بے رَحم افسانہ

ایم یونس

’’اتنا ظلم کیوں کر رہے ہو مجھ پر؟ آخر میرا قصور کیا ہے !؟ تمہیں تو خوش ہو نا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق سے نوازا ہے ، تمہاری ملازمت نہیں تھی ، مجھے جو ملازمت ملی ہے ، شاید اللہ تعالیٰ اسی رزق سے ہم دونوں کا گزارا کر نے کا ذریعہ بنایا ہو ،اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر نا چاہیئے نہ کہ اس طرح میرے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرو ۔ کیا مذہب اسلام میں عورت کا بر سر روزگار ہو نا کوئی گناہ ہے !؟ آج تم نے میر ے ساتھ اس قدر بے رخی کا سلوک کر کے اچھا نہیں کیاہے، میں نے اس خوشی کے موقع پر جو میٹھائیاں لائی تھیں، تم نے انہیں کوڑادان میں پھینکا ہی نہیں بلکہ اس حلال سوغات کی بے حرمتی بھی کی ۔ تمہارا یہ گھنا ئونا طریقہ اخلاق سے بالکل گِرا ہو ا تھا ، کیا کوئی خود کو مسلمان کہنے والا نیک انسان حلال چیزوں پر حقارت سے تھوکتا ہے، تم نے یہ نیچ حرکت کر کے میری خوشیوں اور آرزوئوں کا خون کیا ہے ، تم اپنے جنون میں اس قدر وحشی ہو گئے کہ تمہیں شوہر ہونے کا احساس بھی نہیں رہا۔ تم نے مجھے گندی گندی گالیاں دیں اور بدتمیزی سے پیش آئے۔ کیا ان ہی مخرب اخلاق حرکتوں کے لئے تم نے مجھ سے محبت کی تھی؟ مجھے افسوس ہے کہ شادی کے بعد یک لخت تم اس طرح بدل گئے کہ ، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ مرد ایسا بھی ہوتا ہے!!چھی!لعنت ہے تمہارے جیسے شوہر پر جو ایک عورت کی عظمت اور اس کے حسن واخلاق کو کوڑے کا ٹوکرا سمجھے، جب دل میں آئے اسے اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دے‘‘۔ آج زبیدہ کی نسائی انا جاگ اٹھی تھی اور وہ اپنے جذبے کی گرفت سے بے قابوہوکر زبان درازی کے بد نما الفاظ اپنے کم ظرف شوہر کو بکے جا رہی تھی۔گھر میں خوش خبری کیا آئی کہ نعیم شیخ کا چہرہ اچانک فق ہو گیا ۔وہ بالکل کڑ واہٹ کے تنائومیں لاوے کی طرح اُبل رہا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ وہ زبیدہ خاتون کا خاوند بھی ہے۔ شریعت نے نظام زندگی میں شوہر اور بیوی کے کچھ حقوق بنائے ہیں۔ رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد شوہر وزن کو اسلامی قانون کے آئینہ میں زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔ جس طرح ایک نیک اور صالحہ بیوی اپنی دینداری اور فرما بر داری سے شوہر کی خواہشوں کو پورا کر نے کے لئے ہمہ تن تیار رہتی ہے ٹھیک ویسے ہی ایک نیک کردار شوہر اپنی منکوحہ کے نان ونفقہ کے علاوہ اس کی دلجوئی کے لئے ہر وقت خوش مزاجی سے پیش آتا ہے۔ وہ اپنی شریک حیات کے لئے ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے، جس کی چھائوں میں ایک عورت کو پناہ اور آزادی کی تمکنت حاصل ہوتی ہے۔ مگر رشتۂ ازدواج کی یہ نازک ڈور جب خود غرضی اور بے معنی انا پرستی کے دلدل میں پھنس جائے تو اس کے اندر تباہی اور گزند کا ایک زہر یلا سانپ پھنکا ر نے لگتا ہے۔ شوہر وبیوی کی محبتوں میں دراڑ پیدا ہونے لگتی ہے۔ آج نعیم شیخ شیطان صفت بن چکا تھا۔ وہ زبیدہ کی تلخ کلامی پر بم کے گولوں کی طرح پھٹ پڑا۔ اس نے زبیدہ خاتون کی چوٹیاپکڑکر اُسے بھرپور طاقت سے زمین پر پٹخ دیا۔ زبیدہ خاتون درد سے بلبلا اٹھی۔ اس نے روتے ہوئے غصے میں کہا’’آج تم جلاد بن گئے ہو، کیا کوئی شریف مرداپنی بیوی کے ساتھ اس طرح حیوانیت کا سلوک کرتا ہے، تم بے روز گار ہو، گھر میں کہیں سے کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے، راشن کاکوئی انتظام نہیں، بچوں کو دو وقت کا کھانا نہیں مل پارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے اس گھر میں ایک روزی آئی ہے، جس سے ہم دونوں کا سنسار سکھی ہوجائے گا، بچے بھوکے نہیں مریں گے، تم اس خوش خبری کو قبول کرنے کے بجائے، غنڈے ، موالی کی طرح درندگی پر اتر آئے ہو جیسے میں نے تمہاری ملازمت چھین لی ہے۔‘‘ ’’زبیدہ !اپنی زبان کو لگام دو، ورنہ اس کا نتیجہ بہت برا ہوگا۔‘‘ نعیم شیخ نے شیطانی تیور میں زبیدہ کو دھمکیاں دیں۔ زبیدہ رات کے اندھیرے میں کوٹھے سے لائی ہوئی کوئی دوسری عورت نہیں تھی۔ اس کا بھی اپنے شوہر پر کچھ اپنا حق بنتا تھا۔ وہ اپنے زندہ ضمیر کو مجروح ہوتا دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے غصے میں کہا۔ ’’میں کوئی بازار سے خریدی ہوئی تمہاری باندی نہیں ہوں جو تمہاری انگلیوں کے اشارے پر کٹھ پتلی کی طرح ناچتی رہوں گی، تم مجھے اپنی دھونس اور دھمکی سے ہرگز ہرگز ڈرا نہیں سکتے ہو‘‘۔زبیدہ کی چبھتی باتوں سے نعیم شیخ ایک بار پھر بپھر اٹھا۔ وہ جنونی اور خفتی جوانوں کی طرح زبیدہ پر جھپٹ پڑا۔ لاتیں، مکت ، گھونسے اس کے کمزور جسم پر برسا تا رہا۔ جی بھر کر اسے مارتے مارتے نیم جان کردیا۔ پھر بے غیرتی سے گرج کر کہا ’’زبیدہ !غور سے سن لو، تم یہ ملازمت ہر گز ہر گز جوائن نہیں کروگی۔ تمہیں اس گھر میں رہنا ہے تو اسی وقت اس نوکری سے استعفیٰ دنیا ہوگا، میں نہیں چاہتا ہوں کہ تم غیر مردوں کے درمیان رہ کر ملازمت کرو‘‘۔ ’’تم نے مجھے اتنا مارا کہ جیسے میں تمہاری نگاہ میں کوئی جانور ہوں، اس کے بعد تم ایک ظالم بادشاہ کی طرح یہ حکم دیتے ہوکہ میں آئی ہوئی روزی کو چھوڑدوں ، میں تمہارے اس حکم کوبھی مان لیتی اگر تم مجھے پیار ومحبت سے مشورہ دیتے ہوئے کہتے ، تمہیں تو میری ملازمت سے حسد ، جلن اور چڑ پیدا ہوگئی ہے، پردہ ایک بہانا ہے، میں یہ نوکری نہیں چھوڑسکتی ہوں، میرے بچے بھوکے مررہے ہیں، یہ اگر شوہر کی حکم عدولی ہے تو میں یہ گناہ کرنے کو تیار ہوں، میں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مار سکتی ہوں، اللہ کے واسطے تم اپنے ارادے کو بدل ڈالو، ہم تم میںکسی کا درجہ بڑا نہیں ہے، رزق کسی کے ذریعہ گھر میں آئے، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے تواچھا ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر گزار ہونا چاہئے‘‘۔زبیدہ نے اپنے ظالم شوہر کو جواب دیتے ہوئے کہا۔’’تم بے شرم ہو ، تم مجھ پر غلط الزام لگارہی ہو، میں کام چور نہیں ہوں، میں ملازمت پانے کی کوشش کررہا ہوں، بس میں نہیں چاہتا ہوں کہ تم یہ نوکری کرو، یہ میرا حکم ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے سنکی کی طرح نعیم شیخ کے زبیدہ کو پھر کئی لاتیں اور مکے رسید کر دیئے جیسے وہ پاگل ہو چکا تھا۔ شادی کے بعد کل تک وہ زبیدہ کو یہی کہہ رہا تھاکہ ہم دونوں پڑھے لکھے ہیں۔ ملازمت پانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ہم میں سے کسی کو بھی نوکری مل جائے گی تو بچوں کو بھکمری سے بچالیں گے۔ آج جبکہ زبیدہ کے نصیب میں روزی روٹی آتی ہے تو نعیم شیخ حسد وجلن سے انگارا بن گیا تھا۔ وہ جھٹ سے لکڑی کے بکس میں سے ایک تیز دھار چھری نکال لایا۔ زبیدہ ، نعیم شیخ کے ہاتھ میں تیز دھار چھری دیکھ کر سہم گئی۔ نعیم شیخ چیخ کر کہا۔ ’’ابھی تمہیں مزہ چکھاتا ہوں؟ زبیدہ اپنے شوہر کا راکشش کا روپ دیکھ کر کانپ اٹھی ۔ اسے کسی ناگہانی خطرے کا گمان ہونے لگا۔ نعیم شیخ حیوانیت پر اتر آیا تھا۔ زبیدہ نعیم شیخ کے چنگل سے نکلنا چاہتی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس جلاد سے کیسے بچا جائے ۔ نعیم شیخ اپنی خطر ناک چھری لیکر دروازے پر آدم خور دیوکی طرح کھڑا ہوگیا۔ زبیدہ کی نگاہ میں اب نعیم شیخ اس کا پاک ، ہم درد ، غمگسار اور با اعتبار شریک حیات نہیں رہا۔ وہ انسانیت کی سطح سے گرا ہوا ایک دہشت گرد، قاتل اور لٹیرا بن گیا تھا جو خونخوار بن کر اپنی ہی بیوی کا گلا کاٹ سکتا تھا۔ پھر بھی ایک عورت ہونے کے ناطے زبیدہ ، نعیم شیخ کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے گڑگڑا تے ہوئے کہا ’’میں تم سے معافی مانگتی ہوں ، میری غلطیوں کو معاف کردو، تم اس وقت جنون میں ہو، ایسا نہ ہو کہ تم کچھ غلط کر بیٹھو، اللہ کے واسطے مجھے یہاں سے جانے دو، تمہارا غصہ ٹھنڈا ہوجائیگا تو میں واپس لوٹ آئوں گی۔ ‘‘نعیم شیخ اپنے آپ میں نہیں تھا۔ اس نے آنکھوں میں خون بھر کر کہا ’’میں تمہیں یہاں سے ہر گز جانے نہیں دوں گا۔’’زبیدہ ، نعیم شیخ کے چہرے کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھی۔ مارے خوف سے کانپ اٹھی۔ وہ سوچنے لگی۔ اس کا اس گھر میں اس وقت ٹھہر نا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس نے پھر نعیم شیخ کو کہا ’’پلیز! مجھے یہاں سے جانے دو۔ ’’تم ابھی بہت غصے میں ہو۔’’یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے نعیم شیخ کو دھکا دیکر دروازہ سے باہر نکلنا چاہتی تھی۔ مگر نعیم شیخ کے سخت مضبوط بازوئوں نے خونخوار پنجوں کی طرح اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہ چیخ پڑی’’تم کو اللہ کا واسطہ! مجھے چھوڑدو، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہارے حکم کے مطابق میں یہ ملازمت جوائن نہیں کروں گی‘‘۔نعیم شیخ نے سوچا کہ اگر یہ شیرنی اس وقت اس کے پنجے سے باہر نکل گئی تو وہ اس کی جان کے لئے وبال بن سکتی ہے۔ اسی شیطانی جنون میں نعیم شیخ نے زبیدہ کو جانوروں کی طرح ایک بار پھر زمین پر پٹخناچاہا تھا۔ زبیدہ زمین پر لڑکھڑاتے ہو ئے گر نے لگی۔پھر بھی اس نے اپنی پوری طاقت سے نعیم شیخ کو دھکا دیدیا۔ نعیم شیخ دوسرے طرف جا گرا ۔ زبیدہ اٹھ کر پھرتی سے بھاگنا چاہتی تھی۔ نعیم شیخ بڑی تیزی سے اٹھا اور زبیدہ کو پٹخ کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا جیسے ایک قصاب مذبح میں جانور کے ساتھ ذبح کر نے سے قبل کرتا ہے۔ زبیدہ نے بھی جنون میں آکر نعیم شیخ کے ہاتھ پر دانت گڑا دیا۔ نعیم شیخ پر اس حملے کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا ۔ اب زبید ہ ہاتھ پائوں بندھے ہو ئے جانوروں کی طرح بے بس تھی۔ وہ جنونی زبیدہ کے بدن پر اسی طرح سوار رہا۔ اس کے سر پر سفاکیت کا خون چڑھا ہوا تھا۔ زبیدہ اس کی زندگی کی راہ کے لئے روڑا بن چکی تھی۔ اسے اپنی راہ سے ہٹانا تھا۔ تیز دھار چھری اب بھی اس کے ہاتھ میں چمک رہی تھی۔ ایک لمحہ رکے بغیر نعیم شیخ نے جانگلوکی طرح زبیدہ کے داہنے ہاتھ پر یہ کہتے ہوئے وار کردیا’’گندی عورت کہیں کی، مرد سے زبان لڑاتی ہو، تم پر دُھتکار ہے، تمہیں اپنے داہنے ہاتھ پر نازہے نا، نہ یہ ہاتھ رہے گا اور نہ تم یہ نوکری کروگی‘‘۔ چھری کی دھار اتنی تیز تھی۔ ہاتھ پر پڑتے ہی کلائی ہاتھ سے الگ ہوگئی۔ زبیدہ ایک کراری چیخ کے ساتھ بے ہوش ہوگئی۔ زبیدہ کی چیخ سن کر پڑوسی دوڑے چلے آئے ۔ لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر نعیم شیخ کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔ زبیدہ کو سرکاری ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ڈاکٹروں کی ٹیم نے بڑی مستعدی سے مظلومہ کا علاج کیا۔ زبیدہ خاتون کے زخم سے خون زیادہ گر گیا تھا۔ پھر بھی اس کی جان کسی طرح سے بچ گئی۔ وہ اپنے ایک ہاتھ سے ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئی۔ زبیدہ خاتون کو محکمہ صحت میں نرس کی ملازمت ملی۔ اس کے علاج کے لئے ساری ذمہ داری حکومت نے اپنے ذمہ لی ۔ سرکار کی جانب سے مصنوعی ہاتھ لگانے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ زبیدہ نے ریاستی سرکار کی طرف سے ملنے والی امداد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ سرکار کی جانب سے اس ہمدردی پر اس کی آنکھوں میں آنسوبہہ آئے۔ دوسری طرف پولیس والوںنے اس کے خونی شوہر کو گرفتار کر لیا۔ زبیدہ خاتون کی زندگی میں یہ بہت ہی بڑا دل سوز سانحہ تھا۔ انسانی سوچ وتفکر کی بات تھی۔ آج بھی عورت سوسائٹی میں مرد کے اساسی ذہن کا شکار بنی ہوئی ہے۔ حقوق انسانیت اور حقوق شریعت کو آج بھی مرد اپنی انا کے آگے ہیچ سمجھتا ہے۔ دین اور سماج نے عورتوں کو جو حقوق دیئے ہیں، مرد اس کی کفالت نبھانے کی آڑمیں ہر طرح سے استحصال کر کے اُسے ان حقوق سے محروم کر رہا ہے۔ عورت آج بھی اپنی آزادی کے نام پر شیشے کے زندان میں گھیری ہوئی ایک موم کی بنی دہکتی ہوئی گڑیاہے جو مرد کے ہاتھوں میں کم وبیش کرنے والے پر زے کے ذریعہ کبھی تیز ، کبھی کم لو سے جلتی جارہی ہے۔ نہ جانے کب تک مرد کی وحشیانہ حرکتیں عورتوں پر معتوب بنی رہیں گی!؟ زبیدہ خاتون کے پاس اس مظلو میت سے بچنے کا ایک ہی واحدراستہ تھا۔ اس نے اپنے قاتل شوہر کے خلاف عدالت میں کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا بلکہ شریعت کے حکم پر عمل کیا، جو اس کی اجیرن زندگی کو سکون پہنچا سکتا تھا۔ صحت یابی ہوتے ہی زبیدہ خاتون نے دارا القضا میں خلع کے لئے نالش کی۔

���
کمرہٹی(کولکاتا)
موبائل نمبر؛6289007721