کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:۱-چست لباس پہننے کا رجحان عام ہورہاہے ، خاص کر زین پینٹ،جس میں بیٹھ کر پیشاب پھیرنا مشکل ہوتاہے تو لوگ کھڑے ہو کر پیشاب پھیرتے ہیں ۔ اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
سوال:۲-متعدد لوگ پیشاب پھیرتے وقت اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جس طرف منہ کرکے وہ پیشاب کررہے ہیں کہیں اس طرف قبلہ تو نہیں ؟اس کے بارے میں کیا حکم ہے ۔
فاروق احمد خان …سرینگر

چست لباس کے بارے میں شرعی حکم
جواب:۱-ایسا تنگ لباس جس میں جسم کا حجم خاص کر ران اور سرین کا پورا نشیب وفراز ظاہر ہو یہ لباس غیر شرعی ہے۔اس غیر شرعی لباس کا ایک خطرناک نقصان یہ ہے کہ جب پیشاب کرنا ہو تو چونکہ سخت چست ہونے کی وجہ سے بیٹھنا مشکل ہوتاہے اس لئے کھڑے ہوکر ہی پیشاب پھیرنا پڑتاہے ۔ اب دیکھئے حدیث میں کیا ہے ۔
بخاری شریف میں حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوقبروں کے پاس سے گزرے۔ پھر آپ نے ان دونوں قبروالوں کے متعلق فرمایا ان کوعذاب ہورہاہے۔ایک کو اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا ۔کھڑے ہوکر پیشاب کرنے پر لازماً کپڑوں اور پائوں پر چھینٹیں آتی ہیں اور اس طرح وہ عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے۔
دوسری حدیث جو ترمذی میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے روایت کی کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جناب رسول اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے تو ہرگز یہ بات مت ماننا۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے ۔
حضرت علامہ انورشاہ نے فرمایا کھڑے ہو کرپیشاب کرنا کفار کا شعارہے ۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کا شعار اختیار کرکے کھڑے ہوکرپیشاب کریں۔

قبلہ رو ہوکرپیشاب پھیرنا حرام
جواب:۲- بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابودائود ، نسانی ، ابن ماجہ اور دوسری تقریباً تمام حدیث کی کتابوں میں ہے ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم غائط (پیشاب پاخانہ کی ضرورت پوری کرنے کی جگہ) میں جائو تو نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرنا اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرنا۔اس لئے جب گھروں میں یا دفتروں میں پیشاب خانے یا بیت الخلاء بنائے جائیں تو وہ شمالاً جنوباً بنائے جائیں تاکہ قبلہ کی طرف نہ تو منہ ہو جائے نہ پیٹھ ہو۔ اسی طرح جب کوئی کھلی جگہ پر پیشاب کرے تو قبلہ کی طرف نہ استقبال کرے نہ بیٹھ کر کرے۔حدیث کی ممانعت کی وجہ سے یہ حرام ہے اور شعائر اللہ کعبہ کی توہین کی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-بہت سارے نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں بہت بُرے بُرے خیالات آتے ہیں ۔ میرا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یہ خیالات اللہ کی ذات کے بارے میں ،حضرت نبی علیہ السلام کے متعلق ، ازواج مطہراتؓ کے متعلق ،قرآن کے متعلق ہوتے ہیں۔اُن خیالات کوزبان پر لانا بھی مشکل ہے ،اُن خیالات کو دفع کرنے کے جتنی بھی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی وہ دل میں ،دماغ میں مسلط ہوتے ہیں ۔اب کیا یا جائے ؟
کامران شوکت ۔ سرینگر

