کشمیر صوفیوں اور ولیوں کی سرزمین علاقہ کھاگ بے شمار ولیوں کا مسکن

بشیر اطہر

یہ ایک قابل حقیقت بات ہے کہ وادیٔ کشمیر میں صوفی ازم کا آغاز چودھویں صدی میں ہوا ہے اور اسی صدی میں پہلا صوفی بزرگ حضرت شرف الدین عبدالرحمٰن بُلبُل شاہ واردِ کشمیر ہوئے ۔ اُس وقت کشمیر کا حکمران صدرالدین شاہ(رینچن شاہ) تھا اور وہ بُلبُل شاہ صاحب کے مریدِ خاص تھے۔ آپؒ کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا اور بہت سارے بزرگ وقتاً فوقتاً وادی میں وارد ہوئے اور اپنے علوم و فیوض سے لوگوں کو فیضیاب کرتے رہے۔ جگہ جگہ خانقاہیں تعمیر کیں اور ان میں لوگوں کی تربیت کرنے لگے، یہ خانقاہیں جہاںدینی تعلیم دینے کےلئے استعمال کی جارہی تھیں وہیں ان میں لوگوں کو مختلف قسم کےہُنر و فنون سکھائے جارہے تھے۔ علم وفنون کو پھیلانے کےلئے صوفی بزرگوں کو کافی مشقت کرنا پڑی اور غاروں میں رہ کر تپسیا بھی کرلی ۔ وادی کشمیر کے ممتاز روحانی شخصیت شیخ نورالدین ولیؒ جموں و کشمیر کے روحانی بزرگوں میں سرفہرست ہیں ۔آپ ؒکے کئی خلفاء کے مرقد  وادی کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ اس مضمون میں اُنہی ولیوں کی ذکر ہے، جن کا مسکن کھاگ علاقے میں ہے
بابا لطیف الدین پوشکر:علمدارکشمیر شیخ نورالدین ولیؒ کے تیسرے خلیفہ بابا لطیف الدین قاضی ہیں۔ بابا لطیف الدین ،شام دؔید جس کو شام بی بی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بعد پوشکر کھاگ علاقے میں شیخ نورالدین ؒ کےشاگرد تھے، کمال کے بزرگ اور بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ اصلی نام اَدِت رینہ تھااور کشتواڈ مڑوہ کے راجہ تھے، وہیں سے واردِ کشمیرپوشکر ہو کرروحانی رہنما کی تلاش میں پوشکر پہنچے ،جہاں اُس وقت ولی کامل شیخ نورالدین نورانیؒ تشریف فرماتھے، اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور اپنی روحانی طلب داری سے شیخِ کامل کو آگاہ کیا۔شیخ نورالدین ولی ؒکے ایک ارشادنے اُن کی ساری حالت بدل ڈالی اور مشرف بہ اسلام ہوئے،پھر شیخ نورالدین ؒ کے باکمال شاگرد بن گئے۔ شیخ نورالدینؒ نے ان کا نام لطیف الدین رکھا۔ علمدار کشمیرؒ کے کہنے پر پہلے انہوں نے دودھ پتھری میں ایک عبادتگاہ تعمیر کی، وہیں عبادت کرتے رہے اور سبزی کے بدلے میں ایک خاص قسم کی ساگ جس کو کشمیری میں وَپل ہاکھ کہتے ہیں، سُکھا کر تناول کرتے رہے۔ اُن کے ساتھ وہاں بابا پیر بال اور شیخ ایشور اپنے مرشد شیخ نورالدین ؒ کے حکم سے شاملِ عبادت رہے،اس کے بعد پوشکر گاؤں میں واپس آکر گاؤں کی ایک پہاڑی’’گھڑیبل‘‘ کی چوٹی پر مراقبہ کرتے رہے اور وہیں پر آپ کا انتقال ہوا۔ جہاںآج اُن کے مزار پر ایک آستان بنا ہوا ہےاور صحن میں ایک مسجد بھی تعمیر ہوئی ہے، جس میں زائرین نماز ادا کرتے ہیں، سالانہ پھاگُن کی پانچویں تاریخ کو آپ کے مقبرے پر عرس منایا جاتا ہے۔
