ہمارا معاشرہ ، ہماری ذمہ داریاںاور ہم

اس بات سےہمارےمعاشرے کا تقریباً ہر طبقہ اتفاق تو کرسکتا ہےمنجملہ طور پر موجودہ دور میں ہم ایک ایسے بحران سے جوجھ رہے ہیں، جہاں انسانی زندگی اجیرن بن چکی ہے اور کسی نہ کسی شکل میں درپیش ہمارے مسائل اور پریشانیوں میں اضافہ در اضافہ ہوتا جارہا ہے۔جن کے متعلق چاہے انفرادی طور یا اجتماعی طور پر اگرہم کوئی صدا بھی بلند کرتے رہتے ہیں تو ان کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آتا ہے ۔گویا ہم ہر معاملے میں ٹھوکریں کھا کھا کر ہی زندگی کے دن گذار رہے ہیں۔ ہمارے یہاںکسی بھی جماعت کی حکومت برسر اقتدار آئے اور کوئی بھی حکمران بن جائے،ہم اپنے روایتی طرز عمل کے تحت اُن کے لئے غیر فعال اور غیر ذمہ دار عوام بن کر خاموش تماشائی کا کردارنبھاتے چلے جارہے ہیں۔نہ اپنے مسائل اور پریشانیوں کا مداوا ڈھونڈنےکے لئے متحد ہوجاتے ہیں اور نہ ہی اپنے حقوق اور جائز مطالبات کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔اگر کسی کو اعلیٰ ایوانوں تک پہنچانے کی تگ و دَو بھی کرتے ہیں تو اس میں محض انفرادی مفاد و مقصد کارفرما ہوتا ہے،جس کے نتیجے میں نہ ہم اپنے معاشرے کا کچھ بھَلا کرپاتے ہیں،نہ فعال سماجی خدمت گار بنتے ہیں اور نہ ہی ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت فراہم کررہے ہیں۔حالانکہ باشعور عوام وہی ہوتے ہیں جو سماجی انقلاب برپا کرتے ہیں،جو تغیر کی فضا کو سازگار بناتے ہیںاور اپنے معاشرے کے مسائل اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے نبرو آزما رہ کر کسی بھی بحران کو ختم کرواتے ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف اشیاء پر لگائے جانے والے ٹیکس اور املاک ، پیشوں ، تعلیم رفاہ عامہ پرو صول کیے جانے والے ٹیکس کی شرح عوام کے حق میں نا معقول ہے۔ اس کا بوجھ برداشت کرنے کا ہمارا برسر روزگار ، نجی سرمایہ کار ، بے روزگار اور سب ہی افراد متحمل نہیں ہے۔ جن افراد کو کمائی کے کوئی ذرائع میسر نہیں، اُن کےلئے گھر ٹیکس ، روڈز ، روشنی وپانی ٹیکس کی ادائیگی مشکل ترین ہوچکی ہے ۔ پینے کا صاف شفاف پانی اور بجلی کی فراوانی دیہی اور شہری علاقوں میں مشکل ہو چکی ہے۔مہنگائی کے بحران نے ہمیں پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ متوسط طبقے کے افراد اور غرباء اس سے بہت بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اشیائے خورد نوش کے نرخوں میں روز افزوں اضافے کی وجہ سے عوام اشیاء ضروریہ کو خریدنے سے قاصر ہیں ،پھر بھی پیٹرول ایندھن ، LPG گیس ،بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کے سامان کی کے داموں میں بھی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ادویات اور شفا خانوں کے دیگر اشیاءکی خرید بھی تمام افراد کے لیے دشواری کا سبب بن چکی ہے۔ بنیادی و اعلیٰ تعلیم بھی عوام کے لیے مشکل بن چکی ہے۔ تعلیمی فیس کتابوں کے اخراجات ایک عام انسان کے لیے ہی نہیں بلکہ متوسط درجے و متمول طبقے کے لیے بھی مشکل ترین بن چکے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں مہنگائی کے اس بحران کی وجہ سے ہر شخص ،ہر طبقہ اور ہر فرد پریشان ہیں۔ اب ایک ہی سبیل ہمارے سامنے رہ چکی ہے کہ ہم متحد ہو کر اس بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روز افزوں قیمتوں کے اضافے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجائیں اور اس مہنگائی کو کسی نہ کسی طرح قابو میں لانے کے لئے سرکار پر زور ڈالیں تاکہ عوام اس بحران سے باہر نکلے اور ان کے لئے آسانیاں پیدا ہوسکیں۔ ایک جمہوری ملک میں اپنے جائز مطالبات کے لئے آواز اُٹھانےکی نہ صرف اجازت ہے بلکہ یہ ہمارا ایک آئینی حق بھی ہے۔ چنانچہ جن نمائندوں کو یہاں کے عوام نے ایوان بھیجا ہے ،اُن کے کانوں تک یہ آواز پہنچےتاکہ وہ یہاں کے حکام کی نا اہلی کو دور کروانے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔یاد رہے کہ جمہوری نظام میں عوام کی ساجھے داری ایک فیصلہ کن نتائج برآمد کرسکتی ہے اور نظام جمہوریت سےدوری عوام کو ملکی اثاثوں کے فوائد و ثمرات سے محروم کرسکتی ہے۔اس لئے اپنے مسائل کا مداوا ڈھونڈنا، اپنے پریشانیوں کا حل نکلوانا ، ہمارے جائز و آئینی حقوق کی تکمیل کروانا ہمارا اولین فرض ہےاورہمیں بحیثیت ایک بہترین وسرگرم شہری، بہترین و فعال سماجی خدمت گار، ایک ذمہ دار معاشرتی وملکی عوام بن کر ایوان میں بھیجے گئے ممبران پر بھی کڑی نگاہ ضروررکھنا چاہئے۔کیونکہ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی شاہ کلید عوام کے ہاتھوں میں ہی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایک ذمہ دار، سنجیدہ و متین شہری بن کر معاشرے وقوم کو استحکام بخش سکتے ہیںاور ملک وسماج میں رواداری اتحاد و اتفاق کے ماحول کو سازگار بنا سکتے ہیں۔