بُرے خیالات:
شیطان وہیں حملہ کرتاہےجہاں ایمان کی دولت ہو
جواب:۱-بُرے خیالات آنا دراصل شیطان کا حملہ ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابیؓ نے یہی صورتحال عرض کرکے کہاکہ یا رسول اللہ ؐ میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر میں اُن کو ظاہر کروں تو آپؐ ہم کو کافر یا منافق قرار دیں گے ۔اس پر حضرت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ واقعتاً تمہارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ایسے خیالات آتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایمان کی علامت ہے ۔ عرض کیا گیا کیسے ؟تو ارشاد فرمایاچور وہاں ہی آتاہے کہ جہاں مال ہوتاہے ۔ جب ایسےبُرے خیال آئیں تو باربار استغفار اور لاحول پڑھنے کا اہتمام کریں اور اپنے آپ کو مطمئن رکھیں کہ یہ آپ کا اپنا خیال ہے ہی نہیں ۔ آپ کاخیال تو وہ ہے جو آپ کی پسند کے مطابق ہو ۔ یہ خیال آپ کو نہ پسند ہے نہ قبول ہے تو اس کا وبال بھی آپ کے سر پر نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-کفن کے متعلق یہ بتایا جاتاہے کہ مردوں کے لئے تین اور عورتوں کیلئے پانچ کپڑے ہونے چاہئیں۔ ان تین میں ایک قمیص اور ایک ازار ہوتا ہے۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ قمیص اور ازار سلائی کرکے استعمال کرنا ہے یا اس کے بغیر ہی استعمال کرنا ہے۔ حضرت نبی علیہ السلام کا کفن مبارک سلا ہوا تھا یا بغیر سلا تھا ؟ یہاں کشمیر کے کچھ علاقوں میں کٹائی او رسلائی کرکے ازار بنایا جاتاہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں ؟
غلام نبی ۔ وسن کنگن

کفن کی سلائی کرنا غیر مسنون
جواب:-کفن درحقیقت کوئی لباس نہیں جس کو سلائی کرکے مردے کو پہنایا جائے ۔ یہ دراصل تین چادریں ہیں جن کے نام لفافہ ، قمیص اور ازار ہیں ۔اس قمیص اور ازار کے لفظ سے یہ دھوکہ نہیں لگنا چاہئے کہ یہ کوئی سلے ہوئے کرتے یا پاجامہ کا نام ہے ۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چادروں میں کفن دیا گیا تھا اور وہ تینوں سلے ہوئے نہ تھے۔
ان تین چادروں کی تفصیل یہ ہے :
لفافہ یعنی بڑی چادر …
پونے تین گزلمبی ،ڈیڑھ گز چوڑی
چھوٹی چادر قمیص …
ڈھائی گزلمبی سواگز یا ڈیڑھ گز چوڑی
تیسری چادر ازار…
دویا ڈھائی گز لمبی سوا گزیا ڈیڑھ گز چوڑی
دراصل لفظ قمیص اور لفظ ازار سے کچھ لوگوں کو یہ دھوکہ ہوتاہے کہ یہ سلے ہوئے ہوں گے تب ہی قمیص وازار کہلائیں گے ۔حالانکہ ان کپڑوں کے سلے ہوئے یا غیر سلے ہوئے ہونے کا فیصلہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل سے کیا جائے اورپھر آپؐ کے بعد حضرات صحابہؓ اور اس کے بعد پوری اُمت کے اجتماعی طریقہ کار سے کیا جائے ۔بہرحال کفن بے سلا ہوا ہونا ہی سنت ہے ۔اس لئے کہ سیرت اور احادیث کی کتابوں سے یہی ثابت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کفن مبارک یمن کے شہر بحون کی تین چادریں تھیں۔ جوسفیددھاری دار تھیں اور بغیر سلی ہوئی تھیں۔ملاحظہ ہو بخاری (کفن کا بیان)۔
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کفن تین لمبی چادریں تھیں۔ نیزمختصر سیرت رسول، الرحیق المختوم اور سیرت مصطفی از مولانا ادریس کاندھلویؒ۔ نیززادالمعاد از علامہ ابن قیم ؒ وغیرہ میں یہی مرقوم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱۔ ایک شخص کی وفات ہوگئی، اس کے ذمہ لوگوں کا قرضہ بھی ہے اور وارث بھی ہیں۔ اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد صرف اتنی ہے یا تو قرضہ ادا ہوگا یا اس کے وارثوں کو وراثت کے طور پر دیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے وارثوں کو وراثت دی جائے یا قرض داروں کو قرض دیا جائے؟
سوال :۲۔اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیاہو اور وہ مر جائے تو اس کی بیوی کو وراثت ملے گی یا مہر ملے گا یا دونوں چیزیں؟
یاسمین جان…سرینگر

