔ وہ اس سے بہت متاثر ہوا
وہ خود بھی پابند صوم وصلوٰۃ تھا۔وہ غیر شادی شدہ بھی تھا۔ ایک دن سیر سے واپسی کے دوران اس لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے اس لڑکی سے شادی کی پیش کش کی۔ جس پر باقی ساتھیوں نے حامی بھردی۔
بات دراصل یہ تھی کہ لڑکے کی والدہ پہلے ہی فوت ہوچکی تھی اور والد صاحب بھی جب قریب المرگ ہوئے تو اس نے لڑکے کو کہا کہ میں نے تمہاری منگنی اس روزاس وجہ سے توڑ ی تھی کہ لڑکی والے غریب اورنادار تھے ۔ اور لڑکی بھی پڑھی لکھی نہیں تھی۔
وہ ماشاء اللہ نماز کی پابند تھی اس نے عالمہ کا کورس بھی مقامی درس گاہ سے کیاتھا۔
اُس لڑکی سے نکاح توڑ کر میںنے بڑا گناہ کیا ہے۔ میں اس کے لئے توبہ کرناچاہتا ہوں۔ تاکہ میری آخرت میںاس معاملہ پر پوچھ گچھ نہ ہو۔
میں تب سے والد صاحب کی یہ بات بھول نہیں پاسکا ہوں۔ لڑکے نے اپنے آپ سے کہا۔
اب اگر یہاں اس لڑکی سے میرانکاح ہوجائے تو والد صاحب کی خواہش بھی پوری ہوگی اوراس لڑکی کی کفالت بھی ہوگی۔
گھر جاکر میں نے والد صاحب کو جب اس لڑکی کی پوری کہانی سنائی۔ تو وہ بہت خوش ہوگئے اور کہا کہ اس طرح یتیم کی کفالت بھی ہوگی جوکہ عین سنتِ نبوی ہے۔
لڑکا تو راضی تھا ہی اور ماشاء اللہ لڑکی بھی رضامند تھی۔ اس فیصلہ پر والد صاحب کی مہر بھی حاصل تھی۔
دونوں کی شادی سنت رسول اللہ کے مطابق ہوئی۔
کچھ دنوں بعد والد صاحب کو یہ پتہ چلا کہ یہ وہی لڑکی ہے جس کویتیمی اور مروجہ تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کردیاتھا۔
اب اسی لڑکی سے اس لئے شادی ہورہی ہے کہ یہ یتیم ہونے کے ساتھ ساتھ دیندار بھی ہے۔اس طرح حضورؐ کی سنت بھی پالی گئی والد کی خواہش پوری ہوئی۔
والد صاحب نے بیٹے اور بہو کو ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ اس بیٹے کو اپنے قریب بلا کراس کا ماتھا چوما
چند روز بعد والدصاحب اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
اللہ نے اُن کی دعا سُنی اور وہ اطمینان سے اپنے آخری سفر کے لئے تیار ہوکر چل پڑے۔

���
جموں،موبائل نمبر؛8825051001