! ہمارےذہنی مریض اور ہماری کارکردگی

AL25-HAPPINESS A Danish study suggests that depression and unhappiness can inspire creativity. It appears that the most lasting inspiration for artists may come from the most difficult moments. Editable vector silhouette of a man sitting with his head in his hand with background made using a gradient mesh Uploaded by: Herron, Shaun

آج کے اس جدید دور میں طالب علم کو ہر لمحہ ہمہ جہت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جبکہ ہمارے ناقص امتحانی نظام کے تحت طلبہ و طالبات کے لئے سو فیصد نمبر حاصل کرنے کی فکر ہر لمحہ لاحق ہے ،جس سے طالب علموں پر شروع سے ہی ایک انجانہ پریشر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے بھی انسان کو ایک طرح سےجہاں تنہا کر دیا ہے وہیں نوجوان نسل کو درپیش مسائل کا دور نہ ہونا بھی اُس کی ذہنی صحت کے لئے خطرات کی وجہ بن رہا ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آج بھی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اکثرنفسیاتی امراض کو گھروں میں ہی دَبادیا جاتا ہے،یہ سوچھےسمجھے بغیر کہ دماغ کو لگنے والے مرض کا لازمی مطلب پاگل پن ہی نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ جیسے انسانی جسم کےباقی حصوں میں لگنے والے مرض یا زخم کی نوعیت کچھ اور ہو سکتی ہے لیکن دماغ چونکہ پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے ،لہٰذا اس میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔اس لئے ذہنی مسائل کو ہلکا لینے کی ہرگزکوئی گنجائش نہیں ہے۔مگر ہمارے معاشرے میںزیادہ تر ذہنی امراض کو زیادہ تر تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے متعلق بات کرنے سے بھی ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی ہے۔ یہ سمجھے بغیرکہ معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے نوجوان نسل کو کئی ایسے خطرناک ذہنی امراض کا سامنا ہے جو کسی بھی وقت جان لیوا ثابت ہوسکتےہیں۔عالمی ادارہ برائے ذہنی امراض کے مطابق انسان کو لاحق ہونے والے زیادہ تر دماغی امراض 24 سال کی عمر سے شروع ہو جاتے ہیں۔ ماہرین ِذہنی امراض کے مطابق، ماضی کے مقابلے اب ذہنی صحت کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، کیوں کہ اس تیز رفتار دور میں زندگی کی رفتار بھی بہت تیز ہوگئی ہے۔ اب لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ۔ویسے تو ذہنی امراض بہت قسم کے ہوتے ہیں لیکن دور ِحاضر میں ڈپریشن، بائی پولر ڈس آرڈر، جذباتی صدمات اور ڈرگ کا حد سے زیادہ استعمال کا شمار اُن ذہنی امراض میں کیا جارہا ہے،جن کا نشانہ بننے والے زیادہ تر وہ طلبہ و طالبات ہیں، جن پر نہ صرف اپنی پڑھائی کا بوجھ ہوتا ہے بلکہ وہ معاشی اور سماجی دباؤ کا بھی شکار ہوتے ہیں۔چنانچہ ہمارے یہاں کے تعلیمی ادارے بہتر اور مثبت نہیں ہیں ۔اساتذہ اور بالخصوص سپروائزر اُن کی مدد کرنے سے زیادہ دیگر سرگرمیوں میں اُلجھائے رکھتے ہیں۔ وہاں سے نکلیں تو اُن کےگھروں کا ماحول ایک اور دردِ سر ہے۔ گھریلو ناچاقیاں یا گھریلو جھگڑے زیادہ ہی اذیت ناک ہوتے ہیں کیوں کہ انہی کے باعث ذہنی تناؤ کے خطرات بڑھ جاتےہیں۔اگر والدین سمجھ دار ہیں تو قریبی رشتہ دار پریشانی کا باعث بنتےہیں۔اس حال میں بے چارہ طلاب کریںتو کیا کریں؟یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ذہنی قابلیت اور رجحان دیکھے بغیر خاندان میں طالب علموں کا آپس میں مقابلہ کیا جاتا ہے، ذہنی ٹارچر کیاجاتا ہے ،اگر کم نمبر آگئے تو لعن طعن کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ ذہنی الجھن کا شکار ہوکر وہ جو کرسکتےتھے، اُس کے قابل بھی نہیں رہتے۔ اس طرح اُن کی زندگی میں ترقی کا سفر رُک کر جمود کا باعث بن جاتا ہےاور یہی جمود رفتہ رفتہ اُن کی صلاحیتوں کے ساتھ اُن کی خوشیوں، خوابوں، رشتوں اور محبتوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر ذہنی مریض بنا کے کھوکھلا کر دیتے ہیںاور بعض اوقات خود کشی کا پیشِ خیمہ بھی بن جاتے ہیں۔اس لئے لازم ہے کہ ہم اپنے اور اِرد گرد کے پیاروں پر نظر رکھیںکہ کیوں ان کا طرزِ عمل بدل رہا ہے، وہ کیوں بُجھے بُجھے ہیں اور کیوں گم سُم رہتے ہیں،یہ باتیں بہت آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہیں اوراگر ایسا کچھ بھی ہے تو سمجھ لیجئے ہمارا پیارا مشکل میں ہے، اسے ہمارے مدد کی ضرورت ہے۔ جب آپ کو محسوس ہونے لگے کہ اُس میں ڈپریشن کی ابتدا ہو رہی ہے تواُس کے لئےہر طرح کی مددکرنے کی کوشش کریں،خاص طور پر اُس کے لئےدوستانہ اور سازگار ماحول پیدا کریں۔معاشرے کے ہر ذی ہوش فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اِرد گرد لوگوں میں خوشیاں اورمحبتیں بانٹیں ، جہاں کوئی اُداس چہرہ دیکھے،مُسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کریں ۔ اگرہم کسی کے راستے کے سارے کانٹے نہیںچُن سکتے لیکن جتنا ممکن ہو ،وہ توکر ہی سکتے ہیں۔