! ہم باتوں کو خاطر میں لاتے ہی نہیں

ہمارے معاشرے کا ہر ذی ہوش فرد اس صورت حال سے بخوبی واقف ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ناجائز اور غیر قانونی دھندے،منشیات کا کاروبار ،نقلی ادویات کی فروخت ،ناجائز منافع خوری اور رشوت خوری کے رجحان میںکوئی کمی نہیں ہورہی ہے بلکہ جرائم کی وارداتوں کے ارتکاب میں بھی اضافہ ہورہا ہےجبکہ بعض ایسی وارداتیں بھی ہو رہی ہیں ،جن میںانسانی زندگیاں موت کے گھاٹ اُتاری جارہی ہیں۔ظاہر ہے کہ جرائم کی روک تھام کے ذمے دار محکموں میں پولیس کا ادارہ ساری دُنیا میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے لیکن ہمارے یہاں صورتحال اس حوالے سے زیادہ مختلف تو نظر آتی ہے اور نہ ہی محکمے میں فرض شناس افسروں اور اہلکاروں کی موجودگی سے انکار کیا جاسکتا جو انسداد جرائم کی مہمات میں اپنی زندگیاں دائو پر لگانے میں بالکل نہیںہچکچاتے ہیں،تاہم محکمہ میںموجود عملے کے بعض اہلکاران کا عمومی رویہ اس کے برخلاف بھی نظر آتا ہے، جس کے باعث عام تاثر یہی ہے کہ محکمہ پولیس کےافیسر اور اہلکاراپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوںکا سنجیدگی کے ساتھ مظاہرہ نہیں کررہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پائیدار طریقے پرجرائم پر قابو پاناناممکن بن جاتا ہے۔بے شک آج بھی اطراف و اکناف میںمنشیات کا استعمال کرنے والوں کی ٹولیاںگھوم پِھر رہی ہیں جبکہ ہسپتالوں میں زیر علاج نشیئوں کی صورت ِ حال دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہےکہ یہ کس معاشرے کے جوان بچے ہیں جو اس لعنت کا شکار ہوچکےہیںاور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر اپنے گھر والوں اور معاشرے کے لئے بوجھ بن بیٹھے ہیں۔گذشتہ روز یعنی 26جون کو منشیات کے خلاف عالمی دن کے موقے پر ہمارے یہاں بھی بیشتر تقاریب کا انعقاد ہو ا ،جن میںمنشیات کے استعمال کے مضر اثرات،ہونے والے نقصانات اورپیدا شدہ صورت حال کے ساتھ ساتھ اس کے تدارک کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور اس معاملے میں معاشرے کی غفلت اور والدین کے غیر ذمہ دارانہ رول کو اُجاگر کیا گیا اوراس طرح منشیات کے خلاف اس سا ل کا یہ عالمی دن ہر سال کی طرح اختتام پزیر ہوا۔تعجب کا مقام ہے کہ ایک ایک سال گذررہ ہے اور منشیات کا استعمال اور اس کا کاروبار بڑے پیمانے پر بڑھتا چلا جارہا ہے ۔اب جہاں یہ میٹھا زہر نوجوان نسل کے ایک بڑے حصے کی رَگ رَگ میں بس چکا ہے وہیں اب معاشرے کی نابالغ گُلوں کی رَگوں میں بھی یہ زہر ٹھنسنے کا عمل وسعت پارہا ہے،جس کے نتیجے میں معاشرے کے یہ گُل نوجوانی کی دہلیز تک پہنچنے سے پہلے ہی مُرجھا جاتے ہیں۔ دیکھا تو یہ بھی جارہا ہے کہ والدین کی یہ پیارےجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی قبل ہی اس غلیظ ماحول میں پڑ کےچلتی پھرتی لاشیں بن گئے ہیں۔طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں جس قدر نوجوان اور نابالغ نسل نشہ کی لَت میں پڑچکی ہے ، اُس سے کہیں زیادہ ہمارے یہاں منشیات فروشوں کی تعداد بڑھ رہی ہے،جس میں مردو زن دونوں شامل ہیں۔ وہ یہ زہر کس طرح نوجوان نسل کی نَس نَس میں بھر رہے ہیں،پولیس اس کی تہہ تک پہنچ نہیں پارہی ہے۔ منشیات فروشوں کے آلۂ کار مختلف آبادیوں اور مختلف علاقوں میں اَن پڑھ اور پڑھے لکھے نوجوانوں کومنشیات فراہم کررہے ہیں۔یہاں تک کہ شہر اور دیہات کے مختلف علاقوں میں واقع اسکولز اور کالجز کے باہر بھی منشیات مافیاکے کارندے طلباء و طالبات کو منشیات بہم پہنچا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔حقائق انتہائی کرب ناک اور دلوں کو دہلانے والے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو معاشی بحران اور مادہ پرستی کی دوڑ میں لگا کر شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ وہ اس ڈپریشن سے نکلنے کا واحد علاج جان لیوا اِس میٹھے زہر ہی کو سمجھتے ہیں، اِسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کے لئے ناجائز اقدام اٹھانے بھی نہیں ڈر رہے ہیں،یہاں تک کہ اپنے سگّے رشتوں اور رابطہ داروں کو ذہنی اور جسمانی طور نقصان پہنچانے میںنہیں ہچکچا تے ہیں۔منشیات کے کاروبار اور استعما ل کے خلاف پولیس کی روزانہ کاروائیوں کے باوجود یہ سلسلہ فروغ کیوں پارہا ہے ، سمجھ سے باہر ہے۔ظاہر ہے کہ جب تک منشیات کے بڑھنے کے اسباب و محرکات کو ختم کرنے کے لئےمعاشرے کا ہر طبقہ اپنا ذمہ دارانہ اور غیر منصفانہ کردارادا نہیں کرتا، تب تک اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔جبکہ ہماری روایت رہی ہے کہ ہم کسی بھی معاشرتی معاملے کے متعلق بہت کچھ سُنتے یا پڑھتے رہتے ہیں لیکن کبھی بھی اُن باتوں کو خاطر میں لانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں،جن پر عمل کرنے سے معاملہ سُلجھ جاتا۔اسی لئے ہر معاملے کی طرح یہ معاملہ بھی دن بہ دن پیچیدہ ہوتا چلا جارہا ہے۔