شمع دید:پوشکر علاقے کی ہی ایک خاتون جن کانام شمع دید تھااور لوگ انہیں شام بی بی سے پکارتے ہیں، کو شیخ العالم  ؒنے روحانیت سے متعارف کرایاتھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن شیخ نورالدین ؒوہاں سے گُزرتے تھے اور شام بی بی کے ہاتھ میں چاقو تھا، جس کے ذریعے سے وہ ایک جنگلی سبزی کاسنی (جس کو کشمیری میں ہَند کہتے ہیں) نکال رہی تھی، شیخ کامل نے انہیں ٹوکا اور کہا ،کیاآپ کو معلوم ہے کہ آپ زمین کے نیچے چُھپے کیڑوں کو مار رہی ہو ،تو جواب میں شام بی بی جو شیخ کامل ؒ کو نہیں جانتی تھی ، نے کہا کہ’’ اے بُوڑھے آپ کو معلوم ہے کہ آپ اپنے عصا سے ہزاروں کیڑے مکوڑوں کو کُچل رہے ہیں‘‘ تب سے شیخ نے عصا لینا چھوڑ دیا۔آپ پاکباز اورباکمال بزرگ خاتون تھیں ،ان کی روحانیت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اور کہتے ہیں کہ شمع دید نے بابا لطیف الدین ؒ کو شیخ نورالدین نورانیؒ کے روحانی مقام کی اطلاع دی۔ چنانچہ یہ شام کا وقت تھا، تو اُسی دن سے ان کا نام شام بی بی پڑ گیا، اُن کا مزار بھی اسی گاؤں کے قریب ہے۔
حضرت سید محمد سامری:کھاگ تحصیل سے قریباًسات کلو میٹر دور حبر گاؤں میں ایک چھوٹی سی چوٹی پرسید محمد سامری کا مرقد ہے، یہ بزرگ اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ یہاں تشریف آور ہوئےاورپھرانہیں مختلف علاقوں کےلئے بھیج دیا جبکہ اپنے ساتھ رکھنےکیلئے ایک نوجوان کو گود لیا، جنہوں نے کئی سال تک سید محمد سامری کی خدمت میں کی اور جوانی کے عالم میں ہی اُن کا انتقال ہوا ،اُس جوان کا مرقد خان پورہ میں ہےجو حبر کے قریب ایک گاؤں ہے۔ حضرت سامری نے حبر لاسی پورہ کے گھنے جنگلوں میں برسوں مراقبہ کرتے رہےاور وفات پائی اور حبر میں ہی مدفون ہیں۔
عبادتگاہ علمدار کشمیرؒ:یہ عبادتگاہ تحصیل ہیڈ کوارٹر سے تین کلومیٹر دورہمچی پورہ میں واقع ہے اور اس عبادتگاہ کو شیخ نورالدینؒ نے خود تعمیر کیا تھا اوراس میں برسوں عبادت کرتے رہے، اس عبادتگاہ میں وہ پتھر موجود ہے جس پر شیخ کامل نماز پڑھا کرتے تھے ،قریباً تیس سال قبل لوگوں نےاس عبادتگاہ کی سرِ نو تعمیر کےلئے کھدائی کی اور اُس پتھر کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی مگر وہ پتھر اتنا بڑا ہواکہ لوگوں میں خوف پیدا ہوگیا، وہاں دو اژدھا نمودار ہوئے اور ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے، بعد میں انہیں لوگ دودھ وغیرہ ڈالتے تھے۔ جب اس عبادتگاہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو وہ دونوں اژدہا غائب ہوگئے۔ اس عبادتگاہ کے قریب ایک غار بھی موجود ہے ،جس کو لوگ غارِ شیخ سے پکارتے ہیں جس کا  دہانہ آج بھی بند ہے۔ کہتے ہیں کہ اس غار کا دوسرا دہانہ چرار شریف سے نکلتا ہے اور شیخ کاملؒ اِسی غار کےذریعے سے اِس علاقے میں آیا کرتے تھے۔
