عدالتی کام میں مصنوعی ذہانت کا استعمال محتاط بحث وقت کی اہم ضرورت :جسٹس چندرچوڑ

یواین آئی

نئی دہلی// سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ عدالتی کام میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال کئی چیلنجوں کے ساتھ ساتھ مواقع بھی لاتا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں پر محتاط بحث وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہندوستان اور سنگاپور کی سپریم کورٹس کے درمیان ٹیکنالوجی اور مکالمے پر دو روزہ (13 اور 14 اپریل) کانفرنس میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے انہوں نے قانونی تحقیق میں مصنوعی ذہانت کی تبدیلی کی صلاحیت پر روشنی ڈالی اور اسے ‘گیم چینجر’ قرار دیا۔کولمبیا اور ہندوستان کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے مخصوص مثالوں پر زور دیا جہاں عدالتی فیصلوں میں اے آئی اور خاص طور پر ‘چیٹ جی پی ٹی’ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔انہوں نے عدالتی کارروائیوں میں اے آئی کے استعمال سے منسلک اخلاقی، قانونی اور عملی تحفظات کو نظر انداز کرنے کے خلاف بھی خبردار کیا۔جسٹس چندرچوڑ نے زور دیاکہ “جدید عمل میں اے آئی کا استعمال، بشمول عدالتی کارروائی، پیچیدہ اخلاقی، قانونی اور عملی تحفظات کو جنم دیتا ہے۔ ایسے میں گہرائی سے تحقیقات کی ضرورت ہے۔ عدالتی فیصلے میں اے آئی کا استعمال مواقع اور چیلنج دونوں لاتا ہے، جن پر محتاط غور کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ “جب ہم اے آئی کے استعمال کو قانونی میدان میں لے جا رہے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے نظامی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چوکس رہیں۔ یقینی بنائیں کہ اے آئی ٹیکنالوجیز سب کے لیے انصاف کے حصول کو کمزور کرنے کے بجائے بڑھانے میں مدد کریں۔”ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ “سپریم کورٹ آف انڈیا نے لائیو ٹرانسکرپشن سروسز متعارف کرائی ہیں۔ یہ ایک اہم اقدام ہے جس کا مقصد قانونی معلومات تک رسائی کو بڑھانا ہے۔ یہ اقدام لسانی تنوع کے پیش نظر خاص طور پر کارگر ثابت ہوا ہے، کیونکہ لائیو ٹرانسکرپشن سروسز عدالتی کارروائی کو ہندی کے علاوہ 18 علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ قانونی معلومات ہندوستان بھر کے شہریوں کے لیے قابل رسائی ہو۔”انہوں نے اے آئی کے سسٹم کی ممکنہ خامیوں اور تعصبات اور اس کے استعمال میں شفافیت، جوابدہی اور انصاف کی اہمیت پر تشویش کو اجاگر کرتے ہوئے کہاکہ “اے آئی کی صلاحیت کا مکمل ادراک عالمی تعاون پر منحصر ہے۔‘‘