آہ !پروین راجہؔ۔۔۔ سورجوں کی شوخ کرنیں اوڑھ کے نکلی ہوں میں

سہیل سالمؔ

دبستان کشمیر میں اردو زبان و ادب کی زینت کو سنوارنے میں خالی مردوں نے خون جگر صرف نہیں کیا بلکہ خواتین نے بھی ادب کے میدان   میںاپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ خواتین نے بھی شعر وسخن کی دنیا میں قدم رکھ کر اپنی فکر کی روشنی سے آسمان شعر وادب کو منور کیا ہے۔ان میں ایک اہم نام محترمہ پروین راجہؔ کا ہے ۔جموں و کشمیرکے معاصر ادبی منظر نامے پر پروین راجہ ؔایک معتبرشاعرہ ہیں۔1956میں سرینگر کے مشہور علاقے بٹہ مالو  باراں پتھرمیں تولد ہوئیں ۔ آپ کے والد کا نام عبدالحد راجہ ہے۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول  بٹہ مالو سے حاصل کی  اور میٹر ک کا امتحان پاس کر نے  کے بعدگورنمنٹ زنانہ کالج  ایم ،اے روڑ  سے انٹر اور بی ۔اے کے امتحانات پاس کرکے سرکاری ملازمت محکمہ فائنائس  میں اختیار کی ۔ملازمت کے دوران ہی کشمیر یونیورسٹی سے اردو میں پرائیوٹ موڑ سے ایم اے کیا ۔2016 میں بحیثیت اسسٹنٹ اکائونٹس آفیسر سبکدوش ہوئی۔ اس کے بعد2017 میں حج کا فریضہ بھی ادا کیا۔جن دونوں مس میریم ؔ (اہلیہ حامدی کاشمیریؔ)زنانہ کالج میں اردو پڑھاتی تھیں ،پروین راجہؔ کا کلام سن کر وہ بہت متاثر ہوئی ۔ابتداء میں اپنا کلام مس مریم ؔکو د کھاتی تھیں ۔اس کے بعد ان کا کلام مسلسل کالج کے رسالے ’’پمپوش ‘‘ میں شائع ہونے لگا۔زبان کے نکات ،محاوہ اور شعری اسالیب پر مس مریمؔ کو جوعبور حاصل تھا،اس سے پروین راجہؔ نے پورا استفادہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انھیں فنی نکات پر جوقدرت حاصل ہوئی ہے وہ مس مریم ؔکے تلامذہ میں بہت کم ہی کو حاصل ہے۔پروین راجہؔ نے باقاعدہ شاعری کا آغاز28سال کی عمرمیں کیا جب ان کی پہلی آزاد نظم ماہنا مہ شاعر کے مارچ 1984کے شمارے میں شائع ہوئی ا۔اس کے بعد ان کی غزلیں اور نظمیںبرصغیرکے مختلف جرائد و اخبارات میں چھپنے لگیں جن میں شب خون،آجکل، توازن،کتاب نما،شمع اور شیرازہ قابل ذکر ہیں۔آپ دبستان کشمیر کی ایک معروف شاعرہ کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ پروین راجہ ؔ کی غزلیں اور نظمیں انسانی اور جذباتی رشتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ان کی اہم خصوصیت یہ ہے وہ معاشرے کے ناسور کو برہنہ کر کے عوام کے سامنے لاتی ہیں۔

پروین راجہ ؔکی شاعری میں عورت کی بے بسی،اس کا فہم ،اس کی سوچ و فکر اور سب سے بڑھ کر اس کا نرم لہجہ سب کو متا ثر کرتاہیں۔یہ تمام باتیں پروین راجہؔ کے یہاں ملتی ہیں۔پروین راجہؔ بدلتی ہوئی سماجی اقدار اور ایک ایسے سماج کی پیدا وار ہیں۔جس میں اُنہوں نے عورت کے دکھ درد،اس کی معصومیت ،اس کی ہمدردی اور اس کی خواہش سب کو محسوس کیا اور ان کوجلا  بخشنے میں اہم کرادار ادا کیا ہے۔ ان کی یہ بے باک آوازسماج سے ٹکرا کر سماجی نظام کو بدلنا چاہتی ہے،جس نے کافی عرصہ سے عورت پر حکومت کر کے اس پرظلم  وتشددکیے ہیں۔ان کو اپنی خواہشات کے قفس میں خالی قید ہی نہیںکیابلکہ ان کا جی بھر کے استحصال بھی کیا ہے۔اس سے پہلے عورت ایک پاک ندی تھی نیزمردوں کی پھیلائی ہوئی آلودگی میں سانس لے کر زندہ رہنا اس کا مقدر بن گیا تھا لیکن اس کے برعکس عورت کا  ایک  اور روپ ظاہر ہوا ،یہ اب اپنے بھولے پن سے باہرآگئی ہے۔اب یہ اپنے خوابوں کو رنگ بھر نا چاہتی ہے اسی لئے مردوں کی بنائی ہوئی خواب گاہ اور ان کے اصولوں سے بغاوت کربیٹھتی ہے۔اس موقع پر پروین راجہؔ کہتی ہیں:؎

