بے شمارآبی ذخائرشہر کاری کی نذر بچی کھچی آبی پناہ گاہوں کا تحفظ وقت کی ضرورت

امتیاز خان
عالمی یوم ماحولیات کے سلسلے میں 5جون کو دنیا بھر میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیاگیا ۔یہ ایک ایسا دن ہے جو پوری دنیا میں ہر سال ماحولیات سے متعلق معاملات کے حوالے سے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کیلئے منایاجاتا ہے۔اس کی بنیاد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعہ 1972 میں اس وقت رکھی گئی جب ’اسٹاک ہوم ‘میں ماحول سے انسانی چھیڑ چھاڑ کے موضوع پر ایک کانفرنس کا افتتاح کیاگیا تھا۔
دور حاضر میں قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر آبی ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور پائیداری پر بھی کافی توجہ دی گئی ہے لیکن ان آبی ذخائر کو مختلف قسم کے عوامل سے مسلسل خطرات کاسامنا ہے۔جیسا کہ دنیا بھر کے سائنسدانوں اور ماہرین کی طرف سے پیشگوئی کی جاچکی ہے کہ لاکھوں ٹن کی مقدار میں انسانوں کے ذریعہ ان آبی ذخائر میں پلاسٹک سمیت مختلف اقسام کا کچرا شامل کردیاجاتا ہے جس سے آبی مخلوقات کو نقصان پہنچتا ہے۔
کشمیرکا شمار ان چند خوش قسمت خطوں میں ہوتا ہے جو وسیع آبی ذخائر کے مالک ہیں۔دریائے جہلم ہی نہیں بلکہ مختلف اضلاع میں بہنے والے ندی نالے اور وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی جھیلیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن ہم ان وسائل کا جس بے دردی سے استعمال کررہے ہیں، انہیں خراب بلکہ تباہ و برباد کررہے ہیں وہ ایک افسوس ناک اور مجرمانہ عمل ہے۔یہ آبی ذخائر نہ صرف ہماری جمالیاتی حس کو تسکین بخشتی ہیں بلکہ ماحولیاتی توازن بھی قائم رکھتی ہیںلیکن ان آبی ذخائر کو تباہ کرکے ہم اپنے مسکن کو بدنما بنا رہے ہیں۔ کشمیر کے آبی ذخائر میں ڈل، آنچار، ولر،شالہ بگ، ہائیگام، نارکرہ اور ہوکرسرکو خاص اہمیت حاصل ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر آبی ذخائر گزشتہ پانچ دہائیوں میں سکڑ چکے ہیںبلکہ معدومیت کے دہانے پر ہیں۔
 کسی چیز کی اہمیت کا سوال ہو تو اُن لوگوں سے پوچھا جائے جو اس نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ آبی وسائل کی اہمیت اگر ریگستان کے باشندوں سے پوچھی جائے تو حقیقت حال آشکار ہوگی۔بالکل ویسے جیسے پانی کی اہمیت تو پیاسا ہی جانتا ہے۔ یہ آبی ذخائرزمین کے گردے کا کام کرتی ہیں، سیلاب کو کم کرتی ہیں، پانی سے آلودگی کو دور کرتی ہیں، ساحلوں کی حفاظت کرتی ہیں اور آبی حیات کیلئے رہائش فراہم کرتی ہیں۔ یہ مہاجر پرندوں کے لیے بھی ایک اہم مسکن ہیں ۔جیسے ہماری آبی پناہ گاہوں میں ہر سال اکتوبر اور مارچ کے درمیان سائبیریا، چین، جاپان اور وسطی ایشیا سے لاکھوں پرندے اپنا ڈھیرہ ڈالتے ہیں۔
