بادام واری گلابی و سفید شہر میں تبدیل عید اور بیساکھی پر مقامی و غیر مقامی سیلانیوں کا ہجوم

 بلال فرقانی

سرینگر// پائین شہر کے کاٹھی دروازہ علاقہ میں واقع بادام واری میں بادام کے شگوفوں نے ہر طرف سفید رنگ کا حسن اور رعنائی بکھیر دیے ہیں۔ جھیل ڈل کے کنارے واقع بادام واری میں بادام کے شگوفوں نے اس وقت ہر طرف سفید اور گلابی رنگ بکھیر دیے ہیں۔ تاریخی کوہ ماراں (ہاری پربت) کے قلعے کے دامن میں واقع ’بادام واری‘ میں لگے سینکڑوں بادام درختوں پر کھلے شگوفوںسے ہر سو جنت کا سماں بندھ گیا ہے اوروادی میں موجود غیرریاستی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔یہاں کی سیر کرنے والے ہر ایک شخص کو بادام کے شگوفوں کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے اور ان کے سامنے تصویریں کھینچنے میں مصروف دیکھا جارہا ہے۔ ان سفید و گلابی شگوفوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے بڑی تعداد میں مقامی و غیر مقامی سیلانیوں کا تانتا بندھنے لگا ہے۔ سفید و گلابی رنگ کے شگوفے قابل دید ہیں جن سے روح کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور یوں گماں ہوتا ہے کہ کہ یہ قطعہ اراضی سفید و گلابی رنگ کے پھولوں کے لباس میں ملبوس سیاحوں کی آمد کی منتظر ہے۔ بادام کے درختوں پر رنگا رنگ پھول کھلنے کو موسم بہار کی آمد کا نقیب سمجھا جاتا ہے۔ عید الفطر کے چوتھے روز اور بیساکھی کے دن بادام واری میں سیلانیوں کا اژدھام اُمڑ کر آیا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں ٹریفک کا بدترین جام بھی لگا ۔

 

بتایا جاتا ہے کہ بادام واری کو14ویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ باغ کے وسط میں ایک شاندار گمبند بھی ہے جبکہ ایک کنواں بھی ہے جو ’’وارث خان کے چاہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔300کنال ارضی پر پھیلے ہوئے یہ باغ موسم بہار اور گرما میں مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہیں۔دہلی سے تعلق رکھنے والے سیاح جوڑے نے بتایا کہ انہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ بادام درختوں کے شگوفوں کا دلکش منظر دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا ’ہمیں بادام واری کے بارے میں کوئی علمیت نہیں تھی اور ہمیں ہوٹل کے ملازمین نے یہاں آنے کا مشورہ دیا،اورہم اس کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے۔اس جوڈے نے مزید بتایا واقعی کشمیر کا چپہ چپہ جنت کا منظر پیش کررہا ہے‘۔ سیاح جوڑے نے کہا کہ وہ خود کو خوش قسمت محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے بادام واری کا دورہ کیا۔ انہوں نے کہا ’گلمرگ، سونہ مرگ، جھیل ڈل اور مغل باغات کے بارے میں جانتے تھے لیکن بادام واری کے بارے میں ہمیں کوئی وا قفیت نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا’’ہم نے یہاں اپنی درجنوں تصویریں کھینچی ہیں اور ان کو فوراً سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا ہے،اور ہم اگلی دفعہ اپنی پورے کنبے کو ساتھ لائیں گے‘۔ بادام واری میں اس وقت غیرریاستی سیاحوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی خاصی بھیڑ دیکھی جارہی ہے۔ بادام واری کو سال 2008 میں جموں وکشمیر بینک نے بحال کرکے تفریح گاہ بنالیا تھا۔ جہاں سال 2008 سے قبل سیاح مئی کے آخری ہفتے سے وادی کا رخ کرنا شروع کرتے تھے وہیں اب بادامی واری اور باغ گل لالہ کی بدولت مارچ سے ہی سیاح کشمیر وارد ہوتے ہیں۔ گذشتہ 10 برسوں میں اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ ہندوستان کے مختلف کونوں اور غیر ملکی سیاحوں کے علاوہ مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بادامی واری اور باغ گل لالہ دیکھنے میں دلچسپی دکھائی۔بزرگ شہریوں کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس باغ میں آمد بہار کے وقت باضابطہ طور پر میلہ لگ جاتا تھا،اور سرکاری طور اس باغ میں معروف گلو کار اپنے فن کا مطاہرہ کرتے تھے،جس کو دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے آتے تھے،تاہم گردش ایام نے اس روایت کا بھی ختم کیا۔علاقے کے ایک استاد نے کہا’’ یہ ستم طریفی ہے کہ ایک تہذیب کو ختم ہونے دیا گیا۔‘‘ انہوں نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جہاں اعلیٰ حکام بھی بادام واری کے میلے میں آتے تھے۔ ایک اور شہری نے بتایا کہ جھیل ڈل سے سیر کرتے ہوئے وہ اپنے بچپن میں بادام واری آتے تھے،اور یہاں پر سنگھاڑے کھانا ان کا مشغلہ تھا۔ انہوں نے بتایا’’ بادام واری شائد ہی ماضی کے آب و تاب میں پھر نظر آئے،اور اس کے اراضی پر کئے گئے قبضے کو بھی شائد واپس نہیں لیا جائے،تاہم یہاں پر آنا اور وقت گزرنا فی الوقت بھی روح کو سکون بخشتا ہے۔‘‘