آن لائن تحفہ افسانہ

سکندر علی شکن

مسرت خواب گاہ میں بیٹھی اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سنہرے خواب رقص کر رہےتھے ۔ ادھر افروز بھی دلہن سے ملنے کے لیے بیتاب تھا۔ بیتاب کیوں نہ ہوتا آج جو اس کے ارمانوں اور خوابوں کی تکمیل ہونے والی تھی۔ وہ دل میں ہزاروں خواب سجائے ہوئے خواب گاہ میں داخل ہوا ۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے انجان تھے ۔
کچھ دیر تک تو افروز خواب گاہ میں چپ چاپ بت کی طرح کھڑا رہا پھر مسکرا کر مسرت کو دیکھا اور دھیرے سے گلہ صاف کرتا ہوا اپنے بارے میں بتانے لگا۔ وہ بغیر سانس لئے بولے جا رہا تھا۔ افروز کے انداز گفتگو پر مسرت کو ہنسی آگئی۔” تم کو تو ٹی وی اینکر ہونا چاہیے تھا-”
” ہماری بھی یہی خواہش تھی مگر۔۔۔۔۔ ” افروز نے اپنی حاضر جوابی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ۔
کچھ دیر پہلے دونوں کے درمیان جو اجنبیت کی دیوار حائل تھی باہمی بات چیت سے منہدم ہوچکی تھی اور اب تو دونوں ایسے گھل مل کر ہمکلام تھے کہ مانو دونوں جنم جنم کے ساتھی ہوں-
وقفہ وقفہ سے افروز کے فون کی پوری گھنٹی بجتی جاتی تھی مگر اسے اس وقت بھلا فون کا کہاں ہوش تھا؟ وہ تو رنگین باتوں کے سمندر میں ڈبکیاں لگا رہا تھا-
” افروز اگر میں تم سے آج کچھ مانگوں تو تم مجھے دو گے؟” مسرت کے اس سوال پر افروز نےحیرت سے اسے دیکھا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ پتا نہیں مجھ سے کیا مانگ لے؟ اگر میری حیثیت سے بڑھ کر مانگا تو کیا ہوگا؟ کچھ لمحے تک سوچنے کے بعد افروز مزاحیہ انداز میں گویا ہوا——“میری جان جو جی چاہے مانگ لو مگر اس نا چیز کی جان مت مانگنا کیوں کہ اب میں اپنی جان تمہاری جان میں مدغم کرنے کا خواہش مند ہوں”۔افروز کی اس بات پر مسرت ہنس پڑی۔ فون اس دوران مسلسل بجتا رہا۔ آخر مسرت بیزارگی کا اظہار کرتی ہوئی بولی۔ ’’پہلے فون اٹھا لیجے۔۔اس کا شور سکون چھین رہا ہے۔””ارے اب تم کہہ رہی ہو تو ۔۔۔۔اٹھانا ہی پڑیگا۔۔۔پتا نہیں کون بےرحم ہمیں ڈسڑب کرنا چاہتا ہے” اس نے فون ریسیو کیا۔ “ہیلو ”
“شادی مبارک ہو” کوئی غیر مانوس آواز آئی۔
’’ شکریہ جناب! آپ کون ؟ “”اپنا ہمدرد سمجھئے ۔۔۔۔اس خوبصورت موقع پر آپ کو ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘
“اچھا”
“تحفہ آن لائن ہوگا”
” آن لائن تحفہ۔۔!”