حکومت ہند کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2006 اور 2018 کے درمیان جموں و کشمیر نے 2372 کنال سے زیادہ آبی پناہ گاہیں کھو دی ہیں۔یہاں تک کہ مشہور ڈل جھیل بھی گزشتہ پانچ دہائیوں میں نمایاں طور پر سکڑ گئی ہے۔ ڈریجنگ کارپوریشن آف انڈیا کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق ڈل جھیل کا حجم 22 مربع کلومیٹر سے کم ہو کر 10 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے جس کا اصل حجم1200عیسوی کے آس پاس 75 مربع کلومیٹر تھا۔یہی حال ’ہوکرسر‘کا بھی ہے جسے کشمیری آبی پناہگاہوں کی ملکہ کہا جاتا ہے ۔یہ جھیل بھی گزشتہ چار دہائیوں میں 5.75 مربع کلومیٹر کا رقبہ کھو چکی ہے۔یاد رہے کہ ہوکرسر کو 8 نومبر 2005 کو رامسر کنونشن کے تحت بین الاقوامی اہمیت کی حامل آبی پناہ گاہ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔اسی طرح سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نارکرہ آبی پناہ گاہ کواب تعمیراتی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ تازہ پانی کیلئے مشہور ایشیا کی دوسری سب سے بڑی جھیل’ولر‘ نمایاں طور پر سکڑگئی ہے بلکہ ماہرین کے مطابق اب 15 مربع کلومیٹر سے کم رہ گئی ہے۔
امریکہ کی ورجینیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دنیا بھر میں 2ہزار کے قریب ذخائر کا جائزہ لینے کے بعددریافت کیا گیا کہ قدرتی جھیلوں کے حجم میں آنے والی 56 فیصد کمی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور انسانی استعمال کے باعث آئی۔رپورٹ میں پانی کے نظم و نسق کے سلسلے میں مناسب حل تلاش کرنے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ ارتھ سائنسز کی 2017 کی ایک تحقیق میںانکشاف کیا گیا ہے کہ سرینگر شہر اور اس کے آس پاس کی شہری کالونیوں میں گزشتہ پانچ دہائیوں میں تقریباً 20 آبی پناہ گاہیںغائب ہو چکی ہیں۔جہلم کے دونوں اطراف کی آبی پناہ گاہیں سیلابی پانی کے ذخائر کا کام کرتی ہیں لیکن پچھلی پانچ دہائیوں میں یہ آبی ذخائرزرعی زمین یا کنکریٹ جنگل میں تبدیل ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے شہر کے بیشتر علاقوںکا 2014میں سیلاب میں ڈوب جانا اس کی ایک مثال ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت اور شہری مل کر ان بیش قیمت آبی ذخیروں کی حفاظت کریں، انہیں ایسے حسین مقامات بنادیں جہاں لوگ سیاحت کیلئے جائیں، ان انمول عطیات سے لطف اندوز ہوں لیکن ہم نے ان جھیلوں کو آلودگی کی نذر کردیا ہے۔ بات قدرے بوجھل ہوجائے گی لیکن آلودگی کے اس مسئلہ کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔ان آبی ذخائر کو پہنچنے والے نقصانات پر بندش لگانے کیلئے یہ لازم ہوجاتا ہے کہ آگاہی پیدا کی جائے اور عوام کو اس بات کیلئے تیار کیا جائے کہ وہ اس سلسلے میں ذمہ دارانہ کارروائی کریں، ماحولیات کے تحفظ کیلئے اقدامات کریں اور دستیاب وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے کرہ ارض کی بحالی او ر تحفظ کے لئے کام کریں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھناہوگا کہ پورے ماحولیاتی نظام کو بحال کرنا اور اس کا تحفظ کرنا ایک بہت بڑا کام ہے جس کے لئے اقوام عالم کو ایک ساتھ مل کر ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہونگے۔
کہتے ہیں کہ آبی وسائل کی اہمیت تیل کے ذخائر سے کہیں زیادہ ہے۔ تیل کی نوبت تو بعد میں آتی ہے جبکہ آبی وسائل سے ہم اپنی زندگی کیلئے بنیادی ضروریات مثلاً اناج وغیرہ حاصل کرتے ہیں۔اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے پاس موجود آبی ذخائر کی قدر کریں۔