احتیاط لازم ہے انشائیہ

 ایس معشوق احمد

صاحبو! بے صبر دلہے کو صبر کی تلقین کرنا اور نئے نئے لکھاری کی تحریر میں خامیوں کی نشاندہی کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے کہ دونوں کا حوصلہ آسمان پر ہوتا ہے۔میری زبان نہیں رکتی یہی سبب ہے کہ میں نیک مشورے مفت بانٹتا ہوں۔میں نے ایک نئے لکھاری کو مفت کا مشورہ دیا کہ صاحب املا درست ، جملہ چست ، خیال بلند ، اسلوب رواں ہو تو تحریر کا شمار ادب عالیہ میں ہوگا ورنہ آج کل لکھنے والے زیادہ اور پڑھنے والے قلیل ہیں ان کو بھی اگر سطحی تحریر پڑھنے کو ملے گی تو ان کا ذوق مطالعہ فوت ہوجائے گا۔یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس سے اردو ادب کی سمت و رفتار میں فرق آجائے گا۔اتنی سی بات پر صاحب ہمارے دشمن ہوئے اور بدلے میں ہماری تخلیقات کو پڑھنا تک ترک کر دیا۔مفت کا مشورہ دے کر ہم نے اپنے قلیل قارئین میں ایک اور کم کیا جس کا ہمیں بڑا غم ہوا۔ صاحبو ہم اپنی بے عزتی برداشت تو کر لیتے ہیں کہ بقول مرزا جس کی عزت نہیں ہوتی اس کی بےعزتی بھی نہیں ہوتی لیکن ہماری تخلیق کی شان میں کوئی گستاخی کرے یہ ہمیں برداشت نہیں۔ ہم نے بارہا نئے لکھاریوں کو مشورے اور پرانے ادیبوں کو تجاویز پیش کیں ۔ان مشوروں اور تجاویز سے ان کا فائدہ ہوا یا نہیں ہمیں نہیں خبر لیکن یہ گارنٹی ضرور دے سکتے ہیں اپنا نقصان ضرور کربیٹھے کہ ہم پردہ نشیں تو تھے ہی انہوں نے ہمیں گوشہ نشیں ہونے پر مجبور کردیا۔ سو ہمارا مشورہ ہے کہ زبان پر تالا چڑھانے میں ہی بھلائی ہے بقول مرزا ؎
کسی کو مشورہ دینا بڑی احتیاط کا کام ہے
اے غمِ دل احتیاط، اے وحشتِ دل احتیاط
صاحبو! آج کے دور میں نئے قلمکار کی اغلاط اور نامور ادیب کی لغزشوں کو نظرانداز کرنا ضروری ہے۔ جو ایسا نہ کرے بقول مرزا وہ اپنے دشمن کے ہاتھ میں تیزدار تلوار دے کر اپنی گردن آگے کرتا ہے۔ ادھر چند سال سے اداروں اور ادبی تنظیموں نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے کہ جو جتنا برا لکھے گا اس کی اتنی پذیرائی ہوگی تاکہ آنے والی نسل ہماری زبان و بیان کی اغلاط پر ہی ملامت نہ کرے بلکہ خیالات کو دیکھ کر یہ دعا دے کہ اس لکھاری کو جہنم میں بھی جگہ نہ ملے جس نے دوسروں کے خیالات کو غلط زبان میں ہم تک پہنچایا۔مرزا کہتے ہیں کہ سنئیر ادیبوں اور تنظیموں نے ہمیشہ تین افراد کی پذیرائی کی ہے۔ایک حسینوں کی تاکہ آگے اسٹیچ پر ان کو بیٹھا کر ان کے حسن کی تعریف کرسکیں، چاہیے ان کے خیالات اور زبان ان کے چال چلن سے بھی خراب کیوں نہ ہو۔ دوسرا خوشامدیوں کی جو ان کی نالائقی، لغزشوں اور بددیانتوں کو ادبی خدمات سے تعبیر کرتے ہیں اور انہیں ہر ادبی محفل کی شان اور مشاعروں کی جان سمجھتے ہیں۔تیسرا بے باک قلمکاروں کی تاکہ وہ ان کے خلاف کچھ لکھ نہ سکیں۔مرزا جب یہ باتیں دہرا رہے تھے تو چہرے پر خوف طاری تھا سو ان کے خوف سے ہم بھی خوف زدہ ہو کر مزید لکھنے سے احتیاط کرتے ہیں کہ احتیاط لازم ہے۔
