گنڈبل سانحہ | جہلم آنسوو ٔں سے بھر گیا ۔6روز سے بستی غم سےنڈھال ، مکینوں کے چہروں پر مایوسی اور آنکھیں اشکبار

اشفاق سعید

سرینگر // 6روز بعد بھی سرینگر کے گنڈ بل علاقے میں ہر آنکھ اشکبارتھی ، ہر ایک چہرے سے مایوسی جھلک رہی تھی ،تعزیت پرسی کیلئے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور جہلم کے کنارے بھی اس انتظار میں تھے، کہ کہیں سے باپ بیٹے سمیت تین افراد کی لاشیں کناروں تک پہنچ جائیں ۔گنڈ بل میں ہر سو ماحول سوگوار ہے،غم میں نڈھال بستی کے باہر پولیس اور سی آر پی ایف کے ناکے لگے ہیں اور حادثہ کے مقام تک گاڑیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے ۔گنڈ بل میں جہلم کے آر پار بیٹھے لوگ یہ آس لگائے ہیں ،انہیں لاشیں ملیں گئیں ،ہر ایک چہرے سے مایوسی جھلک رہی تھی،ہر نظر جہلم کو تک رہی تھی کہ کہیں کچھ نظر آجائے ،بستی کے لوگوں کی ڈھارس بندھانے کیلئے سرینگر ،پلوامہ ،شوپیاں ،بڈگام اور دیگر علاقوں سے لوگ پہنچ رہے ہیں ۔سوگواران کی تعزیت پرسی کیلئے اُن کے گھروں میں لوگوں کا تانتا بندھا ہے ۔متاثرین میں بات کرنے کی سکت نہیں اُن کی آنکھیں نم اور لال ہیں ،’اف خدایا، رحم کر‘ ،سب کی حفاظت فرما‘ جیسے الفاظ اُن کی زبان سے نکل رہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے ،جیسے جہلم کا پانی آنسوں سے بھرگیا ہو‘ بستی کے لوگ کہتے ہیں ’’ ایسا پہلی بار ہوا جب ہم لوگ چھ روز سے دکھ میں ایک ساتھ آنسو بہا رہے ہیں ۔کاکہ پورہ پلوامہ سے آئے ایک شہری فاورق احمد کا کہنا تھا ’’ وہ ہر صبح پلوامہ سے کنڈبل پہنچتا ہے ،لیکن شام کو پھر مایوس واپس لوٹ جاتا ہوں ،کاش جلد ہی کوئی خبر آئے کہ باپ بیٹے کی لاشیں مل گئیں ۔کرسو راج باغ کے سہیل نامی شہری نے کہا ’’6روز ہو گئے اس واقعہ کو لیکن ایک دن بھی ایسا نہیں گذرتا جب وہ منظر ہم یاد نہیں کرتے، جب ہم نے یہ منہوس خبر سنی کہ اس جگہ سے اسکولی بچوں کی لاشیں یکے بعد دیگر جہلم سے باہر نکالی گئیں ۔محکمہ ہیلتھ سروس کشمیر کی ایک ایمبولنس گاڑی بھی وہاں موجود ہے ۔گاڑی میں فسٹ ایڈ کے علاوہ دیگر ایمرجنسی آلات نصب ہیں ،بستی میں مقامی رضاکاروں نے اپنے سٹال لگائے ہیں ،جہاں آنے والے لوگوں کیلئے بوتل بندپانی اور دیگر سہولیات رکھی گئی ہیں ۔ مقامی رضاکار پرویز بختیار نے بتایا کہ ہم کشمیر یوتھ فیڈریشن نامی ایک تنظیم چلا رہے ہیں جس کی طرف سے متاثرہ بستی کے لوگوں کیلئے پانی ، کیلے ، نوجوانوں کو آنے جانے کیلئے پٹرول وغیر فراہم کیا جاتا ہے اور جب تک یہ آپریشن ختم نہیں ہوتا تب تک ہم یہاں رہ کر لوگوں کو سہولت پہنچائیں گے ۔ایک مقامی شہری نے آہوں اور سسکیوں کے بیچ یہ کہا ’’ آخر پل کی تعمیر میں تاخیر کیوں ہوئی؟ ۔انہوں نے کہا ،2016میں اس پل کی تعمیر کا کام محکمہ تعمیرات عامہ نے شروع کیا لیکن 10برس گذر گئے اور پل ابھی تک تشنہ تکمیل ہے اور یہاں کے مکینوں کو کشتیوں کے ذریعے دریا کو عبور کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ محکمہ کی غفلت اور لاپروہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پل کی تعمیر کا کام جلدازجلد مکمل کرنے کی خاطر سیاست دانوں اوراعلیٰ حکام کے پا س بھی گئے لیکن لوگوں کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔مقامی شہری محمد اشرف نے بتایا ’غریبوں کی کوئی نہیں سنتا ، گزشتہ پندرہ برسوں سے فٹ برج کا کام مکمل نہیں ہو پایا ، جب الیکشن قریب آتے ہیں تو لوگوں سے وعدئے کئے جاتے ہیں لیکن لوگوں کی اس دیرینہ مانگ کو پورا کرنے میں ہمیشہ لیت ولعل کا مظاہرہ کیا گیا۔ ‘ معلوم رہے کہ بٹوارہ گنڈ بل علاقے میں منگل16اپریل کی صبح کشتی الٹنے کے نتیجے میں دو جڑواں بھائیوں سمیت 6افراد جاں بحق ہوئے جبکہ دس کو بچایا گیا جبکہ تین ہنوز لاپتہ ہے۔مہلوکین میں دو جڑواں بھائی جنہوں نے رمضان المبارک میں اعتکاف کیا تھا بھی جاں بحق ہوئے۔ ۔ ایک بوڑھی ماں کا اکلوتا بیٹا اور پوتا بھی دریائے جہلم میں ڈو ب گیا۔چار افراد کی بیک وقت نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں میں شرکت کی۔اب باپ بیٹے کی تلاش کیلئے جہلم ک پانیو ں میںبڑے پیمانے پر تلا ش آپریشن جاری ہے اور لیلہار پلوامہ کا ایک خوطہ خورکی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں جبکہ ایس ڈی آر ایف ،این ڈی آر ایف ،دریائی پولیس سمیت کئی ایجنسیاں بھی لاشوں کی بازیابی میں لگے ہیں اور آئی جی پی کشمیر اور ضلع ترقیاتی کمشنر سرینگر ازخود پوری صورتحال کی نگرانی کر رہے ہیں۔