وراثت کی تقسیم سے پہلے قرض کی ادائیگی ضروری
جواب:۱ -وفات پانے والے شخص کے ذمہ اگر قرض ہے تو پہلے قرض ادا کرنا لازم ہے اور اگر وارثوں کو وراثت میں لینے کے لئے کچھ نہ بچے اور سارا مال قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو جائے تو یہی کرنا ضروری ہے۔ وارثوں کو حق وراثت قرض کی ادائیگی سے پہلے نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے وارثوں کے حصے جہاں بیان کئے ہیں وہاں جگہ جگہ یہی کہا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے بعد یہ حصہ وراثت وارث کو دیا جائے۔بہرحال قرض مقدم ہے اور وراثت میں حصہ لینا اس کے بعد ہے۔
جواب: ۲۔ جس عورت کا مہر باقی ہو اسے اپنے شوہر کی جائیداد سے مہر لینے کا بھی حق ہے اور وراثت لینے کا بھی حق ہے اور یہ دونوں چیز لینا اس کا شرعی حق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-چند بھائی اکٹھے کاروبار کرتے ہیں اور ہرایک بھائی ماہانہ یکساں رقم خرچے کے لئے اٹھاتاہے ۔ کچھ بھائیوں کا اس رقم سے اچھی طرح گزر بسر ہوتاہے جب کہ کچھ بھائیوں کا گزارہ مشکل ہوجاتاہے حتیٰ کہ بیمار کے لئے دوا ئی وغیرہ خریدنے کے لئے بھی قرضہ لینا پڑتاہے اور کھانے پینے اور پہننے میں نہایت سادگی اپنانے کے بعد بھی علاج کے لئے مقروض ہوناپڑتاہے ۔ کیا شریعت میں اس چیز کا کوئی حل موجود ہے کہ مشترکہ کاروبار کے ہوتے ہوئے عیال دار بھائی کو چھوٹ ملے جس سے وہ بھی زندگی کے دن خوشحالی سے گزار سکے ۔
ایک سائیل۔ منہ گام،کشمیر

مشترکہ کاروبار سے خرچہ اُٹھانے کا معاملہ
جواب:-مشترکہ خاندان میں متعدد برادران ایک ساتھ رہائش پذیر ہوں تو جس بھائی کے خرچے زیادہ اور آمدنی ناکافی ہو تو دوسرے بھائیوں پریہ اسلامی فریضہ ہے کہ وہ صلہ رحمی کریں ، حق قرابت اور اخوت نسبتی ودینی کی رعایت کرتے ہوئے اُس پر کم سے کم بار ڈالیں اور جب عیال کثیر کی بناء پر اُس کومقروض ہوناپڑتاہے تو دوسرے بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ اس صورتحال میں تعاون اور اعانت کا روّیہ اپنائیں ۔حتیٰ کہ اگراُس کے قرضہ کی ادائیگی میں اس کو صدقہ دیں تو یہ بھی درست ہے۔گھر کے خرچے کے لئے مساوی رقم لینے پر اگر کسی بھائی کو واقعتاً بارپڑتاہے تو یا تو اس سے خرچہ کم لیں اور یا اس کے انفرادی خرچے مثلاً علاج ،تعلیم،کپڑے وغیرہ کے لئے اپنی مخصوص رقم سے مدد کریں ۔ اس طرح قرآنی حکم کے مطابق ذوی القربیٰ کا حق بھی ادا ہوگا اور صلہ رحمی کا حکم بھی پوراہوگااور یہ بھائی اور اس کے عیال اُن کا احسان مند ہوکر ان کے ساتھ اخلاقی طور پر معاون ومددگاربھی ہوگا۔