انمول کھجور اور مذہبی روا داری! میری بات

ڈاکٹرعبدالوحید بٹ
ہرسال رمضان کے مقدس مہینے کی آمد سے چند دن پہلے یا کچھ دن بعد، ہمیں اپنے ایک دوست کی طرف سے اعلیٰ معیار کی کھجوروں کا ایک پیکٹ ملتا ہے۔ یہ ہمارا ایک خاص دوست ہے جس کا تعلق دوسری مذہبی برادری سے ہے ۔ یہ کام وہ کئی سالوں سے مسلسل کر رہا ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کھجور لانے میں کوئی تاخیر نہ ہو۔ یہ کھجور رنگ اور سائز دونوں لحاظ سے بہترین معیار کے ہوتے ہیں۔ مزید جس احترام اور محبت سے وہ انہیں لاتا ہے، اس سے ان کی شان میں اوراضافہ ہوتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت نکال کر ذاتی طور پر اپنے ہاتھوں سے ہماری گھر کھجوریں لاتا ہے ۔ وہ انہیں کسی دوسرے شخص کے ذریعے یا آج آسانی سے دستیاب دوسری خدمت کے ذریعے سے بھی بھیج سکتا ہے۔ لیکن وہ خود آتے ہیں، ہمیں رمضان کے متبرک ایام کی مبارک دیتے ہیں اور ہمارے ساتھ طویل اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔ وہ عصری مسائل چھیڑتا ہے اور اپنی آراء کھل کر پیش کرتا ہے۔ ہم سے دل کی گہرائیوں سے درخواست کرتا ہے کہ اس خاص مہینے میں انہیں، ان کے اقرباء اور تمام انسانیت کو اپنی خصوصی دعاؤں میں شامل رکھیے گا ۔ وہ جو کھجوریں لاتا ہے وہ طبعی اعتبار سے مفید اورغذائی لحاظ سے توانائی سے بھری ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ جس گرم جوشی، احترام اور خلوص سے پیش کئے جاتے ہیں ،اس سے الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ بے شک ہمارے لیے کھجوروں کا یہ پیکٹ انمول ہے۔ کرنسی نوٹوں، روپے، پاؤنڈ یا ڈالر سے ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحفہ بہرصورت ان دھاتوں اور مادی اشیاء سے بالاتر ہے جن پر عام لوگ روزمرہ کی زندگی میں فریفتہ ہوتے ہیں۔
یہ چند سطور اس مخلص شخص کے اس شاندار عمل کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے لکھی جارہی ہے۔ دوسرے مذاہب کے تئیں ان کی احترام کو خراج پیش کرنے کی یہ ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ ایسے اقدام سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی صحت مند روایت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو انسانی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ ان ہم خیال لوگوں کے لیے بھی خراج تحسین ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے باعزت بقائے باہمی کے لیے ایسی روایات کو فروغ دینے میں فکرمند رہتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو برادریوں کے مابین ہم آہنگی کوایسی ہی مثبت عملی کاوشوں سے تقویت ملتی ہے نہ کہ لمبی اور خشک تقریروں سے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اولیاء اور سنتوں کی اس خوبصورت وادی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی سماجی زندگی کی پہچان ہے۔ اس کی تصدیق کھنہ بل سے لے کھادن یار تک آئے دن دیکھے جانے والے بہت سے واقعات سے ثابت ہوتی ہے ۔ تہواروں کے موقعوں اور مذہبی تقاریب پر دیگر برادریوں کو مبارکباد دینا روحانیت سے مالامال اس وادی میں رہنے والے لوگوں کے لیے ایک معمول کا عمل ہے۔ بقائے باہمی کے اس گراں قدر اثاثے کی ایک خوبی یہ ہے کہ تمام برادریاں انسانی یکجہتی پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ ایک خوبصورت قبیلے کے مانند ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زندگی بسر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک اور شامل ہوتے ہیں ۔ ایسے مواقع بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں ایک مذہبی برادری کو کوئی فرد سحرخاں بن کر رات کے اندھیرے میں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو سحری کے لیے جگانے کا کام کرتا ہے اور بدلے میں دوسرے لوگ کسی کے موت پر آخری رسومات میں شرکت کرتے ہیں۔ اس طرح فرقہ وارانہ اخوت اور بین المذاہب احترام کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں ۔
بظاہر یہ طرز عمل اور ایسے اقدام زیادہ موثر معلوم نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت اثر رکھتے ہیں، وہ زبردست تحریک فراہم کرتے ہیں، ایسے خیر سگالی کے رشتے مضبوط سماجی بنیادوں کے لیے ضروری ہیں۔ یہ عام و خاص کو متاثر کرتے ہیں، انہیں ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں اور تخریب پسند قوتوں کا قلع قمع کرنے کی قوت فراہم کرتا ہے ۔ معاشرے میں ہم آہنگی کے لیے ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے اور اس کا درس لل دید اور نند رشی نے اپنی تعلیمات میں دیا ہے۔ ان کی زندگی کے اسباق اس اصول کے گرد گھومتے ہیں کہ تمام انسانیت ایک خاندان کی طرح ہے، مختلف ثقافتیں اس کے خوبصورت اجزاء ہیں۔ محض رنگ، عقیدہ یا پیدائش کی وجہ سے خصوصیت کا دعویٰ جتانا درست نہیں ہے۔ تقویٰ اور پاکیزگی اہم ہے۔ بھائی چارے کی اس شاندار وراثت کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنا اور اسے فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
(مصنف جی ڈی سی خان صاحب بڈگام میں تاریخ پڑھاتے ہیں)