بے عملی کی روایت توڑ دی جائے

وادی ٔ کشمیر میںموسم سرما کی شدید سردیوںکے دوران بھی لوگوں کو روز مرہ زندگی میں جو بعض بنیادی مسائل درپیش رہے ،اُن میں ابھی تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہورہی ہے۔بجلی اور پانی کی قلت اور عدم دستیابی کا سلسلہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا جبکہ بے روزگاری ،مہنگائی ،ناجائز منافع خوری ،لوٹ کھسوٹ،بدعنوانی،جرائم، کاروبارِمنشیات اور دیگر خرابیوں اور بُرائیوں کی سرگرمیاں شدو ومد کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق بعض اضلاع کی بیشتر آبادی پانی کی شدید قلت کے باعث ندی نالوں کا ناصاف اور مضرِ صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی سرینگر کے مختلف علاقوں میں بھی پائی جارہی ہے۔اب جبکہ گرم موسم کا آغاز ہونے والا ہے،یہ صورت حال مزیدپیچیدہ رُخ اختیار کرسکتی ہے۔ظاہر ہے پینے کا صاف پانی انسانی زندگی کا بنیادی اور لازمی جُز ہےاور ہَوا کے بعد انسانی زندگی کا درومدار پینے کے پانی پر ہی منحصر ہے۔اگرچہ قدرت نے وادیٔ کشمیر پینے کے صاف پانی کے ذخائر سے مالا مال کر رکھا تھا لیکن وقت وقت کے حاکموں کی غفلت،ناقص منصوبہ بندی اور غیر
ذمہ دارانہ پالیسیوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام کی خود غرضانہ روش ،غلط طرزِ عمل اور لاپروائیوں کے نتیجے میں وادی اس عظیم نعمت سے بھی محروم ہوتی جارہی ہے۔کیونکہ موجودہ دورِ انتظامیہ میں بھی اس معاملےپر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں ہورہا ہےاور نہ ہی یہاں کے عوام کی ضروریات کو بغیر کسی مشکل پورے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی دکھائی دے رہا ہے کہ انتظامیہ کی کارکردگی میں منصوبہ بندی کا فقدان اورناقص اسکیموں کی ترتیب اور کورپشن کے ساتھ ساتھ عوام کے غیر ذمہ دارانہ رول کی روایت تسلسل کے ساتھ چل رہی ہےاور یہ معاملہ ایک مسلسل مسئلہ بن چکاہےجو بعض اوقات بحرانی صورت اختیار کرتا رہتا ہے۔چنانچہ کروڑوں روپے کے اخراجات کے نام پر لوگوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لئے متعلقہ شعبے کی طرف سے جو بھی منصوبے تیار کئے جاتے ہیں یا اسکیمیں ترتیب دی جاتی ہیں ،وہ اکثر ناکام ہی ثابت ہورہی ہیںاور جہاں کہیں بھی اُن اسکیموں کے تحت لوگوں کو پینے کا پانی سپلائی کیا جاتا رہا تو وہ سَپلائی نہ تو منظم طریقوںپر جاری رہیں اور نہ ہی مناسب مقدار میں عوام کو پانی فراہم کرسکیں،جو پانی لوگوں کو فراہم کیا گیا وہ عموماً ناقص،ناصاف اور مضرِ صحت ہی تھا۔اب اگر انجینئرنگ محکمہ کے شعبوں پر نظر ڈالیںتو حسب روایت ان کی کارکردگی میں کسی نِکھار یا سُدھار کی کوئی جھلک سامنے نہیں آتی۔ بغور جائزہ لینے پریہی دکھائی دے رہا ہےکہ اپنے اس کشمیر میں انجینئرنگ شعبوں میں بدعنوانیاں پہلے سے زیادہ ہورہی ہیںاور پبلک رقومات کو دو دو ہاتھوں لوٹنے کے عمل میں بھی تیزی آئی ہے۔نہ ان شعبوں کو کسی مفید کام کرنے کے اہل بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی ان شعبوں کی کارکردگی کا کوئی محاسبہ کیا جارہا ہے۔شہر سرینگر کے مختلف علاقوں میں نکاس آب کے کاموں اور ڈرنیج سسٹم پر بے پناہ رقومات کے اخراجات دکھائے گئے لیکن نکاسِ آب اور ناکارہ ڈرنیج سسٹم کا مسئلہ جُوں کا تُوں ہے۔سڑکوں اور شاہراہوں کو بلڈوز کرکے کھنڈرات بناکر رکھ دیا گیا اور تجدید وتعمیر کا کام بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔پائین شہر کی اندرون سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت یہاں کے انجینئرنگ شعبوں کی پست کارکردگی کی منہ بولتی تصویر ہے۔جس سےیہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ حسب ِ معمول مختلف تعمیراتی کاموں کے لئے سرکاری خزانہ سے ادا کی جانے والی رقومات بُرباد ہوتی رہتی ہیں،کوئی بھی کام مقررہ وقت پر پائیدار بنیادوں پر ہوتا ہی نہیںہےاور جو کوئی کام کیا جاتا ہے وہ عوام کے لئےمفید ثابت نہیں ہوتا،اور اس طرح بدستور عوامی مفادات کا نقصان ہورہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ یو ٹی حکومت ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت جہاں پینے کے صاف پانی کے اس سنگین مسئلےاوربجلی کی عدم دستیابی کے معاملےسے نمٹنےکے لئے میدان ِ عمل میں آئےوہیںبے عملی کی روایت توڑ کرانجینئرنگ شعبوں کے بدمست گھوڑوںکی ناک میں نکیل ڈالے۔ورنہ صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