کامیابی کا سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ | ترال کے2نابینابھائیوں نے کالج تک تعلیم حاصل کی والد،ہم جماعتوں اور اساتذہ نے ان کا تعلیمی سفر آسان بنا یا

سید اعجاز

ترال// ترال کے بوچھو گائوں کے سابق فوجی کے2 نابینابچوں(لڑکوں ) نے کٹھن،کھٹی میٹھی یادوں کے ساتھ کالج تک کے تعلیمی سفر کو مکمل کر لیا ۔ گزشتہ دنوںچھٹے سمسٹر کے اردو زبانی امتحان کے بعد کشمیر عظمی کے ساتھ کالج کے احاطے میں ایک انٹرویوں میں دونوں طالب علموں نے آج تک کے تعلیمی سفر کے بارے میں کھل کر بات کی ۔ انہوں نے بتایا ہم دونوں کا یہ مسئلہ جنم سے پہلے ہی تھا ۔طارق احمد اور اشفاق احمد دو بھائی ہیں جن میں طارق بڑا ہے تاہم دونوں بھائی ایک دوسرے کا سہارے بنے۔ گھر والوں نے انہیں ایک ساتھ گورنمنٹ بائز مڈل سکول بوچھو ترال میں درج کیا تاکہ یہ ایک دوسرے کا کم سے کم سہارا بنیں گے۔ اشفاق اور طارق نے بتایا کہ سال2003تک انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہم کیا کریں گے کیوں کہ مقامی سکول کے استادوں نے انہیں بتایا کہ ہم آپ کو پڑھا نہیں سکیں گے کیوں کہ ہم نا بینا افراد کو تعلیم فراہم کرنے کے اہل نہیں ہیں ۔انہوںنے بتایا اس کے بعد ہم نے نا نہا ل کی راہ لی لیکن تعلیم کی تڑپ نے ہمیں وہاں چین سے رہنے نہیں دیا۔انہوں نے بتایا چند روز تک وہاں رہنے کے بعد گھر والوں نے کسی کو یہاں روانہ کیااور کہا کہ آپ کے لئے ایک خصوصی استاد کو سکول میں تعینات کیا گیاجو ایک منفرد سسٹم کے تحت نا بینا افراد کو تعلیم فراہم کرنے کے اہل ہے، جس کے بعد ہم نے مقامی سکول سے ہی آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔انہوں نے بتایا اس خاص استاد نے ہمیں حوصلہ دیا کہ آپ گھر سے نکلو ۔اشفاق اور طارق نے بتایا آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہماری والدہ اور کچھ رشتہ داروں نے ہماری کمزوری کو دیکھ کر ہمیں تعلیم کو خیر باد کرنے کے لئے کہا لیکن والد عبد الرشید وگے نے ہمیں بتایا کہ آپ کے لئے ملک میں خاص سکول موجود ہے جہاں آپ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، جس کے بعد دونوں کو دلی کے جی ٹی پی علاقے میں قائم ایک خاص سکول میں داخل کیا گیا، جہاں دونوں نے دسویں اور12ویں اور جماعتوںکا امتحان65سے 67فیصد سے زیادہ نمبرات سے پاس کیا۔ طارق احمد نے بتایا کہ وہاں سے واپس آنے کے بعد ہم زبردست پریشان تھے کہ کالج میں جائیں گے، کیا کریں ؟۔انہوں نے کہا بہرحال چار سال قبل ہم نے گورنمنٹ ڈگری کالج ترال میں داخلہ لیا جہاں نہ صرف ہمارے کالج کے طلباء و طالبات نے ہمار حوصلہ دیا بلکہ کبھی کبھی ہمیں کالج سے ترال تک ہاتھ پکڑ کراپنے ساتھ لاتے تھے جس میں زیادہ تر کردار طالبات نے نبھایا اور ان کااحسان ہم کبھی چکا نہیں سکیں گے۔دونوں نا بینا بھائیوں نے بتایا کہ کالج میں شوپیان کے وچی علاقے سے تعلق رکھنے ولا ایک استادعمر سرہمارے گھر آتا تھا اور وہاں سے ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھاکر کالج پہنچاتا تھا جو سلسلہ ان کی تبدیلی تک جاری رہا۔انہوں نے ساتھی طلباء کے ساتھ ساتھ کالج کے ایک ایک استاد کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے بتایاکالج سے ترال اور ترال سے کالج صرف طالبات کے لئے گاڑیاں موجودہے جن میں طالبات کو سفر کرنے کی اجازت ہے۔ انہوں نے بتایا کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مشتاق احمد ملک نے ہمیں اس گاڑی میں سفر کرنے کی اجازت دی ،جبکہ واپسی پر جس گاڑی میں ہم دونوں بھائی سفر کرتے ہیں کالج کی طرف سے ایک اور طالب علم کو ہمارے ساتھ بھیجا جاتاتھا اور ایک الگ سٹینڈ تک ہمیں کالج کی گاڑی چھوڑتی تھی، جس کی وجہ سے ہمیں کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا سفر ایک یاد گار سفر بن گیا ۔کالج کے انگریزی مضمون کے استاد ڈاکٹر ہلال احمد وانی نے بتایا دونوں بچے اس اندازمیں نماز ادا کرتے ہیں، ایک جسمانی طور ٹھیک انسان حیران رہ جاتا ہے۔دونوں بھائیوں نے بتایا دینی علم میں ہمیں ایک مقامی نوجوان جو ہمار رشتہ دار(ظہور احمد ) بھی ہے، نے ہمیں دینی علوم سکھائے ،فقہ پڑھایا جس کی وجہ سے نہ صرف ہم نماز اداکرتے ہیں بلکہ جماعت بھی پڑھا سکتے ہیں۔ انہوں نے اس استاد کا بھی دل سے شکریہ ادا کیا ہے ۔ دونوںبھائیوں نے کہا کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ روشنی دے گا ہم سب سے پہلے اپنے والدین کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے بتایا ہمیں شوق ہے کہ ہم اپنے جیسے نا بینا افراد کے لئے کام کریں اور ہم سماجی کار کن کا کردار ادا کریں جس کے لئے ہمیں سرکار کا تعاون چاہیے ۔