کچھ دیر خاموشی رہی پھر وہ اجنبی آواز اُبھری۔
“واٹس ایپ پر بھیجا ہوں۔۔۔۔آپ پراپت کر لیجئے ساتھ ہی امید کرتا ہوں کہ آپ اس تحفہ کو دیکھ کر بہت خوش ہونگے۔۔۔ بائے ”
” ہیلو ! ہیلو ! ” فون کٹ چکا تھا۔
مسرت نے پوچھا کون صاحب ہیں بڑی سنجیدگی سے بات کر رہے تھے-
کوئی اجنبی تھا کہہ رہا تھا آن لائن تحفہ بھیج رہا ہوں واٹس ایپ پر چیک کر لو”
“سائنس نے بہت ترقی کر لی اب لوگ آن لائن تحفہ بھی بھیجنے لگے خیر دیکھئے تو آن لائن تحفہ کیسا ہے؟” مسرت نے ہنستے ہوئے کہا۔
افروز نے جیسے ہی ڈیٹا آن کر کے واٹس ایپ کھولا تو پیغام پر پیغام آنےشروع ہو گئے ایک پیغام پرنظر پڑتے ہی افروز کا خون سفید ہو گیا اسے لگا جیسے اس کے قدموں تلے سے زمین سرک گئی ہو، واٹس ایپ پر مسرت کی چند تصویریں تھیں ۔انھیں دیکھ کر وہ آپے سے باہر ہوگیا ان تصویروں میں مسرت نیم عریاں کسی لڑکے کے گلے میں بانہیں ڈالے کھڑی تھی۔ اسی طرح کئی اور نازیبا تصویریں تھیں۔ ساتھ میں دونوں کے درمیان کی گئی چئیٹ کی سکرین شارٹس تھے کہیں پر مسرت کا میسج مسکرارہا تھا۔” یو آر ان مائی ہارٹ”۔
ایک ہی پل میں افروز کے سارے خواب شیشے کی طرح چکنا چور ہوگئے اور وہ مسرت کو تصویریں دکھاتے ہوئے بولا ۔”یہ ہے تمہاری حقیقت اور پارسائی !تمہارے کردار کی عکاسی یہ واٹس ایپ کے تمام پیغامات کرتے ہوئے شرمسار ہیں۔ تمام مسیجز دیکھ کر مسرت نےشرمندگی سے سر جھکالیا اور اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس کی زبان سے الفاظ نہیں نکل پا رہے تھے، اس کے منہ سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز نکلی۔ “میری بات سنو! ” ۔” بس رہنے دو !۔۔۔۔۔۔ اب اور سننے کو بچا ہی کیا ہے، مسرت ! میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ تم اس قسم کی لڑکی ہو۔ میں چاہوں تو تمہیں اسی وقت طلاق دے سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ اس سے ہمارے اور تمہارے والدین دونوں کی بہت بےعزتی ہوگی مگر رہو گی تو تم اسی گھر میں۔۔۔۔ دنیا کی نظر میں میری بیوی بن کر مگر اصل میں تم میری بیوی نہیں ہوگی یہ گھر تمہارے لیے قید خانہ ہوگا”۔اتنا کہہ کر افروز کمرے سے باہر نکل گیا۔ مسرت اسے آواز دیتی رہی مگر اس نے ایک نہ سنی، ہزاروں خواب جو مسرت کے تصورات میں ابھی رقص کررہے تھے یکایک سوکھے تنکے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے۔ اُسکے خوابوں کا محل منہدم ہو کر کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔ اُسے ہر سمت تاریکی ہی تاریکی نظر آنے لگی تھی۔ اس کی آنکھوں کی ندی میں آنسوں، سمندری لہروں کی طرح ہلورے لینے لگے تھے باوجود اس کے اس نےصبر کا دامن نہ چھوڑا – وقت یوں ہی چلتا رہا اور وہ سسرال میں سارا کام کاج کرتی۔ اس کے رویے سے اس کے ساس سسر بہت خوش رہتے۔ افروز کو چھوڑ کر باقی سب لوگ اس کی بڑائی کرتے۔ پڑوس کے لوگ بھی کہتے کہ بہو ہو تو ایسی! مگر افروز کے دل میں مسرت سے نفرت کی چتا جلتی رہتی تھی۔ وہ رات میں مسرت کے کمرے میں جاتا اور پاس میں پڑی چیئر پر سوجا تا۔ یہی اس کا معمول بن چکا تھا۔ مسرت اسے لاکھ صفائی پیش کرتی مگر وہ ایک بھی نہ مانتا۔ افروز کو چیئر پر سوتے دیکھ کر مسرت کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں ، وہ اپنا حال دل بھلا کسے سناتی نہ تو وہ اپنے ساس سسر کو سنا سکتی تھی اور نہ ہ اپنے والدین کو مگر ہاں وہ اپنا حال دل نماز کے بعد اپنے خدا کو ضرور سناتی اور دعا کرتی۔۔۔” اے خدا تو میرے شوہر کی غلط فہمی کو دور کردے”۔
وقت پنکھ لگا کر اُڑ رہا تھا۔ دونوں کی شادی کو تین چار مہینے ہو چکے تھے مگر افروز کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
ایک دن شام کے وقت افروز اپنے آفس سے گھر واپس آ رہا تھا کہ راستے پر اسے ایک آدمی دکھا جو سڑک حادثے کا شکار ہوکر تڑپ رہا تھا۔ افروز اپنی بائیک روک کر اس آدمی کے قریب پہنچا اور اسے ہسپتال لے جانا چاہا مگر اس شخص نے افروز سے کہا ” میرے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے مُجھے ہسپتال لے جانے سے کوئی فائیدہ نہیں۔ ہاں تم میری بات غور سے سنو! میں تم کو ایک راز بتانا چاہتا ہوں۔۔۔
راز !۔۔۔۔۔۔۔ افروز حیرت سے بولا۔۔۔
ہاں، راز!
