جہالت افسانہ

ہلال بخاری

زینب اس دن ایک عرصے کے بعد بڑے شوق سے گھر سے ایک نیا پوشاک پہن کر اپنے شوہر زید کے ہمراہ شوپنگ کے واسطے بازار آئی تھی۔ یہ پوشاک اسکی ایک سہیلی نے عرب سے لایا تھا اور اس پر حلوہ لفظ دلکش اور دلفریب انداز میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تحریر کیا گیا تھا۔
مگر حلوہ لفظ کیوں ؟ کیونکہ اس کے مطلب خوبصورت، شیرین اور دلکش ہوتا ہے اور ایک معصوم اور وفادار بیوی سے شیرین اور دلکش کیا ہے ؟
زینب کئی دن سے اس دن کے انتظار میں تھی جب وہ اپنی پسند کا امپورٹڈ لباس پہن کر اپنے شوہر کے ہمراہ بازار جائے گی۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ جس دن کی وہ اس بے صبری سے منتظر تھی وہ اس کے لئے کس قدر ہولناک ہوگا۔
بازار میں چند لوگ اس کے لباس کو دیکھ کر کچھ دیر تک حیرت سے تکنے لگے کیونکہ اس علاقے میں پہلی بار کسی نے ایسا لباس پہنا تھا جس پر عربی عبارت تحریر تھی۔ لیکن کس کے پاس اتنی فرصت تھی کہ ذیادہ غور کرتے۔ وہ کچھ دیر دیکھتے رہتے اور گزر جاتے۔
شوپنگ کے دوران اس کا شوہر کچھ دیر کے لئے اس سے دور ہوا تو ایک آوارہ نوجوان اسکا پیچھا کرنے لگا۔
زینب نے پوری کوشش کی کہ اس سے جان چھڑائے مگر وہ نہ مانا جس کے بعد وہ اسکو ڈانٹنے پر مجبور ہوئی۔
وہ نوجوان ڈانٹ کھا کر غائب ہوگیا اور زینب پھر سے شوپنگ میں مگن ہوگئی۔
کچھ دیر بعد اس نے سنا کہ کچھ لوگ چلا رہے ہیں جب اس نے ان کی طرف دیکھا تو وہ اسی کی طرف اشارے کرکے چلا رہے تھے۔ ان میں وہ آوارہ نوجوان بھی تھا جسکو زینب نے کچھ دیر پہلے ڈانٹا تھا۔
جب اس نے غور کیا تو وہ لوگ اس کی طرف اشارے کرکے چلا رہے تھے،
” قران کی بے حرمتی ، قران کی بے حرمتی”
اسے پہلے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پھر وہ اپنے لباس کو گھورنے لگی۔ اب تک اس کے ارد گرد ایک ہجوم جمع ہوا تھا۔ وہ چلا رہے تھے،
“مارو ، مارو ”
پھر وہ اس کی طرف دوڑنے لگے اور وہ جان بچانے کے لئے بھاگنے لگی۔ کچھ دیر دوڑ کر ہی اسکی سانس پھولنے لگی مگر جان بچانے کا اسکے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ بھاگتی ہی رہے۔
خدا کا کرم تھا کہ اسی وقت اسکا شوہر زید اس کے سامنے سے آیا اور اسے تھام لیا۔ وہ بغیر کچھ اپنی بیوی سے پوچھتے ہوئے ہی اسکو ایک دوکان کے اندر لے گیا اور خود اسکا دروازہ بند کرکے باہر نکل آیا۔
ہجوم کچھ دیر تھم گیا پھر آوازیں آنے لگیں
” اس حرافہ کو ہمارے حوالے کرو ۔”
کچھ لوگ پتھر مارنے لگے۔
زید نے نے اپنے آپکو بچاتے ہوئے جلدی سے پولیس کو فون کیا پھر اونچی آواز میں ہجوم سے مخاطب ہو کر کہا،
” قانون کو اپنا کام کرنے دو۔ ”
ہجوم میں سے مختلف آوازیں آنے لگی۔ کچھ نے کہا
” ہم قانون کو نہیں مانتے۔”
کچھ نے چلا کر کہا،
” قانون کیا کرے گا۔ قانون تو کافر ہے۔”
کسی نے کہا ،
