اپنے بچوں کو ذمےدار انسان بننا سکھائیں انکساری اور عاجزی کا بھی سبق پڑھائیں

لیاقت علی

 

جو لوگ ذمےدار ہوتے ہیں، ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر انہیں کوئی کام دیا جائے تو وہ اسے اچھی طرح سے اور وقت پر پورا کرتے ہیں۔ حالانکہ چھوٹے بچے کچھ زیادہ تو نہیں کر سکتے لیکن وہ پھر بھی ذمہ دار بننا سیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کی پرورش کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ، جب بچے 15 مہینے کے ہوتے ہیں تو وہ تب سے ہی ماں باپ کی بات ماننے کے قابل ہوتے ہیں۔ اور جب وہ 18 مہینے کے ہو جاتے ہیں تو ان میں وہی کام کرنے کی خواہش ہوتی ہے جو کہ ان کے ماں باپ کر رہے ہوتے ہیں۔

کئی ملکوں میں یہ دستور ہے کہ جب بچے پانچ سے سات سال کے ہو جاتے ہیں تو ان کے ماں باپ انہیں گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کرنا سکھانے لگتے ہیں۔ حالانکہ بچے چھوٹے ہوتے ہیں پھر بھی وہ اچھی طرح سے کام کر لیتے ہیں۔

مغرب میں یہ رجحان بہت عام ہے کہ کئی نوجوان اپنے بل بوتے پر زندگی گزارنے کے لیے اپنے گھر سے الگ رہنے لگتے ہیں۔ مگر پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے ماں باپ کے پاس لوٹ آتے ہیں۔ کچھ نوجوان اس لیے واپس لوٹ آتے ہیں کیونکہ ان کے والدین نے بچپن میں انھیں پیسوں کا صحیح استعمال کرنا، گھر کے کام کاج کرنا اور اپنی ذمےداریاں نبھانا نہیں سکھایا تھا۔اسی لیے ماں باپ کو اپنے بچوں کی بچپن سے ہی تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر اپنی ذمےداریاں پوری کر سکیں۔ اس سلسلے میں ایک کتاب میں بتایا گیا: ’’کچھ ماں باپ اپنے بچوں کے لیے سارے کام کرتے ہیں اور جب بچے 18 سال کے ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں اپنی مرضی سے جینے کے لیے اُن کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔

بچوں کو گھر کے کام کاج کرنے کو دیں۔ محنت مشقت کرنے میں ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ کام کرنا اچھا لگتا ہے۔ لہٰذا اس بات کا فائدہ اٹھائیں اور انہیں گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے کو کہیں۔ لیکن کچھ ماں باپ ایسا کرنے سے جھجکتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ بچوں پر تو ویسے ہی پڑھائی کا اتنا بوجھ ہے اس لیے انہیں بچوں کو گھر کے کام کاج دینے سے ان پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔مگر دیکھا گیا ہے کہ جو بچے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں، وہ پڑھائی بھی اچھی طرح سے کر پاتے ہیں۔ گھر کے کام کرنے سے وہ یہ سیکھتے ہیں کہ انہیں جو کام دیا گیا ہے، انہیں وہ پورا کرنا چاہیے۔ اگر ہم بچوں سے چھوٹی عمر میں ہاتھ بٹانے کے لیے نہیں کہتے، جب ان میں ایسا کرنے کی خواہش بھی ہوتی ہے، تو انہیں لگے گا کہ دوسروں کی مدد کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ انہیں یہ بھی تاثر مل سکتا ہے کہ ان کے سارے کام دوسروں کو کرنے چاہئیں۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب بچے گھر کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں تو وہ لوگوں کی مدد کرنا سیکھتے ہیں اور خودغرض نہیں بنتے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ گھر میں ان کی بھی اہمیت ہے اور گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا ان کا فرض ہے۔

اپنے بچوں کی غلطیوں پر پردہ مت ڈالیں۔ غلطی کرنے پر جو دکھ یا شرمندگی ہوتی ہے، اس کا بچے سامنا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا بچہ غلطی سے کسی کا کوئی نقصان کر دیتا ہے تو اسے اس شخص سے معافی مانگنے کے لیے کہیں اور اگر ہو سکے تو اسے اس نقصان کی تلافی کرنے کو بھی کہیں۔ اگر بچوں کو یہ احساس ہوگا کہ اپنی غلطی کے لیے وہی قصوروار ہیں تو وہ اپنی غلطی چھپانے کی بجائے اسے مانیں گے؛ اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں پر نہیں ڈالیں گے؛ اپنی غلطی کے لیے بہانے پیش نہیں کریں گے؛ معافی مانگنے کے لیے تیار رہیں گے۔جن بچوں کو ایک ذمےدار شخص بننا سکھایا جاتا ہے، وہ بڑے ہو کر اپنی ذمےداریوں کو اچھے طریقے سے نبھا پاتے ہیں۔

