اَفسر بیٹے کی ماں افسانہ

ساریہ سکینہ

شام کا وقت تھا،سڑک پر کئی گاڑیاں چل رہی تھیں۔ایک گاڑی تیزی سے گذر کر اور سارا گرد و غبار اُڑا کر بہادر صاحب کے بنگلے کے گیٹ کے اندر چلی گئی، بہادر صاحب جن کو سب لوگ صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔
بنگلے کے گیٹ پر دیوار کے پاس ایک بڑھیا کئی دنوں سے بیٹھی ہوئی تھی یہ بھکارن لگتی تھی، اس کے چلئے سے تو یہی معلوم ہو رہا تھا۔کپڑے پھٹے پرانے تھے۔ ہاتھوں اور ناخنوں میں بہت سارا میل جم گیا تھا۔ بال کچھ کالے اور کچھ سفید جو بکھرے ہوئے تھے، ایسا لگتا تھا کہ کئی مہینوں سے دھوئے گئے نہیں تھے۔ وہ بکھرے بال اس کے چہرے کو چھپا رہے تھے اس لیے اس کا چہرہ صاف صاف نظر نہیں آرہا تھا۔
بہادر صاحب بنگلے کے دروازے پر گاڑی سے اترے تو گاڑی کا دروازہ ڈرائیور شہاب الدین نے کھولا۔ گاڑی کے آگے اور بھی دو تین ملازم ہاتھ باندھے دائیں بائیں کھڑے تھے۔ صاحب ڈرائیور کی طرف مخاطب ہو کر بولا کہ میں نے صبح کو بھی ہدایت دی تھی کہ اس بھکارن کو وہاں سے جانے کے لیے کہو…..لیکن وہ تو ابھی بھی وہیں ہے۔
شہاب نے کہا,جی صاحب وہ نہیں مان رہی ہے۔۔۔۔ اور آپ نے جو پیسے دئیے تھے اس کو دینے کے لیے اس نے وہ بھی لینے سے انکار کر دیا۔وہ کسی کی بات نہیں مانتی…..لگتا ہے بیچاری اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی ہے۔
جو بھی ہو اس کو وہاں سے نکالو….اس شہر میں بھکاریوں کے لئے کوئی قانون نہیں ہے کیا….؟ یہ کہہ کر بہادر صاحب گھر کے اندر داخل ہو گئے۔
ان کے آتے ہی ہر بار بنگلے میں ادھم مچ جاتی تھی کیونکہ بہادر صاحب شخصیت ہی ایسی تھی کہ بنگلے کے سارے ملازم ہال میں اکٹھا ہو کر بہادر صاحب کی خدمت میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان کے ایک فیصلے پر بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا شخص لاچار اور بے بس معلوم ہوتا تھا کیونکہ وہ پیشے سے ایک جج تھا۔
صاحب گھر میں آتے ہی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ صاحب کی بیوی عالیہ نے کہاکہ نوکر سے کہہ کر آپ کا کھانا لگوا دیتی ہوں۔
نہیں…نہیں…میں کھا کر آیا ہوں…تم بچوں کو سلا دو اور خود بھی آرام کرو…مجھے ایک ضروری کیس پر کام کرنا ہے اس لیے مجھے کام میں خلل نہیں چاہیے۔
یوں تو صاحب ہمیشہ کام میں مصروف رہتے تھے لیکن آج کل وہ کسی خاص کیس میں اس طرح الجھ کر رہ گئے تھے کہ جیسے باہر کا راستہ ہی معلوم نہ ہو۔ وہ رات دن اسی کیس پر کام کرتے رہے تھے۔اور خود ہی تمام دفتروں کے چکر بھی کاٹ رہے تھے۔جانے یہ کیس اُن کے لیے کیوں اتنا اہم تھا۔
صبح معمول سے جلدی صاحب نے گاڑی کے ڈرائیور شہاب الدین کو گاڑی نکالنے کے ہدایت دی.اور گاڑی میں بیٹھ کر کسی جگہ کا پتہ بتایا اور وہاں لے جانے کے لیے کہا۔ڈرائیور نے ہدایت کے مطابق صاحب کو وہاں پہنچایا۔
لیجیے صاحب آپ کا بتایا ہوا پتہ آگیا۔
صاحب گاڑی سے اترے اور اِدھر اُدھر نظر گھمائی۔ان کی نظروں میں کچھ عجیب سی حیرانی اور پریشانی تھی،جیسے کچھ پانے کی خوشی اور بہت سارا کھونے کا غم ہو۔ شہاب الدین، جو ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا، سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ مگر اُس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔کیونکہ اس نے پہلی بار صاحب کو اس حالت میں دیکھا تھا۔
صاحب پتہ کے مطابق گھر کے سامنے رک گیا۔لیکن گھر کے دروازے پر بڑا سا تالا لگا تھا۔ انہوں نے راستے پر آتے جاتے لوگوں سے پوچھا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے لیکن پھر کسی ایک شخص نے کہا کہ وہاں پر جو رہتے تھے ان کو مکان مالک نے کرایہ نہ بھرنے کی وجہ سے نکال دیا ۔
اب وہ کہاں رہتے ہیں…؟ صاحب نے پوچھا۔
جی پورا تو معلوم نہیں…..مگر کسی سے سنا تھا کہ وہ پھر اولڈ ایج ہوم چلے گئے تھے۔
صاحب نے مایوس ہو کر شہاب الدین کو گاڑی کی طرف اشارہ کیا اور دونوں گاڑی میں سوار ہو گئے۔
کورٹ چلو….
