کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال :-کفروشرک کیا ہے ۔ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کچھ اقسام ہوتی تو ان کو ضروری تفصیل وتحقیق سے تحریر کریں ۔
شرک اور اس کی اقسام
محمداعظم ملک …جموں
جواب:-شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں یااُس کی صفات میں کسی بھی مخلوق کو اس کا شریک ، مثیل، نظیر یا مماثل مانا جائے ۔ اور کفر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا یا اُس کی کسی لازمی صفت کا سرے سے ہی انکار کردیاجائے ۔
اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور ذات کو بھی ماننا شرک فی الذات ہے ۔ اللہ کی مخصوص صفات میں سے کسی صفت کو کسی مخلوق کے حق میں تسلیم کرنا یہ شرک فی الصفات ہے ۔مثلاً کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ جیسے اللہ اپنی ذات کے اعتبارسے زندہ ہے اور جیسی غیر فانی زندگی اُسے حاصل ہے یا جیسے اس کی حیات کسی کی محتاج نہیں اسی طرح مخلوق میں سے کسی کی زندگی اور حیات بھی ایسی ہی ہے ۔تو یہ شرک فی الحیات ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ جیسے اللہ کی ذات کو اس کائنات کے ذرّہ ذرّہ کا علم ہے اور ہر آن اپنی ہر ہر قوم کی ہرہرحالت سے بغیر کسی ذریعہ علم کے وہ واقف ہے ۔ یہ ذات و کلّی صفت علم کسی اور مخلوق کو بھی حاصل تھی تو یہ شرک فی العلم ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی یہ عقیدہ اپنائے کہ جیسا اللہ تعالیٰ کو ہر ہرمخلوق کی ہر ہرحالت کو ہر وقت دیکھنے اور اس کی ہر ہر آہٹ سننے کی قوت ہے ۔ اس کو اپنی سمع وبصر میں نہ وسائل وآلات کی حاجت ہے اور نہ ہی اس کی یہ صفت کسی حد بندی یا رکاوٹ کو قبول کرتی ہے ،ایسی ہی قوت سماعت بنا قوت بصارت کسی مخلوق کو بھی حاصل ہے تو شرک فی السمع اور شرک فی البصر کہلاتاہے ۔
اگرکوئی شخص یہ سمجھے کہ جیسے اللہ کو نفع ونقصان پہنچانے کی مکمل قدرت حاصل ہے او ر وہ اپنی اس قدرت میں کسی کامحتاج نہیں ہے ایسی ہی صفت قدرت یا کچھ عطا کرنے یا نہ دینے پر قادر ہونے کی صفت اللہ کے علاوہ کسی او رذات کے اندر بھی تھی یا ہے تو شرک فی القدرت ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جیسے عبادت اللہ کے لئے ہوتی ہے اسی طرح کسی مخلوق کی بھی ہوسکتی ہے ۔اس لئے اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کو سجدہ کرنا ، کعبۃ اللہ کے علاوہ کسی اور جگہ کا طواف کرنا ،اللہ کے علاوہ کسی اور کے تقرب کے لئے جانور ذبح کرنا ،اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے تعبد وتقرب کی نیت سے جھکنا، یہ سب شرک فی العبادۃ ہے ۔
اسی کو شرک العبودیت یا شرک فی الالوہیت بھی کہتے ہیں ۔
