بدی اور ظلم کیسے پھیلتا ہے؟ (۲) ’مسلم‘ یا ’مسلمان‘ لفظ کی بے حرمتی کا ذمہ دار کون ہے؟

عبدالعزیز

اسی کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً ط(سورہ انفال:30)
’’بچواس فتنہ سے جو صرف انہی لوگوں کو مبتلائے مصیبت نہ کرے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا ہے‘‘۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ بدی کو اپنے سامنے نہ ٹھہرنے دو۔ کیونکہ اگر تم بدی سے رواداری کروگے اور اس کو پھیلنے دوگے تو اللہ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا اور اس کی لپیٹ میں اچھے اور برے سب آجائیں گے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی ہے :
’’اللہ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا مگر جب وہ اپنے سامنے بدی کو دیکھیں اور اس کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اس کو نہ روکیں تو اللہ خاص اور عام سب کو مبتلائے عذاب کر دیتا ہے‘‘۔
قوم کی اخلاقی اور دینی صحت کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ اس کے ہر فرد میں غیرت ایمانی اور حاسۂ اخلاق موجود ہو، جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جامع لفظ ’’حیا‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حیا در اصل ایمان کا ایک جز ہے جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا ہے۔ ان الحیاء من الایمان، بلکہ ایک موقع پر جب حضورؐ سے عرض کیا گیا کہ ’’حیا دین کا ایک جز ہے؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا: بل ہو الذین کلہ یعنی ’’وہ پورا دین ہے‘‘۔
حیا سے مراد یہ ہے کہ بدی اور معصیت سے نفس میں طبعی طور پر انقباض پیدا ہو اور دل اس سے نفرت کرے، جس شخص میں یہ صفت موجود ہوگی وہ نہ صرف قبائح سے اجتناب کرے گا بلکہ دوسروں میں بھی اس کو برداشت نہ کرسکے گا، وہ برائیوں کو دیکھنے کا روادار نہ ہوگا۔ ظلم اور معصیت سے مصالحت کرنا اس کیلئے ممکن نہ ہوگا۔ جب اس کے قبائح کا ارتکاب کیا جائے گا تو اس کی غیرتِ ایمانی جوش میں آجائے گی اور وہ اس کو ہاتھ سے یا زبان سے مٹانے کی کوشش کرے گا یا کم از کم اس کا دل اس خواہش سے بے چین ہوجائے گا کہ اس برائی کو مٹادے :
’’تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے اور اگر ایسا نہ کرسکتا ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو دل سے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے‘‘۔
جس قوم کے افراد میں عام طور پر یہ صفت موجود ہوگی ،اس کا دین محفوظ رہے گا اور اس کا اخلاقی معیار کبھی نہ گرسکے گا۔ کیونکہ اس کا ہر فرد دوسرے کیلئے محتسب اور نگراں ہوگا اور عقیدہ و عمل کے فساد کو اس میں داخل ہونے کیلئے کوئی راہ نہ مل سکے گی۔
قرآن مجید کا مقصد در اصل ایسی ہی ایک آئیڈیل سوسائٹی بنانا ہے، جس کا ہر فرد اپنے قلبی رجحان اور اپنی فطری غیرت و حیا اور خالص اپنے ضمیر کی تحریک پر احتساب اور نگرانی کا فرض انجام دے اور کسی اجرت کے بغیر خدائی فوجدار بنا پھرے۔ اسی لئے بار بار مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا تمہارا قومی خاصہ ہے جو ہر مومن مرد اور عورت میں متحقق ہونا چاہئے:
’’تم بہترین قوم ہو جسے لوگوں کیلئے نکالا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم کرتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (سورہ آل عمران:12)
’’مومن مرد اور عورت ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ نیکی کا حکم کرتے اور بدی سے روکتے ہیں‘‘۔ (سورہ توبہ:9)
