اسکول کے اوقات اور ہوم ورک غور طلب

عزیز الرحمن محمد فاروق
گزشتہ دنوں شندے سرکار کے وزیر تعلیم دیپک کیسرکر کی کابینی میٹنگ میں اس تجویز کا اظہار کیا گیا کہ طلبہ کو اسکولوں میں دیا جانے والا ہوم ورک کا سلسلہ اب بند کیا جائے گا۔اس فیصلے کے علاو ایک دوسری تجویز کچھ اس طرح کی تھی کہ جماعت اول تا چہارم کے طلباء کا اسکول کا وقت اب صبح میں نہیں رہےگا۔دوسری تجویز کا ہم استقبال کرتے ہیں۔اور اس فیصلے کا ہم احترام کرتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو صبح کے اوقات میں نیند سے بیدار ہونے میں کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتاہے۔سرپرست اور والدین کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بچوں کو نیند سے بیدار کرنے پر ان کی طبیعت میں چڑ چڑا پن دکھائی دینے لگتا ہے علاوازیں اسکولوں میں طلبہ کی حاضری بھی متاثر ہوتی ہے۔ماہرین نفسیات بھی اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو بھر پور نیند انکی ذہنی صحت کے لئے ازحد ضروری ہے۔
اس کے بر خلاف دوسری تجویز والدین کے لئے اس وقت تشویش کا باعث بن گئی جب ریاست کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ حکومت طلباء کے اندر مخفی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اسکولی طلباء کو ہوم ورک سے راحت دلانے کے بارے میں غور و خوض کر رہی ہے۔ مستقبل قریب میں حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔وزیر اعلی کے مطابق انکی حکومت طلباء کے اندر کھیل کود کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لئے مسلسل کوشاں ہے نیز بچوں کو ذہنی تناؤ سے پاک کرنے کے لئے منصوبہ بندی جاری ہے۔ بچوں کی صحت کو لیکر حکومت فکر مند ہے۔ اس لیے ہماری کابینہ نے فیصلہ لیا ہے کہ طلباء کو ہوم ورک کے تناؤ سے چھٹکارا دیا جائے گا۔ سرپرست اور والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اس تجویز پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔ موسم سرما اور گرمی کی تعطیلات میں طلبہ کو ہوم ورک دیا جاتا ہےجس سے طلبہ فضول وقت کی بربادی سے بچے رہتے ہیں۔اور اپنے قیمتی اوقات کو بروئے کار لاتے ہیں ۔اس کے علاوہ سال بھر جماعتوں میں اسباق کو مکمل کرنے کے بعد مشقی سوالات ہوم ورک کے طور پر طلباء کو دیئے جاتے ہیں۔مشقی سوالات میں مختلف زاویوں سے مواد کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہوم ورک کے بہانے ہی سہی طلبہ گھروں پر دوبارا پڑھنے لکھنے کی غرض سے بیٹھ جاتے ہیں۔اور ایک خاص بات کہ جماعتوں میں سبھی طلبہ کی ذہنی استعداد ایک جیسی نہیں رہتی۔کچھ طلبہ ذہین تو کچھ کم، یا تاخیر سے سمجھنے والے ہوتے ہیں۔ ہوم ورک سے طلبہ میں تعلیم کے تعلق سے دلچسپی بڑھتی ہے۔طلبہ میں مقابلے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔لیکن اس سلسلے میں اساتذہ کو چاہیے کہ وہ حد سے تجاوز نا کریں جو طلبہ کے لئے وبال جان بن جائے اور انکی ذہنی صحت متاثر ہو۔جہاں تک مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی بات ہے اس کے لئے وسائل تعلیم اور عملی تعلیم پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے نا کہ ہوم ورک سے ہی چھٹکارا دلا دیا جائے۔اسکولوں میں نصاب عملی تعلیم پر مشتمل ہو نا کہ تھیوری اور بے بنیاد فلسفوں پر۔ گزشتہ دوسالوں سے لاک ڈاؤن کے سبب طلبہ کا جس قدر تعلیمی نقصان ہوا ہے اس سے سبھی بخوبی واقف ہیں۔طلبہ کی لکھنے کی عادت چھوٹ چکی تھی۔طلبہ کو لکھنے کی مشق کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔جماعتوں میں دیا جانے والا ہوم ورک ہونے والے نقصان کی تلافی کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔مگر اس پر بھی حکومت اپنی نظر کرم ڈال رہی ہے۔اس سلسلے میں ماہرین تعلیم کو اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]>
��������������