آستان حضرت سید تاج الدینؒ:یہ آستان شریف اسکندرپورہ میں واقع ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جب آپ سُکھناگ پہنچے تو وہاں کافی دیر تک محوِعبادت رہے ،ایک دن انہوں نے سُکھناگ سے سفر کرنا شروع کیا اور کئی گاؤں عبور کرتے رہے ، سُکھناگ نالہ نے خاموشی سے آپ کا پیچھا کیا اور ملہ کول کے نام سے آج بھی یہ ندی موجود ہے جو بہت سارے گاؤں کو سیراب کرتی رہتی ہے۔ اسکندرپورہ پہنچ کر سید تاج الدین نے وہیں پر قیام کیا اور باقی زندگی وہیں پر گُزاری، اسکندرپورہ میں ہی ان کا انتقال ہوا اوروہیں پر ان کا مرقد بھی ہے۔ آپ ؒکی وفات کے بعد روحانی رہنمائی کے فرائض اُن کے بیٹے سید علاؤالدین نے انجام دیئے اور علاقے کے لوگوں کو تعلیم کے نور سے فیضیاب کرتے رہے، اُن کا مزار بھی اسکندرپورہ میں واقع ہے۔آستان سید محمد عرف سید حیدر :یہ آستان شریف ملہ پورہ کھاگ میں واقع ہے، ملہ پورہ تحصیل کھاگ کے مشرق کی طرف تین کلومیٹر کی دوری پر ہے ۔کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت سید تاج الدین جن کا مدفن اسکندرپورہ میں ہے، کے ساتھ یہاں تشریف لائے اور سید تاج الدین نے ان کو ملہ کول کی رکھوالی کےلئے تعینات کیا، ملہ کول اُن کے آستان سے گُزرتی ہے اور آستان کے قریب یہ ندی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے، ایک حصہ لولی پورہ اور ایک حصہ اسکندرپورہ جاتی ہے ۔سید محمد(سید حیدر) کو اسی لئے یہاں تعینات کیا تاکہ کوئی آکر یہاں اس ندی کے ساتھ چھیڑ خوانی نہ کرے۔ سید محمد نے اپنے مرشد کے کہنے پر یہاں برسوں ڈیرہ جمایا اور اپنی ساری زندگی عبادت وریاضت میں گُزاری ۔ آپ نے آخرت کےلئے یہیں سے رختِ سفرباندھ لیا اور اسی آستان میں دفن ہیں۔
شفاء ناگ کھئی پورہ:شفاء ناگ ایک چشمہ ہے،جو کھئی پورہ کھاگ میں واقع ہے۔ چشمہ کو کشمیری میں ناگ کہتے ہیں، اس چشمہ کےپانی میں بدبُو آتی ہے اور کئی لوگ اس کو پَھکہ ناگ یعنی بدبُو والا چشمہ بھی کہتے ہیں۔ یہ چشمہ بھی علمدار کشمیر شیخ نورالدینؒ سے منسوب ہے ۔کہتے ہیں کہ آپؒ نے یہاں قیام کیا اور نماز پڑھی۔ چونکہ اس علاقے کے لوگ جلدی بیماری میں مبتلا تھے، جب شیخ کو اس بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اپنے عصا کو زمین پر مارا ،جہاں سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا،جس کا پانی بدبودار تھا،لوگوں نے اس پانی کے بارے میں شیخ کامل سے استفسار کیا تو انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ یہ پانی انسانی جِلد کی بیماریوں کو دور کرتا ہے، تب سے آج تک یہ چشمہ جاری ہے اور لاکھوں لوگ اس کے پانی سے شفایاب ہوئے ہیں۔ آج بھی یہاں اتوار کے روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں اور اس چشمہ سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق جب پانی میں سلفر زیادہ ہوتا ہے تو اس پانی میں بدبُو آتی ہے، ایسا ہی ایک چشمہ توسہ میدان کی گھاٹی میں بھی رواں ہے اور یہ چشمہ اسی سے منسلک ہے۔ کھئی پورہ میں اس چشمہ کے ساتھ ہی ایک مسجد شریف ہے جو نئی تعمیر ہوئی ہے یہیں پر شیخ نورالدین ؒنے نماز پڑھی ہے۔
