المناک جہلم سانحہ :ذمہ دار کون ؟ وہ معصوم نہ سکول پہنچے اور نہ گھر واپس لوٹے

اِکز اقبال
  منگل کی صبح ایک دل دہلا دینے والا حادثہ پیش آیا، ایک ایسا حادثہ جس نے ساری وادی میں سنسنی پھیلا دی، ہر طرف قیامت صغریٰ کا سماں تھا ۔ اس حادثے میں تا دمِ تحریر 06 لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے ۔ جن میں ایک ہی گھر کے دو معصوم بچے اسکولی بچےلال مدثر فیاض اور تنویر فیاض کے ساتھ انکی والدہ فردوسہ بھی شامل ہیں۔ اور 03 افراد کی تلاش تادم تحریر جاری تھی۔ یہ معصوم صبح سویرے اپنی خوشی میں مگن اسکول جانے کی خوشی میں تھے، مگر ان معصوموں کو کیا پتہ تھا کہ یہ نہ تو کبھی اسکول پہنچ پائیں گے اور نہ ہی کبھی گھر واپس آ پائیں گے اور پھر والدین کے لیے زندگی کا سب سے بھاری دِن وہ ہوتا ہے کہ بچے اسکول جائیں اور واپس گھر نہ آئے ۔
ان معصوموں کی زندگیوں کے ضیاع کاذمہ دار آخر ہے کون ؟
مقامی باشندوں کا الزام ہے کہ وہ پچھلے دس سالوں سے متعلقہ حکام سے ایک پل کا مطالبہ کرتے آئے ہیں ۔ مگر اُنکی کبھی نہیں سنی گئی۔ اگر آج گند تھل بٹوارا میں یہ پُل تیار ہوکے بحال ہوا ہوتا تو شاید ایسا حادثہ پیش ہی نہ آتا اور شاید ہم ان معصوموں کو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جانے سے بچا پاتے۔ کاش اربابِ اقتدار پر قابض لوگ اپنی ذمہ داریوں کو ایمان داری سے نبھاتے اور جو بھی کام اُن کے ذمہ ہوتا ہے، وقت پر سر انجام دیتے ۔ پھر ایسے حادثے شاید نہ ہوتے اور زندگی کی خوش حالیوں پر یوں اچانک ماتم نا بچھ جاتا۔
واللہ میری آنکھیں اشک بار ہیں ، میں تذبذب میں ہوں کہ ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں ؟ وہ معصوم آدھ کھلے گلاب تو اللہ میاں کو پیارے ہوئے۔ مگر کل قیامت کے دن اگر وہ ہمارے دامن کو پکڑ کر پوچھیں کہ بتاؤ اس سب کا ذمہ دار کون تھاتو ہمارے پاس کیا واقعی ان سوالوں کا جواب ہے؟
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ جو سانحہ آج پیش آیا ہے، آئندہ ایسے واقعات پھر سے نہ ہونے چاہئیں تو ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے اربابِ اقتدار اور حکام کا اولین فریضہ ہے کہ اپنے کاموں کو ایمان داری سے وقت پر انجام دے،تاکہ عوام کو مشکلات کا سامنانہ کرنا پڑے اور بٹوارہ سرینگر جیسا درد ناک سانحہ پھر سے رونماں نہ ہوپائے ۔ حکام کے لیے عوام کی سلامتی ‘ حفاظت اور خوش حالی ،اولین ترجیح ہونی چاہیے اور اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا جائے کہ عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے صرف کھوکھلے نہ ہوں بلکہ وقت پر پائے تکمیل تک پہنچائے جائیں۔
دوسری اہم بات یہ کہ اعلیٰ حکام عوام الناس کی سلامتی اور امن کے لیے ایسے قوانین اور پروٹوکول سختی سے نافذ کریں، جن سے لوگوں کے مال و جان کوکُلی طور حفاظت کی ضمانت مل جائے۔ جیسے اس ناو کے سانحہ کے حوالے سے کشتی مالک کو قوائد و ضوابط کی پاسداری کے لیے اس بات کے لیےذمہ دار ٹھہرایا جائے کہ وہ کتنے لوگوں اور کتنے سامان کو ایک بار میں پار کرا سکتے ہیں ۔ کشتی مالکان کو وقت وقت پر تربیت دی جائے اور مشق کرائی جائے ۔ تاکہ آئندہ ایسے واقعات پھر سے رونما نہ ہونے پائیں ۔