وہ راز جو براہ راست تمہاری زندگی سے جڑا ہے ۔۔۔۔
میری زندگی سے !
ہاں افروز تیری زندگی سے۔ وہ شخص درد سے کراہتے ہوئے کہہ رہا تھا
افر۔۔۔۔۔ وز تین چار ماہ پہلے تمہاری شادی کی رات، میں نے ہی تمہیں فون پر اطلاع دی تھی کہ میں آن لائن تحفہ بھیج رہا ہوں واٹس ایپ پر اسے دیکھ لو ، میں بہت قصور وار ہوں یوں تو میری کہانی بہت لمبی ہے مگر سنو! میں اور تمہاری بیوی دونوں ہم جماعت تھے۔ تمہاری بیوی مسرت خوبصورتی میں بے مثال تھی۔ کالج کے تقریبا سبھی لڑکوں کی نظر اس پر تھی اور میرا تو دل آگیا تھا اس پر ۔۔۔۔ مگر وہ مجھ پر توجہ دیتی ہی نہ تھی۔۔۔۔۔۔ ایک دن میں نے زبردستی کالج میں تمام اسٹوڈنٹس کے سامنے اس کا ہاتھ پکڑ کر اظہار محبت کر دیا تو اس نے غصے میں آکر میرے گال پر دو تھپڑ جڑ دئے تمام اسٹوڈنٹس کے روبرو میری بےعزتی ہوگئی تب میں نے ٹھان لیا کہ ایک دن میں مسرت سے ضرور بدلہ لوں گا۔ اسی دن سے میں مسرت کی تصویروں کو جمع کرنے لگا ان تصویروں کو میں نے سافٹ ویئ کی مدد سے عریاں کرکے اپنی فوٹو کے ساتھ ایڈ کیا۔ پھر میں نے ایک فرضی واٹس ایپ اکاؤنٹ بنایا جس سے مسرت بن کر اپنے واٹس ایپ پر بات چیت کرتا۔ اپنے واٹس ایپ پر مسرت کے نام کی جگہ +91لگا کر اس پر رئیل فون نمبر ڈال دیا جس سے ظاہر ہوسکے کہ چیٹ مسرت ہی کا ہے۔ اس سب خرافاتی پروپیگنڈا کو میں نے آپ کی شادی کی رات آپ کو واٹس ایپ کردیا۔ مجھے پورا پورا یقین تھا کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں گے مگر جانے کیوں آپ نے طلاق نہیں دی۔ جب آپ نے طلاق نہیں دی تو مجھے حیرت ہوئی ۔ بعد میں احساس ہوا کہ میں نے بہت بڑی غلطی کر ڈالی، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ افروز ! میں تم سے معافی کا طلب گار ہوں اور تم مسرت کو بھی اس حقیقت سے واقف کرادینا اور اس سے کہنا کہ اگر ہو سکے تو مجھے معاف کردے۔ یوں تو میری خطا معاف کرنے کے ۔۔۔۔ نہیں م۔۔۔گ۔۔۔ ر۔۔۔۔۔ ابھی اس کے الفاظ پورے بھی نہ ہوئے تھے کہ اس کا دم نکل گیا۔
���
بہرائچ،اُتر پردیش،موبائل نمبر؛9519902612