کسے خبر تھی کہ وہ بات کس سفر کی تھی

ستار ہ داں نے ہتھیلی جو دیکھ کر کی تھی

میں اپنے خواب سمندر میں پھینک آئی مگر

یہ ساحلوں کے قریں چیخ کس لہر کی تھی

شفق شفق سے اُترتا رہا یقین کا لہو

بہت حسین نشانی یہ راہبر کی تھی

جدید شعراء نے عورتوں کی آزادی کو بھی موضوح سخن بنایاہے جس میں پروین راجہ ؔبھی پیش پیش ہیں ۔انھوں ؔ اپنی شاعری میں اس نظام کا نقشہ بھی کھینچ لیاہے جس نظام میں عورت کی ترقی ممکن نہیںہے۔ پروین ؔ راجہ کی فکر اس احساس کی طرف اشارہ کرتی  ہے کہ عورت تعلیم یاقتہ ہو کر اپنے لئے زندگی کے نئے راستے خود بنا کردنیا میں زندہ رہنے کے لئے فکر مند ہونی چاہیے کیونکہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعدعورت اپنے تمام حقوق اور زندگی کی راحتیں حاصل کرسکتی ہے۔۔ اپنی طاقت اور علم سے زندگی کے نفع اور نقصان کو اچھے سے سمجھ سکتی ہے  اور اس کا  مقابلہ بھی کر سکتی ہے ۔ایسے میں پروین راجہ بول اُٹھی ؎

اک سمندر ہے کہ میرے پیچھے پیچھے آگیا

خوابِ رفتہ سے کہر  پہلے کنارہ دیکھا

ایک لحے میں وہ نقدِ جان ودل لے کر گیا

نفع کی امید کیا، اب کیا خسارہ دیکھا

پروین راجہؔ کی غزلوں میںشہر آشوب کا ذکر بھی ہے اور زمانے کی بے بسی کا کرب بھی۔سیاست کی کھیلوں اور اس کی چال بازی کااظہار بھی ہے اور اس سے روبہ رو ہونے کا جذبہ بھی ،وہ ہر آن نئی فضا پر نظر رکھتی ہیں۔تبھی تو زہر آلودہ بد بو کو وہ قبل از وقت محسوس کرلیتی ہیں۔وہ رومانیت کے بہائو میں اور بہار کی مصنوعی خوبصورتی میں حقیقت اور واقعیت کا دامن نہیں چھوڑتی ہیں۔ان کی غزلیں رزم و بزم دونوں جہاں میں آباد نظر آتی  ہیں۔ نئی فضانے آس پاس کی رنگینی کو کس طر ح نگل لیا اور شہر کی خواب گاہوں کا کیا حال ہے۔ اس کو مدد نظر رکھتے ہوئے پروین راجہ لکھتی ہیں ؎

منظر دھواں دھواں ہے تو خوابوں کے گھر کہاں

اے شہرِ خوش جما ل ترے بام و در کہاں

مقتل سے آنے والی ہوائوں کے درمیان

سڑکوں پہ گھومتے ہوئے شانوں پہ سر کہاں

وادی کو پھونکنے ابھی نکلی ہیں آندھیاں

یا رب چھپائوں میں یہ متاعِ ہنر کہاں

پروین راجہ نےؔ اپنی نظموں میں عورت کی شجاعت ، اس کی قابلیت ،اس کی ہمت اور اس کی نئی سوچ کو اس طرح بیان کیا ہے جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ عورت اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے خود اپنی قابلیت سے اپنے کام کو انجام دے رہی ہے،جس کو پدری سماج مشکل ہی سے برداشت کرتا ہے ے۔تنہا عورت جب زندگی کے مشکل سفر سے گذر کر منزل مقصود حاصل کرتی ہے توپدری سماج میں عورت کی خود مختاری اورہمت پر سوالات قائم کر کے اسے دبانے کی کوشش ہوتی ہے۔لیکن آج کی نئی عورت ان تمام سوالات کو نظر انداز کر کے اپنے کام میں کامیابی کو ہی اپنی منزل سمجھتی ہے۔بقول پروین راجہؔ  ؎

پتہ نہیں کیوں میں چاہتی ہوں

جب دن کی دیوار گرے

شام میری ساری چیخیں سمیٹ کر

ماتم زدہ راتوں کو سونپیں

یا

جو نہی چلی

نئے سفر کی تلاش میں

میرا حریف

حدیں پھلانگتا ہوا

کمانوں کے رخ میری جانب کئے

یہا ں عورت میں اعتماد تیر کمانوں کا مقابلہ کرنے کے علاوہ آگے بڑھنے کے لئے اکساتا ہے۔پروین راجہ کو نسائی شعور واحساس کا مکمل فہم و ادراک ہے۔انتہائی شیریف النفس اور مکر فریب سے عاری ،ملنسار ،صوم و صلوۃ کی پابند، با حیا وبا کر دار شاعرہ  اور زندگی کی صعوبتیں برداشت کر کے سورج کی شوخ کرنیں اوڑھ کر آخر کا ر20 جون 2022کو اصلی سفر پر روانہ ہوئیں جس کی طرف انھوں نے خوداشارہ کیا ہے   ؎

سورجوں کی شوخ کرنیں اوڑھ کے نکلی ہوںمیں

کون سا لازم ہے اب اس کا اشارہ دیکھنا

 

���

رعناواری ،سرینگر ، کشمیر

موبائل نمبر؛8899037492