جی صاحب۔۔۔۔ کہہ کر شہاب الدین نے گاڑی کا رخ کورٹ کی اور کیا اور چلنے لگے۔ لتی ہوئی گاڑی میں صاحب نے غور کیا کہ شہاب الدین گاڑی کے شیشے سے بار بار اس کی اور دیکھ رہا ہے اور اس نے بھانپ لیا کہ شہاب الدین کے دماغ میں کوئی سوال پک رہا ہے۔
کیا بات ہے شہاب…؟کیا کچھ پوچھنا ہے…؟
صاحب میں اتنے سالوں سے آپ کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس شہر میں آئے ہوئے آپ کو بہت کم عرصہ ہوا لیکن میں آپ کا ملازم تب سے ہوں جب آپ ودیش سے آ کر دوسرے شہر میں بس گئے تھے…پر..پر میں نے….شہاب الدین ہچکچا کر بول رہا تھا۔
ہاں….تم نے…تم نے کیا…؟ ہچکچا کیوں رہے ہو…پوچھو جو پوچھنا ہے…؟
صاحب چھوٹا منہ بڑی بات، میں نے آپ کو کسی کیس پر اتنا پریشان ہوتے ہوئے نہیں دیکھا…یہ کیس آپ کے لئے کیوں ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ ؟ یہی سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں۔
شہاب تمہیں معلوم ہے کہ میں نے ہزاروں کیسوں کے فیصلے بڑی محنت اور ایمانداری سے سنائے ہیں…مگر…! صاحب نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔ یری ذاتی زندگی کا وہ ایک اہم ترین فیصلہ تھا جو میں نے غلط سنایا…میں نے ایک ماں باپ سے ان کی ایک اکیلی اولاد کو الگ کر دیا…میں انہی کو ڈھونڈ رہا ہوں.وہ کہیں ملیں تو میں اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں….مگر لگتا ہے کہ میری قسمت مجھے یہ موقع نہیں دینا چاہتی…یہ کہہ کر صاحب کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ انہوں نے جلدی سے ایک ہاتھ سے جیب میں سے رومال نکالی اور دوسرے ہاتھ سے اپنا چشمہ اتاراور پھر اپنے آنسو پونچھنے لگتے ۔ کورٹ آگیا صاحب۔۔۔۔۔ شہاب الدین نے گاڑی رو کر کہا۔صاحب نے اپنی حالت درست کی اور کورٹ کے اندر چلے گئے۔
صاحب رات کو دیر سے اپنے گھر لوٹے۔ گیٹ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بڑھیا وہاں سے چلی گئی تھی ۔ وہ گاڑی سے اتر کر سیدھے اپنے مطالعہ کے کمرے میں چلے گئے،اور میز کے پاس کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر دائیں ہاتھ سے اپنے ماتھے کو سر جھکا کر رگڑنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مشکل کام کا حل نہ نکل رہا ہو۔ اسی پریشانی میں پندرہ دن نکل گئے۔ ایک روز صاحب گھر سے کورٹ کی اور نکل رہے تھے تو گیٹ کے پاس پہنچتے ہی اُن کی نظر چوکیدار کے ہاتھ میں ایک کتاب پر پڑی۔
گاڑی روک دو ۔۔۔۔۔۔۔۔صاحب نے تلملاتے ہوئے پھر سے کہا۔ شہاب۔۔۔! گاڑی روک دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ شہاب نے گاڑی روکی تو صاحب نے جلدی سے گاڑی سے اتر کر چوکیدار کے ہاتھ سے وہ کتاب چھین لی۔ اس کتاب کو بڑی ہڑبڑاہٹ میں آگے پیچھے اور کھول کر دیکھنے لگے۔
ہاں ۔۔۔! ہاں یہ وہی کتاب ہے ۔۔۔۔۔!چوکیدار کی اور نظر گھما کر دیکھا اور پوچھا یہ کتاب تمہیں کہاں سے ملی ۔۔۔۔۔۔؟ صاحب کی آواز میں گرج تھی اور آنکھوں میں بے بسی ۔ لگ رہا تھا جیسے کسی کھوئے ہوئے خزانے کی چابی ہاتھ آئی ہو، مگر تالا نہ مل رہا ہو۔
