کھڑی ، رامسو ، اُکڑال ، رام بن ، راج گڑھ اور گول کے درجنوں دیہات سڑک رابطوں سے محروم | ہزاروں کی آبادی کٹھن اور دشوار گزار زندگی جینے پر مجبور لوگوںکابیشتر وقت پیدل سفر کرنے میں ضائع ،ضلع ترقیاتی کونسل پر پلان منظور کرنے میں ناانصافی برتنے کاالزام

محمد تسکین

بانہال// پہاڑی ضلع رام بن میں اگرچہ کئی دور دراز کے پہاڑی علاقوں تک سڑکیں پہنچائی گئی یا پہنچائی جارہی ہیں تاہم ابھی بھی رام بن ، رامسو ، بانہال اور گول کے سب ڈویژنوں میں پڑنے والے درجنوں دیہات اور پہاڑی علاقے ابھی تک سڑک رابطوں سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں ہزاروں لوگ آج بھی دشوار گزار اور کٹھن زندگی جینے پر مجبور ہیں اور ضلع ترقیاتی کونسل میں کئی اہم رابطہ سڑکیں ترجیح پر ہونے کے باوجود کونسل کے ذمہ داروں کی غیر منصفانہ کوشش کی وجہ سے سے حتمی منصوبے کا حصہ نہیںبن پائی ہیں۔ رام بن ضلع میں سڑک رابطوں سے منقطع علاقوں میں روزانہ کی ضروریات زندگی کا تمام سامان انسانوں اور خچروں کی پیٹھ پر ڈھویا جاتا ہے اور آج کل کے تیز رفتار دور میں سڑک رابطوں کا نہ ہونا معمول کی زندگی کو بْری طرح سے اثر انداز کر رہا ہے۔ سڑکوں سے محروم علاقوں کے کئی پنچایتی نمائندوں اور عام لوگوں نے کشمیر عظمی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب ڈویژن بانہال کی تحصیل کھڑی تحصیل کے پانچ گائوں سڑک کے بغیر ہیں جن میں کھوڑہ ، کنڈن، لبلٹھ ، دنگام اور گلسیر کے دیہات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رامسو سب ڈویژن میں آباد گگڑناگ ،اہمہ ، دردہی ، براڑ گڑی ، کھلن مرگ ، نرتھیال ، چکہ سربگھنی ، ورنال ، آکھرن کھڑی ، بزلہ ، تراگن ، رام بن کے برتنڈ ، گواڑی ، کمیت ، گاڑی ، جٹگلی اور ایدواہ جبکہ سب ڈویژن گول کی گاگرا ، ماسوا اور تتا پانی باسرا کی ایک درجن کے قریب پنچایتوں میں آباد لوگوں کیلئے سڑک رابطے نہ ہونے سے مریضوں کو پیٹھ پر لادھ کر ہسپتال پہنچانا اور سکولی بچوں کا روزانہ میلوں کا پیدل سفر طے کرکے سکول انا جانا زندگی کا حصہ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کھڑی کے بزلہ ، رامسو کے چکہ اور رام بن راج گڑھ کے برتنڈ کو جوڑنے کیلئے سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تھا لیکن بعد میں ان اہم سڑک منصوبوں کو چھوڑ ہی دیا گیا اور ان علاقوں میں لوگوں میں سڑک کی دیرینہ امیدیں حکام کی عدم توجہی کی وجہ سے دم توڑ گئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سڑک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے شاہراہ پر واقع مکرکوٹ کے مقام سے نوے ڈگری کی ایک کھڑی پہاڑی چڑھ کر آنے جانے کی وجہ سے اہمہ ، دردہی ، کھوڑا ، براڑ گڑی اور کھلن مرگ کے ہزاروں لوگوں کی زندگی مسلسل دشوار بنی ہوئی ہے اور ان علاقوں میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے بیماروں کو کندھوں اور چارپائیوں پر لانے اور لیجانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے جبکہ بجلی کے خراب ٹرانسفارمروں کو شاہراہ تک پہنچانے اور مرمت کے بعد واپس لانے کیلئے مقامی لوگوں کو اپنی مزدوری کے کئی اہم دن گنوانا پڑتے ہیں۔ پنچایتی نمائندوں اور مقامی لوگوں نے مزید بتایا کہ سب ڈویژن رامسو میں گگڑناگ کی بستی قریب دو ہزار لوگوں پر مشتمل ہے اور نیل کے پہاڑی سلسلے میں واقع گگڑ ناگ کی بستی کو جوڑنے کیلئے لیورا اور نیل سے سڑک کے دو میں سے ایک بھی منصوبے کو سالوں سے کوئی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے جبکہ لیورا سے گگڑناگ تک تین کومیٹر کا سڑک رابطہ ضلع ترقیاتی کونسل رام بن کے منصوبے میں ترجیح پر تھا لیکن بعد میں اس سڑک کا منصوبہ مبینہ طور پر ضلع کونسل کی ناانصافی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ رام بن اور ڈوڈہ کی سرحدوں پر واقع برتنڈ ، ٹھاٹھا ، ستھرا ، بدنی اور سرکنڈی کے علاقوں کو جوڑنے کیلئے پی ڈبلیو ڈی رام بن کی طرف سے دس سال پہلے قریب ایک سو میٹر لمبی سڑک بنا کر اس کی ابتداء کی گئی تھی لیکن بعد میں برتنڈ کی بھاری ابادی کیلئے یہ سڑک پروجیکٹ چھوڑ دیا گیا۔ ڈی ڈی سی کونسلر راج گڑھ محمد شفیع زرگر نے کشمیر عظمی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ تحصیل راج گڑھ کے کسی بھی گاوں کو ابھی تک سڑک رابطے کے ذریعے تحصیل ہیڈکواٹر سے جوڑا ہی نہیں گیا ہے جبکہ راج گڑ تحصیل میں گاندرا ، منگلہ ، پنچایت کمیت ، دھاندلہ ، ڈونگر ، سولی ، بادلہ ، پاسری ، پنچایت گاڑی شاکریال ، ملمن اور ترلی جیسے دیہات ابھی بھی سڑکوں کے بغیر ہیں اور یہاں کے ہزاروں لوگوں کی آدھی زندگی پیدل سفر میں ہی کٹ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈی ڈی سی کونسل کے قلیل فنڈس سے چند ایک سڑکوں کا کام شروع کیا گیا تھا لیکن محدود رقومات کی وجہ سے یہ سڑکیں چند ایک سو میٹر ہی بن پائی ہیں اور سڑکوں کو اپنی منزلوں تک پہنچانے کیلئے تعمیراتی محکموں کی طرف سے کسی بھی قسم کے مزید اقدامات اٹھائے نہیں گئے ہیں۔