اگر مسلمانوں کا یہ حال ہو تو ان کی مثال اس بستی کی سی ہوگی جس کے ہر باشندے میں صفائی اور حفظانِ صحت کا احساس ہو۔ وہ نہ صرف اپنے جسم اور اپنے گھر کو پاک صاف رکھے بلکہ بستی میں جہاں کہیں غلاظت اور نجاست دیکھے ،اس کو دور کر دے اور کسی جگہ گندگی اور کثافت کے رہنے کا روادار نہ ہو، ظاہر بے کہ ایسی بستی کی آب و ہوا پاک اور صاف رہے گی۔ اس میں امراض کے جراثیم پرورش نہ پاسکیں گے اور اگر شاذ و نادر کوئی شخص کمزور اور مریض الطبع ہوگا تو اس کا بروقت علاج ہوجائے گا یا کم از کم اس کی بیماری محض شخصی بیماری ہوگی۔ دوسروں تک متعدی ہوکر وبائے عام کی صورت نہ اختیار کرسکے گی۔ لیکن اگر مسلمانوں کی قوم اس بلند درجہ پر نہ رہ سکے تو سوسائٹی کی دینی و اخلاقی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے کم از کم ایک ایسا گروہ تو ان میں ضرور موجود رہنا چاہئے جو ہر وقت اس خدمت پر مستعد رہے اور اعتقاد کی گندگیوں اور اخلاق و اعمال کی نجاستوں کو دور کرتا رہے:
’’تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلانے والی ہو۔ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے‘‘۔ (سورہ آل عمران:11)
یہ جماعت علماء اور اولوالامر کی جماعت ہے جس کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں منہمک رہنا اتنا ضروری ہے، جتنا شہر کے محکمہ صفائی و حفظانِ صحت کا اپنے فرائض میں مستعد رہنا ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے فرض سے غافل ہوجائیں اور قوم میں ایک جماعت بھی ایسی باقی نہ رہے جو خیر و صلاح کی طرف دعوت دینے والی اور منکرات سے روکنے والی ہو تو دین و اخلاق کے اعتبار سے قوم کی تباہی اسی طرح یقینی ہے ،جس میں صفائی اور حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہ ہو۔ اگلی قوموں پر جو تباہیاں نازل ہوئی ہیں وہ اسی لئے ہوئی ہیں کہ ان میں کوئی گروہ بھی ایسا باقی نہ رہا تھا جو ان کو برائیوں سے روکتا اور خیر و صلاح پر قائم رکھنے کی کوشش کرتا۔
پس قوم کے علماء و مشائخ اور اولوالامر کی سب سے بڑی ذمہ داری ہےکہ وہ صرف اپنے ہی اعمال کے جواب دہ نہیں بلکہ پوری قوم کے اعمال کی جواب دہی بھی ایک بڑی حد تک ان پر عائد ہوتی ہے۔ظالم، جفاکار اور عیش پسند امراء اور ایسے امراء کی خوشامدیں کرنے والے علماء و مشائخ کا تو خیر کہنا ہی کیا ہے ان کا جو کچھ حشر خدا کے ہاں ہوگا، اس کے ذکر کی حاجت نہیں لیکن جو امراء اور علماء و مشائخ اپنے محلوں اور اپنے گھروں اور اپنی خانقاہوں میں بیٹھے ہوئے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی داد دے رہے ہیں وہ بھی خدا کے ہاں جواب دہی سے بچ نہیں سکتے؛ کیونکہ جب ان کی قوم پر ہر طرف سے گمراہی اور بد اخلاقی کے طوفان امڈے چلے آرہے ہوں تو ان کا کام یہ نہیں ہے کہ گوشوں میں سر جھکائے بیٹھے رہیں بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ مرد میدان بن کر نکلیں اور جو کچھ زور اور اثر اللہ نے ان کو عطا کیا ہے اس کو کام میں لاکر اس طوفان کا مقابلہ کریں۔ طوفان کو دور کرنے کی ذمہ داری بلا شبہ ان پر نہیں مگر اس کے مقابلہ میں اپنی پوری امکاری قوت صرف کر دینے کی ذمہ داری تو یقینا ان پر ہے، اگر وہ اس میں دریغ کریں گے تو ان کی عبادت و ریاضت اور شخصی پرہیزگاری ان کو یوم الفصل کی جواب دہی سے بری نہ کردے گی۔ آپ محکمہ صفائی کے افسر کو کبھی بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے جس کا حال یہ ہو کہ شہر میں وبا پھیل رہی ہو اور ہزاروں آدمی ہلاک ہورہے ہوں مگر وہ اپنے گھر میں بیٹھا خود اپنی اور اپنے بال بچوںکی جان بچانے کی تدبیر کر رہا ہو، عام شہری اگر ایسا کریں تو چنداں قابل اعتراض نہیں لیکن محکمۂ صفائی کا افسر ایسا کرے تو اس کے مجرم ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
موبائل: 9831439068 [email protected]
���������������������