اسی طرح ایک شرک او ربھی ہے او ر وہ شرک فی الحکم ہے ۔ یعنی کسی مخلوق کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کو بھی یہ حق ہے کہ وہ کسی چیز کو حلال کرے یا حرام کرے یا اس کو بھی یہ اختیار ہے کہ وہ کسی چیز کو عبادت قرار دے یا کسی کام کو گناہ کے زمرے میں رکھے یعنی انسانوں کے لئے حلال وحرام ، جائز وناجائز قراردینے کا اختیار جو اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے وہ کسی مخلوق کی طرف منتقل کریں تو یہ شرک فی الحکم ہے ۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پرا رشاد ہے کہ خبردار سن لو ۔کائنات کی ہر ہر چیز کی تخلیق صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔اسی طرح کائنات میں ہر ہر مخلوق کے لئے ہر ہر فعل او رہر ہر عمل کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق واختیار بھی صرف اسی کے لئے مخصوص ہے ۔
پھر شرک کی دوقسمیں ہیں ۔ شرک اکبر ۔ یہ وہ شرک ہے جس کے نتیجے میں انسان ایمان سے محروم ہو جاتاہے ۔ اس لئے کہ اگرچہ اللہ کی ذات کا انکار نہیںپایا جاتا مگر اللہ کی ذات کے ساتھ ایک غیر اللہ کو شریک ٹھہرایا جاتاہے اور یہ توحید کے سراسر منافی ہے ۔اس شرک میں انسان اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کو معبود یا مسجود یا رازق وغیرہ قرار دیتاہے ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کا غلط ہونا واضح ہواہے ۔تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا ابتداء شرک کی نفی اور توحید کی تخم ریزی سے ہوتی تھی اور خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سب سے پہلے اعلان توحید اور نفی شرک کا ہی کیا تھا ۔اس کو شرک اکبر کہاجاتاہے ۔
دوسرا شرک اصغر کہلاتاہے ۔ یہ وہ شر ک ہے جو شرک تو ہے مگر وہ مومن کو ایمان سے خارج نہیں کرتا ہے جیسے حدیث میں ارشاد ہے کہ تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے ۔
یاحدیث میں ارشاد ہے جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائی اُس نے شرک کیا یا جس نے مشرکانہ تعویذ گنڈا لٹکایا اُس نے شرک کیا ۔اس قسم کے شرک کو شرکِ اصغر کہتے ہیں یعنی اس قسم کے شرک کاارتکاب بہت قبیح ہے مگر ایسا شخص خارج ایمان نہیں ہوتا ۔
امام بخاری ؒ نے ان دونوں قسموں کے متعلق اشارہ کرنے او ران کے درمیان فرق کرنے کے لئے یہ عنوان لگایا ہے ۔کفردون کفراس سے ماخوذیہ جملہ بھی ہے ۔ شرک دون شرک اور اس کا مفہوم وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-میں نے سناہے کہ جب ایک بار کسی جگہ مسجد بنائی جاتی ہے تو وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے لیکن بہت سی جگہوں پر سڑکوں کی کشادگی کی زد میں مساجد آتی ہیںجو کہ اٹھانی ضروری ہوتی ہیں،تبھی کشادہ روڑ بن سکتا ہے اور لوگ بھی اس کے لئے تیار ہوتے ہیں۔عام لوگ یہاں تک کہ خاص،جن میں انتظامیہ کمیٹیاں بھی شامل ہیں،وہ بھی اس حوالے سے شریعت کے احکام کے بارے میں نہیں جانتے اور مسجدوں کے متولی حضرات تو نئی مسجدیں بنانے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔
سوال:۲-سردیوں کے ایام میں مسجدوں میں Halogen Heater گرمی کے لئے لگائے جاتے ہیںجوکہ صفوں کے آگے رکھے جاتے ہیں ۔ کیا ان کے سامنے رکھنے سے نماز میں کچھ فرق واقع ہوتاہے۔ کیونکہ ہم نے سناہے کہ انگڑی یا آگ کے سامنے بھی نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
ابن امین ۔سرینگر
سڑک کی کشادگی اور مسجد