چوکیدار نے جلدی اندر سے ایک پوٹلی ہاتھ میں باہرلائی اور گیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، وہ بڑھیا جو یہاں بیٹھی تھی یہ اسی کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چلی گئی پر یہ پوٹلی یہاں پر ہی چھوڑ گئی اسی میں سے یہ کتاب نکلی۔
صاحب نے پوٹلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں کچھ پھٹے پرانے کپڑے تھے اور لفافے میں باندھے ہوئے کچھ کاغذات، جن کی لکھاوٹ پانی کی وجہ سے مٹ گئی تھی۔ ایک آدھ ٹکڑا بچ گیا تھا جس پر اولڈ ایج ہوم کا پتہ لکھا تھا اور کچھ نمبرات۔ صاحب نے جلدی سے شہاب کو اولڈ ہی ایج ہوم لے جانے کے لیے کہا۔
اولڈ ایج ہوم پہنچتے ہی صاحب وہاں کے دفتر میں ایک کلرک سے ملے۔ شہاب الدین ساتھ میں ہی چل رہا تھا ۔ صاحب نے کلرک سے اس بوڑھی عورت کے بارے میں دریافت کیا تو پہلے کلرک نے نا کیا۔ بعد میں جب صاحب نے وہ رسید دکھائی جو پوٹلی میں سے نکلی تھی تو کلرک نے کہا آپ تھوڑا انتظار کریں میں اندر سے فائل لے کر آتا ہوں۔
کلرک اندر چلا گیا اور صاحب بے قراری سے انتظار کر رہے تھے۔ وہ کمرے کی چاروں اور دیواروں کو دیکھ رہے تھے کہ وہاں پر کچھ تصویریں ٹنگی ہوئی تھیں اور کمرے میں ایک بڑی میز اور کچھ کرسیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ وہ بس انہی چیزوں کو تک رہے تھے۔ باہر دو بوڑھی عورتیں چلتے چلتے باتیں کر رہی تھیں۔ وہ دونوں اسی دفتر کے دروازے پر رُک گئیں۔ تو صاحب کی توجہ ان دونوں عورتوں کی باتوں پر چلی گئی۔ ایک نے کہا وہ بیچاری جب سے یہاں آئی تھی اس کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں تھا کیونکہ وہ کسی سے بات ہی نہیں کر رہی تھی۔ سنا تھا اس کا ایک بیٹا ہے۔ جو باہر ودیش پڑھنے کے لیے چلا گیا تھا پر وہ وہاں سے کبھی لوٹ کر ہی نہیں آیا۔ پھر اس کا شوہر بیمار پڑ گیا۔ کسی سے سنا تھا کہ اس نے اپنا مکان گروی رکھ دیا تھا تاکہ اس پیسے سے شوہر کا علاج کر سکے لیکن اس کا شوہر بچ نہ سکا اور اس کی موت ہو گئی۔ پھر مکان بھی ہاتھ سے نکل گیا کیونکہ وہ قرضہ ادا نہ کر سکی۔ اس کے بعد وہ کرائے کے مکان میں رہ رہی تھی لیکن وہاں سے بھی کرایہ نہ بھرنے کی صورت میں نکالی گئی، تب سے اس کو صدمہ لگ گیا تھا اور وہ کسی سے بات نہیں کر رہی تھی۔
دوسرے عورت نے پوچھا اچھا اب وہ کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔؟ اتنے میں کلرک فائل لے کر کمرے میں داخل ہو گیا۔
تو آپ جس کو ڈھونڈ رہے ہیں وہ اسی فائل میں درج ہے میں پتہ لکھ کے دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ کلرک نے کہا۔
صاحب پر ان بوڑھی عورتوں کی باتوں کا شدید اثر ہوا اور اُن کی آنکھیں نم ہو گئیں وہ کھڑے ہو گئےاور شہاب الدین کو پتہ لینے کے لیے کہا اور خود تیزی سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھے۔ وہ خود کے ساتھ بڑبڑھاتے ہوئے کہنے لگے، مجھ سے یہ کیا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ میں نے کتنا بڑا گناہ کیا اب میں کیا کروں گا ۔۔۔۔؟ اور اس کی آنکھوں سے آنسوں چھلکنے شروع ہو گئے۔ اپنے آنسوؤں کو پہنچتے ہوئے خود سے کہنے لگے کہ اگر اب چاہے وہ میری جان ہی نہ لے میں اس کے قدموں میں گر کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ کے ہی رہوں گا ۔