مرقدِنوروز بابا ریشی:نوروز بابا ریشی ؒ کا مرقد تحصیل ہیڈ کوارٹر کھاگ میں ایک پہاڑی کے دامن میں واقع ہے، نوروز بابا ریشی بجبہاڑہ علاقے سے زانیگام تشریف لائے تھے اور کسی کے گھر میں بحیثیت طلب دار کام کرتے تھے ۔ایک بار یوں ہوا کہ ایک بچہ نے دوسرے بچے کو مارا تو اس کی ماں نے روتے ہوئے بچے سے کہا کہ ابھی میں نوروز کو بلاکر اس کے کان کھینچوا لوں گی، یہی کہنا تھا کہ نوروز بابا اس بچے کو کان کھینچ کر اندر داخل ہوئے، اس پر وہ عورت حیران ہوئی ،وہ اس لئے کہ نوروز بابا اس دن کہیں دور سفر پر گئے تھے۔ اس کے بعد لوگوں میں یہ چرچا عام ہوا تو لوگ اس کے پاس آنے لگے جب لاگوں نے انہیں تنگ کیا تو نوروز بابا زانیگام سے نکل کر کھاگ کی طرف روانہ ہوئے ،جہاں انہوں نے اس پہاڑی پر پناہ لی ،یہاں انہوں نے کافی وقت عبادت میں گزارا اور آخر پر یہیں ان کا انتقال ہوا۔ آپ اپنے کئی احباب کے ساتھ اسی آستان شریف میں مدفن ہیں ۔ یہاں کےلوگوں کے مطابق آپ ریشی سلسلے کی آخری کڑی تھے۔آپ کی کرامات میں سے جو مشہور کرامت ہے وہ یہ کہ ایک دن ایک بیل بھاگ رہا تھا اور وہ کسی کی قابو نہیں آرہا تھا، نوروز بابا نے اس کو آواز دی تو اس بیل کا ایک سُم ایک پتھر میں بند ہوگیا اور وہ بیل قابو میں آگیا ، وہ پتھر آج بھی زیات گاہ کے ایک طرف موجود ہے اور اس پر سُم کا نشان بھی ہے۔باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جب یہاںآستان کی تعمیر شروع ہوئی تو انتظامیہ کے پاس جتنے پیسے تھے، سبھی خرچ ہوئے اور کام ادھورا رہ گیا۔ اُسی وقت وہاں ایک شخص تشریف لائے اور آستان کے اُدھورے کام کو جاری رکھنے کا حکم دیا، استفسار کرنے پر انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ مجھے اس زیارت گاہ کو تعمیر کرنے کا حکم چھ ماہ پہلے خواب میں ملا تھا، آج ڈھونڈ پایا ہوں،وہ کہاں پر واقع ہے۔ خواب میں جو جگہ دیکھی تھی وہ یہی جگہ ہے۔ انہوں نے ایک عالیشان عمارت تعمیر کروائی ،اس زیارت گاہ کے ساتھ ہی ساتھ ایک مسجد شریف بھی ہے جہاں زائرین نماز ادا کرتے ہیں۔ایک اور زیارت درنگ میں موجود ہےجہاں بابا نصیب الدین ؒنے کافی عرصے تک عبادت کی ہے ،وہاں ایک جھونپڑی ہوا کرتی تھی، زمانے کے نشیب وفراز کی وجہ وہ جھونپڑی اب موجود نہیں ہے ۔
ان زیارتگاہوں کے علاوہ بھی کھاگ علاقے میں بہت ساری زیارتیں موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ ترزیارات علمدار کشمیر شیخ نورالدینؒ سے ہی منسوب ہیں کیونکہ انہوں نے بہت سارا وقت اسی علاقے میں گزار کر جگہ جگہ عبادت کی ہے اور بعد میں لوگوں نے ان جگہوں کو علاقائی سطح پر زیبائش کرکے ان جگہوں کو محفوظ کیا ہے۔
(رابطہ۔7006259067)
[email protected]