داماد ِرسولؐ۔ حیدرِ کرّارؓ امیر المؤمنین

مجاہد عالم ندوی
آپ ؓکا نام علی ، کنیت ابو تراب اور ابو الحسن ، لقب حیدر اور خطاب امیر المؤمنین تھا ، آپؓ کے والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنتِ اسد تھا ، آپؓ، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے ، ہجرت سے اکیس سال قبل آپؓ کی ولادت ہوئی ۔ ابو طالب کثیر الاعیال تھے ، آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کا بوجھ کم کرنے کے خیال سے حضرت علی کو اپنی پرورش میں لے لیا ، جب آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا، اس وقت علی کی عمر آٹھ سال تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے حضور ؐ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو حیران ہوئے اور پوچھا ، ٫ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ٫ میں اللّٰہ تعالیٰ کا نبی ہوں ، تم بھی شرک چھوڑ کر اللّٰہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آؤ ٬ ۔
چنانچہ بچوں میں حضرت علی ؓسب سے پہلے مسلمان ہوئے ، انہوں نے نبی کریم ؐ کے ساتھ ہی رہنا شروع کر دیا ،اسلئےاب آپ ؓبھی نبی کریم ؐ کے ساتھ ہی اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے۔ جب اللّٰہ تعالی نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ اپنے رشتے داروں کو دین اسلام کی دعوت دیں تو حضرت علی ؓ ہی جا کر سب خاندان والوں کوبُلا کر لائے ، جب نبی کریم ؐ کو ہجرت کا حکم ملا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو سُلا دیا ، گویا جان کا خطرہ تھا لیکن حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بے مثال جرأت کا ثبوت دیا۔ جب دشمنوں نے حضور اکرمؐ کی جگہ حضرت علی ؓکو پایا تو کفِ افسوس ملتے رہ گئے ، اس کے بعد حضرت علیؓ تین روز تک مکہ میں رہے ۔نبی کریمؐ جن لوگوں کی امانتیں آپؓ کو لوٹانے کی غرض سے دے کر گئے تھے ، آپؓ نے وہ امانتیں لوگوں کو واپس کر دیں اور اس کے بعد آپؓ بھی مدینہ کو ہجرت کر گئے ، مسجد نبوی کی تعمیر میں آپ ؓبھی اینٹ اور گارا لا کر دیتے تھے ۔
حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نہایت بہادر تھے ، انہوں نے بے شمار جنگوں میں شرکت کی اور دشمنوں کو زیر کردیا ، آپؓ سب سے پہلے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور اسلام کے ایک زبردست دشمن ولید کو قتل کیا ، فتح کے بعد مال غنیمت سے حضرت علیؓ کو ایک زِرہ اور ایک تلوار ملی ۔
سن 2 ہجری میں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا نکاح نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ سے ہوا ، ان سے آپؓ کے دو صاحبزادے حضرت حسن اور حضرت حسین پیدا ہوئے ، یہ دونوں بھی دینی علم اور فراست میں اعلیٰ درجہ رکھتے تھے۔ نبی رحمتؐ اپنے ان نواسوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے ، حتیٰ کہ اگر نماز میں یہ بچے آ کر مخل ہوتے تو آپؐ ان کو کچھ نہ کہتے بلکہ پیار سے ان کو الگ کر دیتے تھے ۔
حضرت علیؓ شروع میں محنت مزدوری اور مال غنیمت پر گزارا کرتے تھے ، فتح خیبر کے بعد آپ کو جاگیر مل گئی ، حضرت عمر فاروق ؓ نے بدری ہونے کے سبب ان کا پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر کر دیا ، جب حضرت علیؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو بیت المال سے بقدر ضرورت وظیفہ لینے لگے۔ آپؓ کی تمام آمدنی فقراء اور مساکین پر خرچ ہوتی تھی ، خود سادہ رہتے اور روکھا پھیکا کھاتے تھے ، اورپیوند لگے کپڑے بھی پہن لیتے تھے ۔آپ ؓ نہایت صائب الرائے تھے ، حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ اکثر ان سے مشورہ لیتے تھے ، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی آپؓ کی اس خوبی کو پسند فرماتے تھے ، اسی وجہ سے آپ یمن کے قاضی مقرر کیے گئے اور بہترین قاضی ثابت ہوئے ۔ آپؓ نے جن مقدمات کا فیصلہ جس طرح کیا ،آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی ان کو ایسے ہی قائم رکھا ، آپؓ نے مقدمات کا فیصلہ کس طرح کیا ، اس کے لئےایک واقع درج ذیل ہیں ۔
مقدمہ یہ تھا کہ دو شخص کہیں جارہے تھے ، دونوں میں سے ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں جبکہ دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں ، جب کھانے کے لئے بیٹھے تو وہاں ایک تیسرا شخص بھی آ گیا ، دونوںنے مہمان نوازی کی روایت کے تحت اس شخص کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا ۔ اس شخص نے ان دونوں کو آٹھ درہم دیئے ، جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں، اس نے پانچ درہم اپنے پاس رکھے اور باقی تین اپنے ساتھی کو دے دئے جس کی تین روٹیاں تھیں ، لیکن وہ شخص اس تقسیم پر راضی نہ ہوا اور نصف درہم یعنی چار درہم طلب کیے۔ مقدمہ حضرت علیؓ کے سامنے پیش ہوا ، انہوں نے سارا ماجرا سن کر تین روٹی والے شخص سے کہا کہ تم اپنے ساتھی کی بات مان لو نفع میں رہو گے ، وہ شخص اس بات پر راضی نہ ہوا۔ آخر میں حضرت علیؓ نے فیصلہ کیا کہ جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں، اس کو سات درہم دئے جائیں اور جس کی تین روٹیاں تھیں، اُسے ایک درہم دیا جائے۔ اب تو وہ شخص ہکا بکا رہ گیا ۔ غور کیجیے یہ فیصلہ برحق کیسے ہوا ؟ حضرت علیؓ نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ ان دونوں نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ تینوں نے برابر روٹیاں کھائی ہیں ۔
حضرت علی ؓنے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ اگر ہر روٹی کے تین تین ٹکڑے کئے جائیں تو ہر شخص نے ایک روٹی میں سے ایک ٹکڑا کھایا ، کل آٹھ روٹیاں تھیں ، اس لیے کل چوبیس ٹکڑے ہوئے، اس طرح ہر شخص نے آٹھ آٹھ ٹکڑے کھائے ، جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں ان میں سے پندرہ ٹکڑے ہوئے، جن میں سے آٹھ ٹکڑے اس شخص نے کھائے ،باقی سات مہمان نے اور جس شخص کی تین روٹیاں تھیں ، ان میں سے نو ٹکڑے ہوئے جن میں سے آٹھ ٹکڑے اس شخص نے کھائے اور باقی بچا ایک ٹکڑا وہ مہمان نے کھایا ، لہٰذا پانچ روٹی والے شخص کے سات ٹکڑے مہمان نے کھائے، اس لیے سات درہم اس کو دئیے گئے ، جب کہ تین روٹی والے شخص کا ایک ٹکڑا ہی مہمان نے کھایا، اس لیے اس کو ایک درہم دیا گیا ، ہو گیا نا انصاف۔ حضرت علیؓ نے اپنی فہم و فراست سے بہت سے فیصلے کئے ۔ آپؓ اعلیٰ درجے کے مدبر اور منتظم بھی تھے ۔
(رابطہ : 8429816993)
[email protected]
������������������