غزلیات

حاصلِ زیست جو ہوگا وہ حضر باقی ہے
شام سر پر ہے کھڑی اور سفر باقی ہے

ضبطِ تحریر میں لایا ہوں میں ساری روداد
بات جو لکھنی ہے مجھ کو وہ مگر باقی ہے

سلسلہ سانس کا چلتا ہے یہ ہے تیرا کرم
جو مری کایا پلٹ دے وہ نظر باقی ہے

وہ بھی کیا خواب تھا جس خواب میں دیکھا تھا تجھے
کیا ملاقات تھی، اب تک وہ اثر باقی ہے

آب و گِل کے ترے زنداں میں گزارے دن چار
ہے جہاں صدیوں ٹھہرنا وہ نگر باقیہے

خوب چرچے ہیں کہ آیا ہے تغیّر ہر سُو
منتظر جس کا ہے بسملؔ وہ سحر باقی ہے

خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی ، راجوری
موبائل نمبر؛9086395995

ہم اذیت کے خرابے سے اُٹھائیں آنسو
رات کاٹے تو چراغوں میں جلائیں آنسو

دھوپ سلگی ہے ابھی شعلۂ حدت باقی
پیاس جب ہوش میں آئے تو پلائیں آنسو

کوئے امکاں میں شناسا تو کوئی مل جاتا
ہجر زادے ہیں بھلا کس کو دکھائیں آنسو

زندگی نت نئے مصرف کے تقاضے تیرے
دو عدد آنکھوں سے ہم کتنا کمائیں آنسو

پھر وہی خواب لگے کانچ سا کوئی ٹوٹے
پھر تماشائے سرِ شام ستائیں آنسو

ہر کوئی شخص چھپائے ہے نمی پلکوں میں
کون اس شہر میں اب کن کے چرائیں آنسو

ہم ابھی غم کے سمندر میں پڑے ہیں شیداؔ
جادۂ دشت پہ آئیں تو لُٹائیں آنسو

علی شیدؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

ہر گھڑی اک حسیں سماں رکھو
تم زمانے کو شادماں رکھو
مل ہی جائے گی منزلِ مقصود
اپنا ہر اک سفر رواں رکھو
رکھتے ہیں جو بُری نظر تم پر
دشمنوں کو بھی شادماں رکھو
زخم دل کے نہ ماند ہو پائیں
لہلہاتا یہ گُلستاں رکھو
اس کے قابل ہو یہ ضروری ہے
جب کوئی میرِ کارواں رکھو
خامیوں کا کرائے جو احساس
ساتھ اپنے وہ مہرباں رکھو
برق کا بھی خیال رکھو ہتاشؔ
جب بھی بُنیاد آشیاں رکھو

پیارے ہتاش
دور درشن لین جانی پور جموں
موبائل نمبر8493853607

غم چھپا کر مسکرانا سیکھ لے
دشت میں بستی بسانا سیکھ لے

دشمنوں کی دشمنی کا غم نہ کر
دوستوں میں سر بچانا سیکھ لے

عشق میں لَب کھولنا دشوار ہے
حال آنکھوں سے سُنانا سیکھ لے

میکدے میں آنا جانا چھوڑ دے
آنکھ سے پینا پلانا سیکھ لے

زخم بھر دے گا یہ مرہم کی طرح
گیت پیارا گُنگنانا سیکھ لے

سو طرح کی آفتیں ہیں رقص میں
آگ سے دامن بچانا سیکھ لے

مانتا ہے اُس کو گوہر ؔشاعری
عکس پانی پر بنانا سیکھ لے

گوہر بانہالی
موبائل نمبر؛9906171211

بدگمانی کفر ہے مت کیجئے
ہو سکے تو رائے اچھی لیجئے

خیر و برکت کے لیے خیرات دیں
مال و جاں کا آپ صدقہ دیجئے

ہم نے سیکھے ہیںجہاں کے علم و فن
آخرت کے واسطے کچھ سیکھئے

ہر بلا ٹل جائے گی اک کام سے
روز بس ماں کی دعائیں لیجئے

ہم سبھی آدم کی خود اولاد ہیں
آدمیّت اپنے اندر سینچئے

سوز ِدل کے واسطے ہم ہیں بشر
کام ایسا کر کے ثابت کیجئے

شاذ ؔ اچھا یا بُرا دن بھر کیا
جائزہ بستر پہ شب کو لیجئے

خطاب عالم شا ذؔ
پورواسہ، مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8777536722

