ایام ِذی الحجہ۔ اللہ کے محبوب دن ! فکرو فہم

عاقب شاہین۔ دوحہ قطر

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہے جس نے ہمارے لیے فضیلت والے دن مقرر کئےتاکہ ہم زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اور اللہ کا قرب حاصل کر سکیں۔ مختلف اوقات میں سے ایک کودوسرے پرفضیلت بخشی اورکچھ مہینوں اورایام کوخصوصی فضیلت اورامتیازی حیثيت دی۔لہٰذا مومنین کواپنے وقت کی قدراورزندگی کی قیمت کو پہچانتے ہوئے اپنے ربّ کی عبادت میں مشغول ہونا چاہیے اورموت تک خیروبھلائی کے کاموں پرہمیشگی کرنی چاہیے ۔اسی طرح ہمارے لئے ذی الحجہ کے پہلے دس دن مقرر کئے گئےہیں۔جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔(ترجمہ) ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اِذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں،تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لئے رکھے گئے ہیں، اور چند مقرر دِنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انھیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں‘‘۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں:۔ عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دنوں میں کیے جانے والے اعمال سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کسی اور دن کا عمل صالح محبوب نہیں‘‘ یعنی ذی الحجہ کے دس دن۔ لوگوں نے پوچھا :اے اللہ کے رسولؐ! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا، پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا‘‘۔( أبو داود ، الحديث رقم 2438 ، ص 370 )
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’جب تم ذوالحجہ کے مہینے کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کو قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اُسے چاہئے کہ وہ (جانور ذبح کرنے تک) نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ ہی ناخن تراشے‘‘۔(صحيح مسلم: 5234)
نافع ،ابن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو عشرہ ذوالحجہ میں اپنے بیٹے کے بال کاٹ رہی تھی تو انہوں نے کہا اگر تم اسے قربانی کے بعد تک موخر کر دیتی تو زیادہ بہتر رہتا۔(مستدرك حاكم: 7520)جو قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو ،وہ ان دس دنوں میں اپنے ناخن اور بال نہ تراشے تو وہ بھی ان شاء اللہ قربانی کا اَجر پائے گا۔(سنن ابی داود:2789)لہٰذا ایک مسلمان کی زندگی نیک اعمال اور جائز عبادات سے معمور ہے جو مسلمان کو مسلسل عبادت میں مبتلا کر دیتی ہے، اور اس کی پوری زندگی کو اچھے الفاظ، عمل صالح، اور بغیر تھکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کی انتھک جستجو میں بدل دیتی ہے۔ بوریت، بے حسی یا رکاوٹ۔ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان کی پوری زندگی عبادت، اطاعت اور اعمال صالحہ پر مشتمل ہونی چاہیے جو اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں، اور اسے اپنے عظیم خالق، بزرگ و برتر سے اس کی زندگی کے ہر پہلو میں جوڑ دیں۔ اس کے معاملات کا ہر معاملہ۔
لہٰذا، ایک مسلمان کی زندگی میں تقریباً کبھی بھی ایسی عبادت کرنے سے کوئی خلل واقعہ نہیں ہوتا جو اس کے لیے ایک جامع اور مربوط طرز زندگی کی نمائندگی کرتی ہو۔ مثال کے طور پر، اس پر پانچ نمازیں فرض ہیں، جن کے اوقات دن اور رات کے اوقات میں تقسیم کیے گئے ہیں، اور ہفتے میں ایک بار جمعہ کی نماز، اور ہر سال رمضان کے بابرکت مہینے کے روزے رکھنا۔ ہر ہفتے، اور ہر مہینے کے تین روزے، پھر ذوالحجہ کے پہلے دس دن آتے ہیں، اور ان میں نیکیاں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ایک مسلمان کی زندگی میں ہر سال ایسا مقدس مہینہ بھی آتا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھائے اور اپنی نیکیوں میں اضافہ کرے اپنی عبادت اور اعمال صالح سے اللہ کا قرب پائے ،یہی وہ اعمال ہیں جن کے لئے عزم واستقلال ، اخلاص ضروری ہے ۔
ان مقدس ایام میں ایک دن اللہ تبارک وتعالی کا محبوب دن ہے۔امام ابن القیم رحمه الله فرماتے ہیں :’’اگر کوئی سمجھ دار فاضل شخص اس جواب پر غور کرے تو اسے کافی و شافی پائے گا‘‘۔کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں کیا گیا عمل اﷲ کو عشرہ ذی الحجہ کے دنوں میں کئےگئے عمل سے زیادہ محبوب ہو۔ ان دس دنوں میں یوم العرفة، یوم التروية اور یوم النحر (۸ ،٩، ١٠) جیسے عظیم دن شامل ہیں۔(بدائع الفوائد : ١١٠٢/٣)
اللہ ہمیں ان دنوں کی قدر کرنے کی توفیق دے ۔
[email protected]