اولڈ ایج ہوم کہانی

غازی عرفان خان

عبد الرحمٰن کام سے تھکا ماندہ بھوک سے نڈھال اور بھاری قدموں سے گھر میں داخل ہوا۔

سلام کلام کے بعد اپنی بیگم سے کہاکہ

پانی کا ایک گلاس تھما دو ۔پانی پینے کے بعد عبدالرحمن اپنے اکلوتے بیٹے، جس کی عمر ابھی چار سال کی تھی، کے ساتھ کھیلنے لگا۔ جونہی اس نے اپنے بیٹے کے ماتھے پر بوسہ دیا تو اس کی ساری تھکان غائب ہو گئی اور وہ اپنے بچے کے ساتھ یوں کھیل رہا تھا جیسے وہ بھی ایک بچہ ہی ہو ۔

وقت گزرتا گیا اس نے اپنے بیٹے احمد کا داخلہ نزدیکی پرائیویٹ اسکول میں کرایا۔ اگرچہ اسکول کی فیس ان کی مالی حالت سے کہیں زیادہ تھی لیکن پھر بھی وہ اسکول کے اخراجات برداشت کرنے پر راضی ہوگیا۔

احمد اسکول جانے لگا۔ کبھی اپنے والد صاحب کی کندھوں پر اسکول جاتا اور کبھی امی اپنی انگلی پکڑا کراسکول لے جایاکرتی تھی۔ان دونوں میاں بیوی کی زندگی اس ننھی سی جان میں بسی تھی۔

اپنے بیٹے کی ہر کوئی فرمائش اور ضد پوری کرتےتھے۔

احمد جب اسکول سے واپس آتا تو اس کے ابو اسے اپنی پیٹھ پر بٹھا کر پورے کمرے کا چکر لگایا کرتے تھے۔

احمد کی صحت جب بھی ناساز ہوتی تھی تو اس کے والدین رات بھر اس کے سرہانے بیٹھے ہوئے ہوتے تھے یہاں تک کہ احمد جب جوانی کی عمر تک پہنچا تو اس وقت بھی یہ دونوں اُسے اپنے سے الگ ہونے نہیں دیتے تھے۔

وقت گذرتا گیا۔۔۔عبدالرحمان اور اس کی اہلیہ حلیمہ بیگم بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ چکے تھے۔۔سوچا کہ اب ہمیں احمد کی شادی کروانی ہوگی۔ کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ لیں بیگم نے اپنے خاوند سے کہا۔۔۔ جی بالکل حلیمہ ہم بھی بوڑھے ہو گئے اب احمد کی شادی کرنی ہے تاکہ ہمیں ایک بیٹی مل جائے جواس گھر کو سنبھال سکے۔

آخر کار انہوں نے احمد کی شادی کردی اور چین کی سانس لی۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور

کچھ دن بعد حلیمہ بیگم کی حالت خراب ہونے لگی وہ بیمار کیا ہوئیں کہ دو دن بعد ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

عبدالرحمن امید لگائے بیٹھا تھاکہ میرا بیٹا اور بہو میرا خیال رکھیں گے۔ پہلے پہل تو یہ دونوں ان سے بہت اچھی طرح پیش آتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ ان دونوں پر بوجھ بننے لگا کیونکہ عمر کا تقاضا تھا وہ اکثر بیمار ہی رہا کرتا تھا۔

بیٹا احمد بیٹا ذرا میری بات تو سنو، پتہ نہیں کہاں گیا۔ بیٹی ناظمہ کہاں ہو ذرا پانی کا ایک گلاس۔۔۔کھانستے کھانستے وہ بہو کو پانی مانگ رہا تھا۔ ناظمہ نے غصے میں  سسر کو پانی کا گلاس تھما دیا اور یہ کہہ کر کمرے میں چلی گئی وہ بڑھیا  خدا کو پیاری ہو گئی اور تمہیں میری مصیبت کے لئے یہاں چھوڑ گئی۔

احمد بھی یہ باتیں سن رہا تھا لیکن وہ بیوی کا غلام خاموش رہا۔۔۔

اگلی صبح احمد کی بیوی اسے کہنے لگی۔۔۔ احمد میری بات سنو یا تو میں اس گھر میں رہوں گی یا آپ کا باپ ۔

ارے ناظمہ۔۔ کیا ہوا آپ کو ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو، احمد نے کہا ۔۔۔ہاں تو پھر کیا کہوں ایک تو میں دن بھر کام کرتی رہتی ہوں… مزید اس بوڑھے کی پریشانی۔ اب بس چارپائی پہ لیٹا رہتا ہے کیا کروں میں اس کا۔۔۔اس بندے کو اولڈایج ہوم میں ڈال دو۔۔۔۔پریشانی ختم ہو جائے گی۔

اگلی صبح علاج ومعالجہ کا بہانہ بناکر احمد نے والدصاحب کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور کچھ دیر کے بعد  گاڑی اولڈ ایج ہوم کے گیٹ پر رکی اور اپنے والد کو گاڑی سے اُتار کر اندر لےجانے لگا۔۔۔۔

احمد بیٹا یہ تو ہسپتال نہیں ہے تم نے مجھے کہاں لایا ۔۔۔؟؟؟

یہی آپ کا ہسپتال ہے آج  سے ۔۔۔آپ یہیں رہوگے احمد نے کہا۔

بیٹا کیا میں آپ لوگوں پر بوجھ بن گیا ہوں جو مجھے یہاں چھوڑ رہے ہو ۔۔۔۔کیا یہی صلہ دیا تم نے۔۔۔۔۔۔ تمہارے لئے ہم نے کیا کیا نہیں کیا ؟۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں ڈاکٹر بنایا۔۔۔۔ اعلی تعلیم دی اور تم  نے یہ صلہ دیا۔۔۔۔عبدالرحمان کی آنکھوں سے آنسوں کی لڑی جاری تھی لیکن احمد پر اس چیزکاکوئی اثر نہ پڑا اور اپنے والد سے کہنے لگا۔۔۔ مجھے پڑھا لکھا کر کوئی احسان نہیں کیا یہ آپ کا فرض تھا ۔

بیٹا غلطی تمہاری نہیں میری ہے میں نے تمہیں اعلی تعلیم دی اور ڈاکٹر بنایا لیکن دین کی تعلیم سے محروم رکھا۔۔۔۔۔۔ بیٹا میں نہیں چاہتا کہ مستقبل میں تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کرے گی۔۔میرا مشورہ ہے کہ ان کو دین کی تعلیم دینا اور اچھی تربیت کرنا ۔۔۔۔یہ کہہ کر عبدالرحمن تھکے ہارے مسافر کی طرح  اولڈ ایج ہوم میں داخل ہوا۔

���

منیگام گاندربل

موبائل نمبر؛7006928384