اِستطاعت کے باوجود ’حج‘نہ کرناگناہ ہے فکرو فہم

TOPSHOTS Muslim pilgrims perform the final walk (Tawaf al-Wadaa) around the Kaaba at the Grand Mosque in the Saudi holy city of Mecca on November 30, 2009. The annual Muslim hajj pilgrimage to Mecca wound up without the feared mass outbreak of swine flu, Saudi authorities said, reporting a total of five deaths and 73 proven cases. AFP PHOTO/MAHMUD HAMS (Photo credit should read MAHMUD HAMS/AFP/Getty Images)

مولانا نعمان نعیم

 

’’حج ‘‘اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے ،جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسا کہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے، اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس گھر کا حج کرنا ہے، یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے ،وہاں تک کی سبیل کی اور جو شخص منکر ہو،تو اللہ تعالیٰ تمام جہاں والوں سے غنی ہے۔(سورۂ آل عمران، آیت:۹۷)یہ آیت کریمہ حج کی فرضیت کے حوالے سے نصِ قطعی ہے۔

انسانی طبیعت یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست و رشتے داراور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے، تو اسے اپنے وطن اور بیوی و بچے اور رشتے دار و اقارب کو چھوڑ کر اور مال و دولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کے دیدار کا شوق بھی دلایا ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐسے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپؐنے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا ۔ پوچھا گیا، پھر کونسا عمل؟ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا،پھر کونسا عمل ؟ ارشاد فرمایا’’حج مبرور‘‘۔(بخاری شریف)حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: حج یعنی فرض حج کی ادائیگی میں جلدی کرو، کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے۔ (مسنداحمد)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐنےخطبہ ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے پس تم حج کرو ۔ ایک آدمی نے کہا: کیا ہر سال اے اللہ کے رسولؐ ؟آپ ؐخاموش ہو گئے، حتیٰ کہ اس نے یہ کلمہ تین بار کہا تو رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا :اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے‘‘۔(مسلم کتاب الحج،باب فرض الحج مرۃ فی العمر) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صاحب استطاعت پر عمر میں ایک بار حج فرض ہے۔ جس آدمی کے پاس سامان سفر اور سواری کا انتظام موجود ہو اس پر حج فرض ہے اور جو آدمی طاقت کے باوجود حج نہ کرے، وہ ایک فرض کا تارک ہے۔ حضرت علی ؐ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اسے پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘‘(جامع ترمذی)حج کی فرضیت کا حکم راجح قول کے مطابق ۹ھ میں آیا اور اگلے سال ۱۰ ھ میں وصال سے صرف تین ماہ پہلے رسول اللہؐ نے صحابۂ کرامؓ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو ’’حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپؐپر یہ آیت نازل ہوئی ’’الیوم اکملتُ لکُم دینکُم واتممتُ علیکُم نعمتی‘‘۔(سورۃ المائدہ)اس آیت میں تکمیل دین کے ساتھ ساتھ ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے۔ اگر بندے کو مخلصانہ حج نصیب ہو جائے جسے دین و شریعت کی زبان میں ’’حج مبرور‘‘ کہتے ہیں تو گویا اس شخص کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گیا،لیکن جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے، اس کے لیے آغاز میں مذکور ارشاد نبویؐ میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔

حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بجائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی، البتہ مشرکین عرب حج کیا کرتے تھے، لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے، اس لیے ترک نماز کو مشرکین کا عمل بتایا گیا۔ ارشاد نبویؐ میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے لیے یہ فرمایا گیا ان کے لیے یہودی و نصرانی ہو کر مرنا گویا برابر ہے۔ (معاذ اللہ) اس کے بعد حدیث میں سورۂ آل عمران کی اس آیت کا حوالہ دیا گیا جس میں حج کی فرضیت کا بیان ہے ’’للّٰہ علیٰ الناس حجّ البیت من استطاع الیہ سبیلا‘‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے صرف حوالے کے طور پر آیت کا ابتدائی حصہ پڑھنے پر اکتفاء کیا، حدیث میں مذکور وعید آیت کے جس حصے سے نکلتی ہے ،وہ اس کے آگے والا حصہ ہے یعنی ’’ومن کفر فانّ اللہ غنی عن العالمین‘‘ (جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کے بعد جو کوئی کافرانہ رویہ اختیار کرے ،یعنی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے، تو اللہ کو کوئی پروا نہیں ،وہ ساری دنیا اور ساری کائنات سے بے نیازہے)

اس میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے رویے کو ’’من کفر‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ’’ان اللہ غنی عن العالمین‘‘ کی وعیدسنائی گئی ہے، اس کا مطلب یہی ہو اکہ ایسے ناشکرے اور نافرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں، اللہ کو ان کی کوئی پروا نہیں۔(معارف الحدیث جلد چہارم صفحہ ۱۹۳)

جو شخص اخلاص کے ساتھ حج یا عمرہ کرتا ہے، وہ گویا اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ گناہوں کے گندے اثرات سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوتا ہے کہ فقر و محتاجی اور پریشان حالی سے اسے نجات مل جاتی ہے، خوش حالی اور اطمینان قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے ۔’’حج مبرور‘‘ کے صلے میں جنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے۔