ہزاروں مستحق کنبے نئے راشن کارڈوں کی اجرائی میں سرکاری سرد مہری سے مایوس | مستحقین درجنوں سرکاری فلاحی سکیموں سے محروم نئے راشن کارڈروں کی اجرائی پر سرکاری بندش، حکم آنے کے بعد ہی نئے راشن کارڈ جاری کئے جاسکتے ہیں: حکام

محمد تسکین

بانہال // جموں و کشمیر کے باقی علاقوں کی طرح وادی چناب کے علاقوں میں ہزاروں مستحق افراد کو نئے راشن کارڈ اجراء نہ کئے جانے کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس پر کئی علاقوں میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے بھی کئے ہیں۔ اس معاملہ پر اگرچہ متعلقہ حکام میڈیا سے براہ راست کسی بھی قسم کی بات کرنے کیلئے راضی نہیں ہیں تاہم سرکار کی طرف محکمہ کے تحصیل اور ضلع حکام کو کہاگیا ہے کہ وہ 2011کی مردم شماری کے بعد والے کسی بھی کنبے کے حق میں نئے راشن کارڈ فراہم نہ کریں۔ پوری ریاست میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق راشن کارڈ اجراء کئے گئے ہیں لیکن 2011 کے بعد وجود میں آئے ہزاروں کنبے اس سہولیت سے محروم رکھے گئے ہیں اور انہیں آئندہ سالوں میں نئی سینسس تک مزید اور طویل انتظار کرنے کا کہا جا رہا ہے۔راشن کارڈ فراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے ہزاروں غریب لوگوں کو سرکاری راشن سٹوروں سے کم قیمت پر راشن خریدنے کے بجائے مارکیٹ سے اونچے داموں پر چاول ، آٹا اور کھانڈ خریدنا پڑ رہی ہے اور بیروزگاری اور مہنگائی کیوجہ سے لوگوں کی قوت خرید ختم ہے۔پچھلے کئی روز سے بانہال سمیت کئی علاقوں میں راشن کارڈ جاری کرنے کیلئے احتجاج اور مانگ کرنے والے مستحق افردا کا کہنا ہے کہ راشن کارڈ سے ہی لوگوں کو مختلف سرکاری سکیموں کا فائدہ ملتا ہے اور اس اہم دستاویز کے نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگوں زبردست پریشانی میں مبتلا ہیں اور لوگوں میں سرکار کے خلاف غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال نے غریب اور امیر تمام طرح کے لوگوں کو مایوس کر رکھا ہے کیونکہ راشن کارڈ اب حصول راشن تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ راشن کارڈ اور دستاویزات کیطرح ایک اہم دستاویز کے طور کام آتا ہے۔ محکمہ امور صارفین اور سرکار کی طرف سے نئے راشن کارڈ فراہم کرنے پر اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے رام بن کے مقامی سیاسی اور سماجی کارکن ایڈوکیٹ ارون سنگھ راجو نے کہا کہ 2011 عیسوی کی مردم شماری یا سینسس کے بعد سے ہزاروں لوگوں نے شادیاں کی ہیں ان کے الگ الگ کنبے وجود میں آئے ہیں اور ان بچے بھی ہیں لیکن انہیں راشن کارڈ کی سہولیت دستیاب نہ ہونے کیوجہ سے ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف سے سرکار کی طرف سے مستحق لوگوں کو مختلف سرکاری سکیموں سے مستفید ہونے کیلئے جہاں راشن کارڈ کو اہم دستاویز کے طور پیش کرنا ہوتا ہے وہیں دوسری طرف سے وادی چناب کے رام بن ، ڈوڈہ ، اور کشتواڑ اضلاع کے ہزاروں کنبے راشن کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مستحق اور خطہ افکاس سے نیچے زندگی بسر کرنے کے باوجود درجنوں سرکاری سکیموں کے حصول ، بچوں کیلئے تعلیمی سکالرشپ ، آھار کارڈ ، دیگر اسناد اور پرائم منسٹر آواس یوجنا کے تحت مفت مکانوں کو حاصل کرنے اور دیگر فلاح و بہبود والی مرکزی سرکار کی سکیموں سے محروم ہیں۔ ایڈوکیٹ ارن سنگھ راجو نے مزید کہا کہ راشن کارڈ کے بغیر زندگی جی رہے مستحق افراد کیلئے ایک لائحہ عمل بنایا جائے جس سے یہ لوگ سرکاری سکیموں سے مستفید ہوسکیں۔ کشمیر عظمی نے یہ تمام معاملہ محکمہ اْمور صارفین و عوامی تقسیم کاری کے حکام کی نوٹس میں لایا تو انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کشمیر عظمی کو بتایا کہ سرکار کی طرف سے 2011 کی مردم شماری کے بعد کسی بھی فرد کے حق میں نئے راشن کارڈوں کو اجرا کرنے پر مکمل روک لگائی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں سرکاری احکامات جاری ہونے کی صورت میں ہی نئے راشن کارڈس تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر میں محکمہ امور صارفین کے دفاتر میں ہزاروں لوگ نئے راشن کارڈ بنوانے کیلئے رابط کرتے ہیں لیکن نئے راشن کارڈ بنوانے کیلئے سرکاری احکامات کی صورت میں ہی اس پر کوئی عمل کیا جا سکتا ہے لہذا نئے راشن کارڈ کے حصول کے خواہشمند لوگ دفتروں اور ڈیلروں کے ہاس چکر کاٹنے کے بجائے تب تک انتظار کریں جب تک نہ اس بارے میں کوئی سرکاری حکم آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر 2011 عیسوی کی سینسس کے مطابق کوئی صارف راشن کارڈ کے حصول سے رہ گیا ہو تو اس کے حق میں راشن کارڈ جاری کیا جائیگا اور ایسے چھْٹے افراد کو محکمہ کے دفتروں سے رابط کرنا چاہئے۔