جواب:۱-شریعت اسلامیہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جہاں ایک مرتبہ مسجد بن گئی وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہی ہے ۔ اسلامک فقہ اکیڈیمی کے سمینار میں تمام مکاتب فکر کے علماء کافیصلہ جو اسی طرح کی صورت کی بناء پر پیش کیا گیا ، وہ یہ ہے :
مساجد کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر بالکل واضح ہے او راس پر جمہوراُمت کا اتفاق ہے کہ جس مقام پر ایک بار مسجد بنادی گئی ، وہ قیامت تک کے لئے مسجد ہے ۔ اب نہ اُس کی خرید وفروخت ہوسکتی ہے نہ وہ خطہ ارض کسی اور کو ہبہ کیا جاسکتاہے اور نہ کوئی شخص یا حکومت اس کی حیثیت کو تبدیل کرسکتی ہے ۔
مسجد دراصل وہ حصۂ زمین ہے جسے ایک دفعہ مسجد کے لئے وقف کردیا گیا ہو ۔ مسجد درودیوار اور مسجد میں استعمال ہونے والے تعمیری سامان کا نام نہیں ۔ اس لئے اگر مسجد کی عمارت منہدم ہوجائے یا اُس کو ظلماً منہدم کردیا جائے یا کسی وجہ سے طویل عرصہ تک وہاں نماز نہ پڑھی جائے تب بھی وہ مسجد باقی رہتی ہے اور مسلمانوں پر اس کو دوبارہ آباد کرنا شرعاً واجب ہے ۔ نئے مسائل اورفقہ اکیڈیمی کے فیصلے صفحہ39اسلام کے اس اصول کی روشنی میں جہاں سڑک کے اندر مسجد آئے وہاں دوسری طرف سے سڑک کی توسیع کا کام کیا جائے اور مسجد کو جوں کا توں برقرار رکھ کر آباد کیا جائے۔ اسی اصولی کی بناء پر بڑی بڑی شاہراہوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور تجارتی مراکز میں مساجد قائم ہیں اگرچہ وہاں غیر مسلم حکومتیں بھی ہیں ۔
چنانچہ نئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن کے درمیان مسجد کھڑی ہے اور آباد ہے اور اسی طرح کتنے ہی شہروں کی شاہراہوں کے درمیان میں مساجد قائم ہیں او رسڑک کی توسیع کی واقعی ضرورت کے باوجود اُن کو شہید نہیں کیا گیا ۔
جواب:۲-مساجد میں گرمی کی ضرورت کے لئے اگر نمازی کے آگے گرمی دینے والے ہیٹر ،چاہے وہ کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو،رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
دراصل مجوسی قوم کے کچھ طبقے جو آتش پرست کہلاتے ہیں ، وہ آگ کی پوجا پاٹ ضرور کرتے ہیں مگر وہ آگ جب بھڑکتی ہوئی ہو اور شعلہ زن ہو ۔اگر صرف انگارے ہوں یا راکھ کے نیچے آگ ہو جیسے کانگڑی یا فرش کے نیچے آگ ہو جیسے صفّہ (حمام)یا سامنے گرمی دینے والا بجلی کا ہیٹر ہو تو اس میں مجوس کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں ہے۔ اس لئے اُس کو سامنے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-فرائض نماز میں سلام پھیرنے کے فوراً بعد کچھ لوگ اللہ اکبر پڑھتے ہیں او رکچھ لوگ استغفراللہ پڑھتے ہیں ۔
مہربانی کرکے جمعہ ایڈیشن میں اس کی وضاحت کریں ۔ عام لوگوں کے لئے بہترکیاہے اور کیا کرنا چاہئے جبکہ نوجوان طبقہ اس بات سے باخبرہوناچاہئے اور عام مساجد میں خاص کر حنفی مساجد میں ایک طریقہ رائج ہو جائے تو کتنابہتر ہے۔
ابوعمران،چھان پورہ ، سرینگر
نماز کے بعد مسنون اذکار
جواب:نماز کی سلام پھیرنے کے بعد یہ دعائیں مسنون ہیں ۔ کلمہ استغفراللہ تین مرتبہ پھر اللہم انت السلام…الخ ۔ یہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے ۔ کلمہ توحید اور پھر اللہم لا مانع…الخ۔ یہ بخاری ومسلم میں ہے۔ آیت الکرسی ۔اس کے متعلق ابودائود میں حدیث ہے کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے اُس کے دخولِ جنت میں صرف مرنے کی دیر ہے ۔