پولیس کیا کرئے گی ؟ اسے ہمارے حوالے کرو۔”
زید نے ہمت کرکے چلا کر پوچھا،
” آخر اس کی خطا کیا ہے ؟ ”
اسی نوجوان نے جسکو زینب نے ڈانٹا تھا جواب دیتے ہوئے کہا،
” اس حرافہ نے قران کی آیات کو لباس پر سجایا ہے۔ یہ ہمارے قران اور اسلام کی بے حرمتی ہے۔”
” آپ کو کس نے کہا کہ یہ قران کی آیات ہیں؟”
” کیوں کیا میں نے قران نہیں پڑھا ہے ؟”
اس نے غصے سے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ زید کچھ اور کہتا پولیس آگئی اور زید نے راحت کی سانس لی۔
پولیس آفیسر نے سارا معاملہ دریافت کرنے کے بعد سارے ہجوم سے مخاطب ہوکر پوچھا،
” اس عورت کے لباس پر حلوہ لفظ تحریر ہے کیا کوئی اس کا مطلب جانتا ہے؟”
سارے ہجوم میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔
پھر کسی نے چلا کر کہا،
“مطلب کو کیا کرنا ہے؟ ہم جانتے ہیں اس پر قران کی آیات لکھی ہیں۔”
پولیس آفیسر کو لگا کہ وہ اس ہجوم کو قابو کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ اس نے کچھ علماء کو فون کرکے بلا لیا کہ سب کی رہنمائی کرسکیں۔
علماء حضرات آئے صورت حال کا جائزہ لیا اور پھر ان علماء کے امیر نے فرمایا،
” ہم بھی اس تحریر کا صیح مطلب نہیں جانتے مگر چونکہ یہاں پر سب لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں لحاظہ بہتر رہے گا کہ یہ عورت معافی مانگے اور پھر اس کو ایک موقعہ دیا جائے۔”
یہ فیصلہ سب کو منظور کرنا ہی تھا۔ پھر اس عورت کو دکان کے اندر سے پولیس نے باہر نکالا جہاں اس کے شوہر نے اسے چھپایا تھا۔ زینب جیسے کچھ لمحوں میں ہی سالوں سال کی محرومیت اور مظلومیت کا شکار ہوئی تھی۔ اس پر ٹراما کا اثر واضح تھا۔ اسکی ساری قوت ختم ہوچکی تھی اور وہ کچھ بولنے کی حالت میں نہیں تھی۔ اسکے شوہر کو اسکی حالت دیکھ کر اس پر بہت ترس آیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ زینب بے گناہ اور نیک صفت خاتون ہے۔ مگر فیصلہ چونکہ قاضی وقت کا تھا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ زینب کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ضعیف الفاظ میں اپنے ان گناہوں کا اعتراف کرئے جو اس سے سرزد ہی نہیں ہوئے تھے۔ اسے ایک مائک تھما دی گئی تاکہ اسکی معافی سارا ہجوم سن سکے اور سب کو تسلی مل سکے۔ اسے سمجھایا گیا اور اس نے کہا،
” میں آپ سب سے اپنی جان کی بھیک مانگتی ہوں۔ آج کے بعد میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں۔”
یہ کہنے کے ساتھ ہی وہ بے ہوش ہوکر لڑکھڑانے لگی اور اس سے پہلے کہ وہ گر پڑتی اس کے شوہر نے اسکو تھام لیا۔ زینب ایک لاش کی طرح بے جان تھی اور زید شدت غم میں آنسو بہا رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اس جہالت پر لعنتیں بھیجیں جس نے ایک مظلوم کو توبہ کرنے پر مجبور کردیا تاکہ ظالموں کو تسلی حاصل ہو۔
���
ہردوشورہ کنزر ، ٹنگمرگ،