تیسری اہم بات عوام الناس سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے جان و مال کی حفاظت کے خود ہی ذمہ دار رہیں اور وقت وقت پر اربابِ اقتدار تک اپنی شکایت درج کرائیں اور ضروریات کے سارے کام وقت پر اور احسن طریقے سے کروائیں جائیں۔ یہ بات سچ ہے کہ کافی حد تک لوگ اپنی حالت کے خود ہی ذمہ دار ہوتے ہیںتو عوام کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حق کے لیے ہمیشہ کھڑے ہوں اور آواز اٹھائے، تاکہ آج جس طرح ہم نے ان معصوموں کو کھو دیا ہے۔ آیندہ ایسی صورت حال پیش نہ آجائے۔
کل کا یہ قیامت خیز سانحہ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی اُنکی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں تاکہ ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آئے ۔
یا اللہ! پھر کبھی ایسا دِن نا آئے
‏تُو سمجھ جائے گا پھر اپنے سوالوں کی چبھن
تُو کسی روز کٹہرے میں کھڑا ہو تو سہی!
تُو جو ہنستا ہے میرے اعصاب کی کمزوری پر
 تُو کسی خاص کو کچھ دن کے لیے کھُو تو سہی
آخری بات:۔ہمارے قوم کی یہ ستم ظریفی اور بد قسمتی ہے کہ اِن آزمائشی اوقات میں ‘ جب کہ پوری وادی غم اور قرب میں ڈوبی ہوئی ہے ،کچھ خود ساختہ ،غیر پیشہ ورانہ اور غیر ذمہ دار لوگ اپنے ہاتھوں میں مائیک اور کیمرہ لیے خود کو ‘ صحافی ‘ کہلانے والے ،ان معصوموں کے سوگواروں کی پرائیویسی پر حملہ اور دخل اندازی کی شرم ناک حد پار کر چکےہیں۔ یہ سب وہ صرف لوگوں سے واہ واہی بٹورنے کے لیے ‘ چند لائکس اور ویوز کے لیے کر رہے ہیں ۔ ان سوگواروں کے عزت نفس اور پردہ داری کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے۔ یہ صحافت نہیں بلکہ کثافت ہے، غلاظت ہے۔ یہ خود ساختہ صحافی کسی بھی جگہ اپنا مائک اور کیمرہ لیے ،بنا اجازت کے پہنچ جاتےہیں، کسی کے بھی گھر میں گھس کر انکی حالت جانے بغیر انہیں کیمرہ کے سامنے لاکر ایسے سوال کر رہے ہوتے ہیں، جوکہ پولیس بھی نہیں کرتی ہے ۔ صحافت کے اصولوں سے بےخبر یہ لوگ کسی بھی شخص کو پکڑ کر اس کی ذات کی دھجیاں بکھیرنے کے قائل ہیں اور اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتے ہیں۔ان لوگوں کو صحافی نہیں بلکہ ذہنی بیمار ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ خود ساختہ صحافی، پیشہ ورانہ تربیت سے نا آشنا اور ان میں حساسیت، ہمدردی اور پیشہ ورانہ تربیت اور تعلیم کا فقدان پایا جاتا ہے اور سوگواروں پر کسی المناک واقعے کے اثرات کو نہ سمجھنا تشویشناک عوامل ہیں۔ان میں سے زیادہ تر مائیک رکھنے والے سوشل میڈیا کے مسخرے کسی بھی زبان میں ایک بھی مربوط، گرامر کے لحاظ سے درست اور موثر جملہ نہیں بنا سکتے اور پھر بھی ان میں سوگواروں کے غم کو مناتے ہوئے ’’پیپلی لائیو‘‘ کی طرح کسی کے بھی سامنے جانے کی جرأت رکھتے ہیں،یہ بہت ہی المناک ہے۔
( مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا میں ایڈمنسٹریٹر ہے۔)
رابطہ  7006857283