صاحبو دانا کہتے ہیں کہ ہاتھ ،زبان ، قلم ، نگاہ اور جذبات قابو میں رکھنے چاہیے ورنہ یہ بے قابو گھوڑے کی طرح اپنے اور دوسروں کے لئے نقصان کا سامان پیدا کرسکتے ہیں۔ہاتھ قابو میں نہ رہے تو انسان کھاتا رہتا ہے جس کے دو نقصانات ہیں ایک پیٹ بڑا ہوتا ہے اور دوسرا جس جگہ لگاتار مار پڑے جسم کا وہ حصہ نیلا پڑجاتا ہے۔زبان کے معاملے میں احتیاط نہ برتی جائے تو تیسری بڑی جنگ ہونے کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا کہ زبان بم سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ قلم قابو میں نہ رہے تو نامور ادیب تک جانی دشمن بن سکتے ہیں اس لئے سیانے قلم فقط دستخط کرنے اور چند تعریفی کلمات لکھنے کے لئے اٹھاتے ہیں۔نگاہ قابو میں رہے تو بدنظری کے گناہ سے انسان بچ جاتا ہے ۔بقول مرزا نگاہ کو قابو میں رکھنا ضروری ہے ورنہ؎
جس پر نگاہ پڑی اس سے عشق ہوا
اس مہنگائی کے دور میں بندہ عشق کرہی نہیں سکتا کہ محبوب کی مہنگی مہنگی فرمائشیں بندے کی کمر توڑ دیتی ہیں۔ جذبات قابو میں رکھنا لازم ہے ورنہ انسان بے ادبی کی حد کو چھو کر خراب لکھنے والوں کو مشورے دیتا رہے گا اور احتیاط کی منزل سے دور رہے گا۔ سو بقول شاعر ؎
بے ادب ہیں کر نہیں پاتے جو غافل احتیاط
صاحبو! ہم اس بزرگ کی طرح ہر ایک کو نیک مشورہ ہی دیتے ہیں جو ایک گلی کی نکڑ پر بیٹھا تھا۔جب کوئی گلی کی طرف جانے کی کوشش کرتا تو بزرگ اسے روک کر نصیحت کرتا کہ بیٹا اس گلی سے نہ گزر کہ اس گلی میں ایک پاگل کتا ہے جو اس راہ چلنے والوں کو کاٹ کھاتا ہے۔بیشتر لوگ اس بزرگ کی نصیحت پر عمل کرتے اور گلی سے گزرنے سے پرہیز کرتے۔بزرگ کے مشورے سے وہ بحفاظت منزل مقصود کو پہنچ جاتے۔ عرصہ ہوا ایک خود سر نوجوان بھی ادھر کو آنکلا۔بزرگ نے احتیاط کرنے کے دو بول اس سے بھی کئے۔اس نے بزرگ کی بات نہ مانی اور اس گلی سے گزر گیا۔اس کی قسمت اچھی تھی کہ کتا اس گلی میں موجود نہ تھا اور اس بے وقوف کو بزرگ کی بات جھوٹی لگی۔اگلے روز وہ بزرگ کا گریبان پکڑنے آن پہنچا کہ کتے نے اسے گزند کیوں نہ پہنچائی حالانکہ اسں نادان کو اپنی سلامتی پر شکر کرنا چاہیے تھا۔خود سر کا سر نیچا ہوتا ہے۔اس نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور بزرگ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اس گلی سے گزرنے کی ضد کرنے لگا۔بزرگ نے اسے سمجھایا لیکن اس نے ایک نہ سنی اور گلی سے گزرنے لگا۔کتے کا حملہ اس پر اتنا شدید ہوا کہ وہ نیم مردہ حالت کو پہنچا۔یہ واقعہ جھوٹا نہیں ورنہ مزے دار ہوتا۔مرزا کہتے ہیں کہ جھوٹ کڑوا ہو تو سچ کے برابر یعنی برا لگتا ہے۔بزرگ بن کر نوجوان لکھاریوں کو نیک مشورہ دینا نیک فعل ہے لیکن کچھ خود سر گریبان پکڑنے آتے ہیں ان سے بچنے کے لئے احتیاط لازم ہے۔
صاحبو میری دو باتوں پر عمل ضرور کرنا ایک کہ اناڑی گھوڑے کے آگے پیچھے نہ چلنا اور دوسری بات یہ کہ کسی نئے لکھاری کو مفت کا مشورہ نہ دینا ۔پہلے میں آدمی زخمی ہوسکتا ہے،خداناخواستہ اگر کوئی زخمی نہ ہوا تو میرا گریبان چاک کرنے ہرگز نہ آنا بلکہ اس پر خوشی منانا کہ ہاتھ پاؤں سلامت ہیں اور دوسرے عمل سے بدنامی گلے پڑے گی کہ ہمارے ہاں یہ ریت چلی ہے کہ دو باتوں میں تین مصالحے ملائے جاتے ہیں اور باتیں دور دور تک پھیلائی جاتی ہیں تاکہ تیکھی لگیں ،اس لئے احتیاط لازم ہے۔
���
کیلم کولگام،کشمیرموبائل نمبر؛8493981240