اگر کشمیر میں ترقی اور خوشحالی آئی ہے تو بھاجپا اپنے اُمیدوار میدان میں کیوں نہیں اُتارتی: عمر عبداللہ

یو این آئی

سرینگر// جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بدھ کے روز کہا کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں بہت ساری جماعتیں میدان میں ہونگی اور ہر کوئی جماعت یہاں کے عوام کی نمائندگی کرنے کے دعوے کرےگی۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے بھاجپا کو ایک بار نہیں بلکہ دو بار یہاں لاکر حکومت کرنے کا موقعہ فراہم کیا وہ بھی آج دوبارہ یہاں کے عوام کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کرنے فریبی نعرے دیں گے لیکن یہاں کے عوام کو ووٹ ڈالنے سے پہلے اس بات پر غور و فکر کرنا ہوگا کہ اگر وہ کسی جماعت کو ووٹ ڈالیں گے تو اس کا آگے جاکر کیا اثر پڑے گا۔
ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے آج اننت ناگ راجوری کیلئے پارٹی اُمیدوار میاں الطاف احمد کیلئے انتخابی مہم کے دوران لارنو کوکرناگ اننت ناگ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ ”اننت ناگ راجوری پارلیمانی حلقہ انتخاب کیلئے 7مئی ووٹ ڈالنے کا دن ہے، میدان اُمیدوار میں کئی سارے ہونگے، اس عرصے میں عوام کو سارے اُمیدواروں کو سُننا ہے، تولنا ہے ،پرکھنا ہے اور پھر فیصلہ کرنا ہے کہ سب سے بہترین اُمیدوار کون ہوسکتا ہے۔اس دوران طرح طرح کی باتیں ہونگی، طرح طرح کی سازشیں رچائی جائیں گی اور طرح طرح کے دعوے بھی کئے جائیں گے ۔
انہوں نے کہاکہ اس نشست پر اُمیدواں کی کوئی کمی نہیں ہے،لیکن اگر آپ تمام اُمیدواروں کی طرف دیکھیں گے، اُن کے کردار، بولنے کے انداز، لوگوں کیساتھ تال میل بنانے کے طریقے، اُن کیساتھ کون سے جماعت کھڑی ہے اور اُس جماعت نے ماضی میں یہاں کے عوام کیساتھ کیا سلوک کیا ہے، تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس حلقہ انتخاب کی نمائندگی کیلئے میاں الطاف احمد صاحب جیسا دوسرا اُمیدوار نہیں ہے۔ “
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اننت ناگ راجوری ایسی نشست ہے جو پہاڑ کے اُس پار بھی ہے اور اس پار بھی اور میاں الطاف احمد آپ کو واحد نمائندے ملیںگے جو دونوں طرف کے لوگوں کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس الیکشن میں ایک اور عجیب سی صورتحال بنی ہوئی ہے، ایک طرف بھاجپا والے دعوے کرتے ہیں کہ یہاں ترقی ہوئی، خوشحالی کا دور ہے، سب لوگ خوش ہیں، تعمیر و ترقی زوروں پر ہے، روزگار ہی روزگار ہے، کوئی ناراض نہیں ہے اور 5اگست2019کے بعد سب خوش ہیں لیکن پھر یہی بھاجپا والے یہاں اپنا اُمیدوار کھڑا نہیں کرتے ہیں بلکہ یہاں اپنی مقامی پراکسیوں کو میدان میں اتارنے اور گٹھ جوڑ کرانے میں مصروف ہے۔
میں بھاجپا سے پوچھتا ہوں، آپ کو دوسری جماعت کو مدد کرنے کی ضرورت کیوں پڑی، آپ وادی میں اپنے اُمیدوار میدان میں کیوں نہیں اُتار رہے ہیں؟ترن چُگ کو اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس میں اتحاد کرانے کی کیا مجبوری ہے؟
عمر عبداللہ نے عوام کو ہوشیار کیا اور کہا کہ بھاجپا وادی میں میدان میں نہیں ہے لیکن یہاں اُس کی پراکسیوں کو ووٹ ڈالنا بھاجپا کو ووٹ ڈالنے کے مترادف ہوگا اور اس کیلئے ہمیں اے، بی، سی اور ڈی ٹیموں کے حربوں میں نہیں آنا ہے۔
این سی نائب صدر نے کہا کہ گذشتہ دنوں وزیر اعظم نے ادھمپور میں تقریر کی اور کہا کہ دفعہ370کے خاتمے کے بعد اب جموں وکشمیر کا نیا مستقبل شروع ہوا ہے اور اس سے پہلے یہاں کوئی کام نہیں ہو اتھا۔
ہم اُن کو اپنے کام نہیں گنوائیں گے لیکن اتنا ضروری کہیں گے کہ دفعہ370کی بدولت ہی جموں وکشمیر کے عوام کو زمینوں پر مالکانہ حقوق حاصل ہوئے، اسی دفعہ کی بدولت ہی یہاں ملک میں غربت سب سے کم ہے، ہمارے یہاں پریشانیاںہیں لیکن 30سالہ خراب حالات اور ملی ٹنسی کے باوجود یہاں کوئی فاقہ کشی سے نہیں مرا، یہ سب کچھ دفعہ370کی دین ہے۔