تسبیح فاطمہ یعنی سبحان اللہ 33بار ،الحمد للہ 33بار، اللہ اکبر 33بار اور پھر کلمہ توحید ایک بار ۔یہ مسلم شریف میں ہے اور دوسری حدیث میں اللہ اکبر 34بارہے ۔
جب کہ بخاری کی ایک روایت میں دس دس بار اور مسلم کی حدیث میں گیارہ گیارہ مرتبہ ہے ۔
نماز سے فراغت پر کلمہ اللہ اکبر پڑھنا حضرت نبی کریم علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے ۔ بس ایک حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس سے بخاری شریف میں مروی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں تکبیر سن کر سمجھ لیتا تھاکہ نماز ختم ہوگئی ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سلام کے بعد اونچی آواز میں اللہ اکبر پڑھنے کا معمول تھا؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں ۔ چنانچہ اس حدیث کی شرح میں کسی نے بھی نہیں لکھاکہ نماز کے بعد اللہ اکبر پڑھنا مسنون ہے اسی لئے دورِ صحابہ سے آج تک حرمین میں بھی اس پر عمل نہیں پایا گیا کہ سلام کے بعد جہراً اللہ اکبر پڑھیں ۔
جواذکار نماز کے بعد پڑھنے مسنون ہیں اُن کے متعلق احادیث میں ثبوت موجود ہیں ۔اختصار کے ساتھ اوپر حوالے بھی درج کردئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :اگرکسی عورت کی طلاق ہوجائے تو طلاق کے بعد بچوں کی تعلیم وتربیت اور کفالت کس کے ذمہ ہے ۔ اگربچے شیر خوار ہوں تو کیا اس صورت میں عورت بچے کو اپنے پاس رکھنے کا تقاضا کرسکتی ہے ۔ اگر مرد اس پر رضامند نہ ہو تو اس صورت میں بچوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ۔ اگر بچے پرورش کے لئے ماں کے حوالے کئے جائیں تو کیا اس صورت میں بچوں کی عمر کی کوئی حد ہے جس عمر کی حد تک وہ ماں کے پاس رہیں گے ۔
محمدیوسف شیخ ۔سوپور
طلاق شدہ جوڑےکے بچوں کی پرورش
جواب:-طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق ماں یعنی مطلقہ عورت کو حاصل ہے ۔ اس کوشریعت میں حقِ حضانت کہتے ہیں ۔اگر ماں از خود اس حق سے دستبردار ہوجائے تو اس کے لئے یہ بھی جائز ہے ۔ اگر ماں بچوں کو بغرض پرورش اپنے پاس رکھناچاہتی ہے تو بچوں کے باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ جبراً بچے ماں سے چھین لے ۔ بچوں کی پرورش کا یہ حق ماں کو حاصل رہنے کی مدت یہ ہے ۔ لڑکا تا عمر سات سال اور لڑکی تا عمر نوسال۔
جس عرصہ میں بچے ماں کے پاس رہیں گے اُس پورے عرصہ کا نفقہ بچوں کے باپ پر لازم ہے ۔ یہ نفقہ باپ کی مالی وسعت کے مطابق کم یا زیادہ ہوسکتاہے لیکن بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لئے جو نفقہ ہو وہ بہرحال لازم رہے گا ۔ اس سلسلے میں ایک آسان اصول یہ ہے کہ باپ جب بچے اپنے پاس رکھے گا تو پالنے پوسنے میں ،دوا علاج میں اور تعلیم وتربیت میں جو جو خرچہ باپ اپنے گھر میں کرے گا وہی خرچہ وہ اُس صورت میں دے جب بچے ماں کے پاس ہوں اور اگرماں نے پرورش کرنے کی اُجرت طلب کی تو وہ اُجرت بھی باپ پر قاضی کے فیصلے کے بعد لازم ہوگی ۔