بچوں سے غلطیاں تو ضرور ہوں گی لیکن اگر وہ کوئی غلطی کرتے ہیں تو ماں باپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ بچے اپنی غلطیوں سے اہم سبق سیکھتے ہیں، جو زندگی میں آگے چل کر ان کے بہت کام آتے ہیں۔ جن کے ماں باپ اپنے بچوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے انہیں ان کے نتیجے بھگتنے دیتے ہیں، اپنے بچوں کی غلطی سدھارنے میں ان کی مدد کرتے ہیں، ایسے بچے ہی زندگی میں کامیاب ہوتے اور خوش رہتے ہیں۔اسی طرح منکسر اور عاجزی پسند لوگ دوسروں کی عزت کرتے ہیں۔ وہ گھمنڈی نہیں ہوتے اور نا ہی دوسروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ ایک عاجزی پسند شخص دوسروں کی بھلائی میں دلچسپی رکھتا اور اُن سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ عجز ایک کمزوری ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ یہ خوبی ایک شخص کو کمزور نہیں بلکہ دلیر بناتی ہے کیونکہ اس خوبی کی وجہ سے ایک شخص کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں کون سی خامیاں ہیں اور وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ہر کام کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔

عاجزی کی خوبی پیدا کرنے سے بچوں کو آگے چل کر بہت فائدے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ خاکسار بننا سیکھے گا تو اسے نا صرف وقتِ رواں میں بلکہ زندگی میں آگے چل کر بھی بہت فائدہ ہوگا، مثلاً نوکری کی تلاش کرتے وقت۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر لیونارڈ ساکس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ’’جو نوجوان خود کو کچھ زیادہ ہی سمجھتے ہیں اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ کچھ کاموں کو کرنا ان کے بس میں نہیں ہے، وہ نوکری کے لیے انٹرویو دیتے وقت دوسروں پر اچھا تاثر قائم نہیں کرتے۔ لیکن جو نوجوان دل سے اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ انٹرویو لینے والے کی نظر میں کون سی باتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، انہیں اکثر نوکری مل جاتی ہے‘‘۔

بچوں کو یہ بات سمجھائیں کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ اہم یا ناگزیر سمجھتا ہے، حالانکہ وہ اہم نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔ اپنے بچے کے دل میں ایسی امیدیں نہ ڈالیں جو پوری نہیں ہو سکتیں۔ آپ کا بچہ تبھی کامیاب ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے لیے ایسے منصوبے بناتا ہے جنہیں پورا کرنے کے لیے وہ مطلوبہ محنت بھی کرتا ہے۔ اپنے بچے کے اچھے کاموں پر اس کی تعریف کریں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے عاجزی پسند بنیں تو بِلاوجہ ان کی تعریفیں مت کریں بلکہ جب وہ کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو ان کی تعریف کریں۔ اپنے بچے کو بتائیں کہ وہ کس حد تک سوشل میڈیا استعمال کر سکتا ہے۔ اکثر سوشل میڈیا پر لوگ اپنی بڑائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ دوسروں پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کتنے اچھے ہیں اور انہوں نے کتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے سے بچے عاجز بننے کی بجائے مغرور بن سکتے ہیں۔ اپنے بچے کو سمجھائیں کہ غلطی کرنے پر وہ جلد سے جلد معافی مانگے۔ اگر آپ کا بچہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اسے اس کی غلطی کا احساس دلائیں اور اسے سمجھائیں کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرے۔

اپنے بچے کو خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کے لیے شکرگزاری کرنا سکھائیں۔ اسے یہ سکھائیں کہ اسے خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کے لیے اس کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ کائنات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے زندہ رہنے کے لیے بڑی ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں سانس لینے کے لیے ہوا، پینے کے لیے پانی اور خوراک کے لیے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کی مثالوں سے اپنے بچے کے دل میں خالق کی بنائی ہوئی چیزوں کی اہمیت اور قدروقیمت اُجاگر کریں۔

بچے کی یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ ہر کوئی اس سے کسی نہ کسی معاملے میں بہتر ہے۔ لہٰذا وہ ان کی صلاحیتوں پر ان سے جلنے کی بجائے ان سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اپنے بچے کو دوسروں کا شکریہ ادا کرنا سکھائیں۔ اسے یہ سکھائیں کہ صرف مُنہ سے دوسروں کو شکریہ کہنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اسے دل سے بھی ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ دوسروں کے شکرگزار ہونے سے ہم خاکسار رہنے کے قابل ہوتے ہیں۔

صرف اپنے فائدے کا ہی نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا بھی سوچیں۔ اپنے بچے کو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کا کہیں۔ اگر آپ اپنے بچے سے یہ کہیں گے کہ اسے گھر کے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے تو ایک طرح سے آپ اس کے ذہن میں یہ بات ڈال رہے ہوں گے کہ، ’یہ کام تمہارے کرنے کے لائق نہیں ہیں‘۔ اپنے بچے کو سکھائیں کہ گھر کے کام کاج کرنا، کھیلنے کودنے سے زیادہ ضروری ہیں۔ اسے اس بات کی اہمیت سمجھائیں کہ اگر وہ گھر کے کام کرے گا تو اس سے دوسرے اس کے شکرگزار ہوں گے اور اس کی عزت کریں گے۔اپنے بچے کو احساس دِلائیں کہ دوسروں کی مدد کرنا کتنی اچھی بات ہوتی ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے والے بچے سمجھدار بنتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچے سے کہیں کہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں سوچے جن کی وہ مدد کر سکتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ اس بارے میں بات کریں کہ وہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہے۔ اور جب وہ دوسروں کی مدد کرتا ہے تو اسے شاباش دیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں۔