کھیلے ہیں حادثوں سے بہت غم اٹھائے ہیں
تب جا کے اس مقام پہ ہم آج آئے ہیں
لوگوں نے ہم پہ طنز کے نشتر چلائے ہیں
تم سے بچھڑ کے ہم نے بہت زخم کھائے ہیں
فصلِ بہار کی گئی تقسیم جب کبھی
حصے میں اپنے سوکھے ہوئے پھول آئے ہیں
جب بھی تمہارا نام مرے لب پہ آگیا
یاروں نے آسمان کو سر پہ اٹھائے ہیں
راہوں میں جو بچھاتے رہے خار عمر بھر
مرنے کے بعد قبر پہ وہ پھول لائے ہیں
تاریخ دیکھ لیجئے، گرچہ یقیں نہ ہو
ہم نے سمندروں میں بھی رستے بنائے ہیں
جب جب بھی ہم نے بھولنا چاہا انہیں رفیق
وہ اور بھی زیادہ ہمیں یاد آئے ہیں

رفیق ؔعثمانی
آکولہ مہاراشٹر
سابق آفس سپرانٹنڈٹ BSNLمہاراشٹرا

دلِ مضطر قرار سے گذرا!
وہ میرے اختیار سے گزرا
تیر کھینچا جو کج ادائی کا
میرے سینے کے پاس گزرا
تم نہ سمجھو گے بے گھری کا دُکھ
میں بار ہا اس آزار سے گزرا
دیدِ لیلیٰ کا طالع چمکا
جب بھی مجنوں غبار سے گزرا
عکس جب آئینے میں دیکھا تو
برہنہ پادشتِ خار سے گزارا
میرے کھونے کا غم نہیں کرنا
تیرے دل سے دیار سے گزرا
صبر کرتا ہوں خون روتا ہوں
سینہ اُفگار کوئے یار سے گزرا
راہِ اُلفت کا منیبؔ مسافر تھا
گھر سے نکلا مزار سے گزرا

مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ، بڈگام
موبائل نمبر؛9906486481

آج مدت بعد نکلی ہے مری چاہت کی دُھوپ
کتنی دِل کش اور اُجلی ہے مری چاہت کی دھوپ

میری کاوش کا صِلہ مطلق نہیں ہے ، یہ مجھے
اپنی قسمت سے ملی ہے مری چاہت کی دُھوپ

میں ڈھونڈوں ہوں ابھی تک اُس گلی میں
کہاں جانے نکل گئی ہے مری چاہت کی دُھوپ
ابھی کل تلک تھا چمن کو ناز جس پر
وہ اب سُوکھی کلی ہے مری چاہت کی دھوپ

آبلہ پا ہو کیوں نہ گریباں چاک صورتؔ
دل کی راہ چلی ہے مری چاہت کی دھوپ

صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

یہ ترا انتظار صدیوں سے ہے
اور اک طرفہ پیار صدیوں سے ہے
تری اور میری اس کہانی میں
بیچ کی یہ درار صدیوں سے ہے
نہ میں سمجھی نہ تو سمجھ سکا یہ
٘عشق میں کیوں یہ ہار صدیوں سے ہے
تجھکو کوئی ملا تو ہو گا اور
پر مرا انتظار صدیوں سے ہے
تجھ کو پانے کی دیکھو چاہت میں
دل مرا بے قرار صدیوں سے ہے
طلحہؔ کب سنگ تیرے میں دیکھوں
جو نہ دیکھی بہار صدیوں سے ہے

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان ،کشمیر

لوگ ہر سُویہاں مکار کیوں
تو میرا میں تیرا شکار کیوں

گر منافع کی باتیں ہیں ہر سُو یہاں
ہیں نصیبوں میں پھر یہ خَصار کیوں

جن کے نزدیک عالم ہو سو دوزیاں
مخلصی کا وہاں ہوشمار کیوں

حالتِ زار پر گر ہوئے تم اُداس
تیرے رُخ پہ مگر ہے نکھار کیوں

بے منزل راہ پہ اے نادیہؔ
ہم ہیں چلتے قطار در قطار کیوں

نادیہ ؔحسن
سونہ گام، کولگام