یہ کہہ کر اُن کے چہرے پر ایک اطمینان سا آگیا تھا کہ وہ جس کو اتنے دنوں سے ڈھونڈ رہا تھا وہ اُن کو مل گئی۔ بس اب اپنی معافی نامہ پر دستخط لینا باقی تھا۔ شہاب الدین گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی کو چلانے لگا۔
صاحب اپنی ہی یادوں میں گم تھا۔ وہ اپنی یادوں کی کتاب کے کچھ کاٹے ہوئے پنوں کو واپس جوڑ رہا تھا۔ وہ اپنے بچپن کے ان حسین لمحوں کو یاد کر رہا تھا جن کو اس نے بھلا ہی دیا تھا، جس میں اس کے والدین اس کی خوشی کے لیے کچھ بھی کر گزر جانے کے لیے تیار تھے اور جب وہ باہر پڑھائی کے لیے جا رہا تھا تو اس کو اپنے والدین کے اداس چہرے یاد آئے۔ اس کے والدین اسے بڑا افسر بنانا چاہتے تھے اس کی ماں اسے نام سے نہیں بلکہ میرا افسر بیٹا کہہ کر بلاتی تھی اور خود کو افسر بیٹے کی ماں بلایا کرتی تھی۔ یکا یک اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا ۔ اسے اپنی خود غرضی اور دولت کے نشے میں ڈوبا ہوا وہ بیٹا یاد آیا جس کو اس جھوٹی آن بان اور شان کے آگے اپنی غریب والدین کی بے لوث محبت و شفقت اور اتنے سالوں سے کی ہوئی محنت ، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو اس مقام تک پہنچانے کے لیے کی تھی ، وہ ساری پھیکی لگی۔
اس کو یاد آیا جب اس نے اپنے والدین سے آخری بار رابطہ کر کے کہا تھا کہ اس نے گھر نہ لوٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اب وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس نے کتنی بھی بڑی ڈگری حاصل کیوں نہ کی ہو وہ کتنا بھی بڑا آدمی کیوں نہ بن گیا ہو مگر اس نے اپنی زندگی کا بیش قیمتی سرمایہ خود اپنے ہاتھوں سے لُٹا دیا ۔
صاحب بہت دیر تک انہی خیالوں کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا اور گاڑی اپنی منزل کے آخری پڑاؤ کی اور جا رہی تھی ۔ اب صاحب سے انتظار بھی نہیں ہو رہا تھا کہ ایک سنسان سے راستے پر گاڑی رک گئی۔ کیا ہوا گاڑی کیوں روک دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ صاحب نے پوچھا ۔
صاحب پتہ یہیں کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ سے بائیں کی اور اشارہ کرتے ہوئے کہا، صاحب آپ اس راستے سے آگے جائیے میں گاڑی پارک کر کے پیچھے پیچھے آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ راستہ کچا تھا وہاں سے گاڑی نہیں جا سکتی تھی ۔
صاحب تھوڑی دیر اسی راستے پر چلتا رہا۔ وہ اپنی یادوں میں گم چلتا ہی جا رہا تھا۔ مگر آگے کچھ نہیں تھا وہ ایک قبرستان تھا ۔لاوارث قبرستان ۔ وہاں چاروں طرف قبریں ہی قبریں تھیں اس کے دل پر ایک دہشت سی بیٹھ گئی، ہم کیوں کر یہاں آئے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس نے پیچھے مڑتے ہوئے شہاب کو آواز دینی چاہیی مگر وہ سامنے والی قبر کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گیا۔ اس کی سانسیں رک گئی ، اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور اس کا دل ایک اذیت ناک درد سے پھٹنے کو تھا۔ کیونکہ اس قبر پر لکھا تھا افسر بیٹے کی ماں۔
���
حضرتبل، سرینگر،کشمیر
[email protected]