ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی۔شخصیت اور افسانہ نگاری تجزیہ

 ڈاکٹر ریاض توحیدی

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی 3 مئی 1942ء کو بھدرواہ (جموں وکشمیر)میں پیدا ہوئے۔ بارہویں جماعت کے بعد میڈیکل کالج پٹیالہ پنجاب سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر ہونے کے باوجود ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ڈاکٹر بھدرواہی ایک ملنسار‘بااخلاق اور دینی فکر کی حامل شخصیت ہیں۔ادبی کام کے علاوہ دینی تعلیمات پر بھی ان کی تحریریں شائع ہوچکی ہیں اور اخلاقی سطح پر شائستہ گفتگو کےساتھ کرتے اور کسی بھی انسان کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کئی برسوں سے افسانے لکھتے آئے ہیں جو کہ رسائل و جرائد اور اخبارات میں بھی شائع ہوئے ہیں۔۱۲۰۲ء میں ان کا افسانوی مجموعہ’’چُبھن ‘‘سامنے آیا ہے۔یہ مجموعہ پینسٹھ افسانوں پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ اس میں چند ادبی شخصیات کے مضامین اور تاثرات بھی شامل ہیں۔
افسانہ یا شاعری کا کوئی بھی موضوع ہوسکتا ہے لیکن اصل مسئلہ فن کاری کا ہوتا ہے۔کئی لوگ افسانے میں اصلاحی پیغام کو پسند نہیں کرتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ جب ادب کو’سماج کاآئینہ‘ کہا جاتا ہے‘اس میں اصلاحی پہلو بھی توشامل ہے۔اب اگر کسی کے افسانے میں اصلاحی یا اخلاقی پیغام یا مقصدی پہلو سامنے آتا ہے،اس کواصلاحی ادب میں شمار کیاجاسکتا ہے البتہ ایک بات پیش نظررہنی چاہے کہ وہ فکشن کے بجائے ناصحانہ یاواعظانہ تحریر نہ ہو۔ ڈاکٹر بھدرواہی کے افسانے متنوع موضوعات پر تخلیق ہوئے ہیں۔ جن میں نفسیاتی ،سماجی ،اصلاحی اورمعاشی وغیرہ موضوعات شامل ہیں۔
کتاب کا پہلا افسانہ’’کچھ دیر تو رک جاتے‘‘ فنی طور پر ایک عمدہ افسانہ ہے کیونکہ اس میں تکنیکی سطح پر واقعہ کو تخیل کی بنیاد پر ایک ابہام آمیز کیفیت کے ساتھ دلچسپ موڑ دیکر انجام تک پہنچایا گیا ہے‘ آخر تک قاری اس تجسس میں رہتا ہے کہ راوی جس کے بارے میں اپنے احساسات و جذبات کااظہار کرتا ہے وہ آخر ہے کون؟ اور انجام میں پتہ چلتا ہے کہ وہ دراصل راوی کی فوت شدہ ماں ہوتی ہے اوریہ جدائی اور محبت سے لبریز و ہ احساسات و جذبات ہوتے ہیں جو راوی کے دل سے کرب انگیز اظہار بن کر سامنے آتے ہیں اور افسانہ نگار تخیل کی بنیاد پر ماں کو سامنے پاکر جدائی اور محبت و شفقت کاکااظہار کرتاہے۔ افسانہ ان خیالات پر ختم ہوجاتا ہے جس میں عنوان’’کچھ دیر تو رک جاتے‘‘کی معنویت بھی سامنے آجاتی ہے:’’یہ میری ماں تھی جسے میں نہ جانے خیال میں یا عالم خواب میں ایک سراب کی طرح دیکھ رہاتھا۔ میرے لبوں پر یہ الفاظ آکر ایسے منجمد ہوکر رہ گئے۔ ماں! کچھ دیر تو رک جاتے۔۔‘‘
آج کل محکمہ طب میں اگرچہ کئی ڈاکٹر اپنا فرض ایمانداری سے نبھا رہے ہیں لیکن مجموعی صورت حال ٹھیک بھی نہیں ہے کیونکہ کئی ڈاکٹر مجبور مریضوں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔افسانہ’’ڈاکٹر نہیں ڈرائیور‘‘ بھی ایک ایسے ہی موضوع پر تخلیق ہوا ہے جس میں ایک بے سہارا اور غریب بیٹی اپنی بیمار ماں کے علاج کے لئے اتنی بے بس ہوجاتی ہے کہ گورنمنٹ کی جانب سے فیملی پلاننگ کرانے کے بعد صرف ڈیڑھ سو روپے ملنے کے لئے وہ غیر شادی شدہ ہونے کے باوجود خود کا آپریشن کرواتی ہے اور جب ڈاکٹر کو گھر لے آتی ہے تب تک ماں مرچکی ہوتی ہے۔ڈاکٹر رسماًمریضہ کا معائنہ کرکے اپنی فیس جیب میں بھردیتا ہے لیکن بیٹی کی حالت زار دیکھ کر ڈرائیور انسانیت کا مجسمہ بن کر کہتا ہے:
’’بیٹی میں ڈاکٹر نہیں ڈرائیور ہوں کرایہ رہنے دو۔۔۔‘‘
عصری مادی دور میں بیشتر لوگ اب خونی رشتے ناطوں کو بھی مادی فوائد کی نظرسے دیکھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمررسیدہ والدین کو بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دشواری پیش آتی ہو تو انہیں یا تو اکیلے چھوڑ دیاجاتا ہے یا اولڈ ایج ہوم کے حوالے کر دیاجاتا ہے۔ افسانہ’’مقدس ماں وردھ آشرم میں؟‘‘ اسی اہم انسانی اور سماجی موضوع پر تخلیق ہوا ہے۔ اس افسانے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اچھی فن کاری بھی نظرآتی ہے اور پلاٹ سازی بھی عمدہ ہے کیونکہ اس میں کوئی واقعہ سیدھے طور پر نہیں دوہرایا گیا ہے بلکہ اس میں مکالمے بھی ہیں، واقعہ نگاری اور کردارنگاری بھی ہے اور کہانی کو درمیان میں ایک نیا موڑ دینے کی تکنیک کااستعمال بھی ہوا ہے۔ایک اور خوبی یہ بھی نظرآتی ہے کہ اس میں ماں کی عظمت اور انسانیت کا پیغام بھی ملتا ہے۔ افسانے کے اہم کردار اندرادیوی، اس کا بیٹا اور بہو اور شمس الدین ہیں۔ اندرا دیوی ایک عمررسیدہ بیمار خاتون ہوتی ہے۔ایک کلینک میں جب شمس الدین اور دوسرے لوگ اس کے ساتھ بیٹے اور بہو کا غیرانسانی سلوک دیکھ کرمایوس ہوجاتے ہیں اور ان کی بہو کو سمجھاتے بھی ہیں کہ وہ اپنی ساس کے ساتھ ایسا برا برتاؤ روا نہ رکھے لیکن جب لوگ سنتے ہیں کہ وہ دونوں میاں بیوی ملازم پیشہ ہیں، اس کے علاج معالجہ سے بھی تنگ آچکے ہیں اور اب انہیں وردھ آشرم کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تو شمس الدین یہ سب دیکھ کر انسانیت کا نمونہ بن کر سامنے آتا ہے اور اندرادیوی کو اپنے گھر لے جاتا ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ اپنی ماں کی طرح کرتا ہےاور وہ تندرست بھی ہوجاتی ہے۔
افسانہ’’چبھن‘‘ اس چبھن کے درد کو سامنے لارہا ہے جو ان والدین کے دل میں ہوتا ہے جن کے بچے ملک سے باہر کے ملکوں میں روزگار کی خاطر چلے جاتے ہیں اور سال دوسال میں چند دنوں کے لئے ہی گھرآسکتے ہیں۔ کیونکہ کچھ حد تک وہ مادی خوشحالی سے مطمئن تو ہوجاتے ہیں لیکن جوقریب رہ کر اپنائیت اور محبت کی مٹھاس ہوتی ہے وہ ختم ہوکررہ جاتی ہے۔افسانہ’’سریلی آواز کا کرب‘‘ اور’’پڑیئے گر بیمار تو‘‘ میں انشائیہ کا رنگ غالب ہے، واقعہ پڑھ کر راحت اندوری کا شعر یاد آتا ہے کیونکہ اس میں کردار بھی بیماری کا بہانہ بناکر گھر میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ چند دنوں تک دفتری مصروفیات سے راحت ملے لیکن یہی بہانہ بازی اس کے لئے دردسربن جاتی ہے کیونکہ دوست احباب، رفقائے کار،رشتہ داروں اور ہمسایوں کا گھر میں تانتابندھ جاتا ہے اور اس کی بیوی تنگ آکر کہتی ہے کہ آپ کی بیماری نے تومجھے مارہی دیاہےاور وہ اگلے ایک دوروز کے بعد ہی ڈیوٹی پر حاضر ہوجاتا ہے۔ ’’وفاداری کا لیباٹری ٹیسٹ‘‘ مزے دار افسانہ ہے۔ اس کا کردار اپنی وفاداری کا ٹیسٹ کروانے کے لئے لیباٹری میں جاتا ہے۔ ٹیکنیشن کے پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ اس کی بیوی کا شک دور کرنے کے لئے وہ یہ ٹیسٹ کرواناچاہتا ہے۔ جب اپنی وفاداری کی ٹیسٹ رپورٹ وہ بیوی کو دکھاتا ہے تو وہ خوش ہوجاتی ہے لیکن جونہی وہ اسے بھی ٹیسٹ کروانے کو کہتا ہے تو وہ انکار کرتی ہے۔افسانے میں تخیل کی بنیاد پر اچھی کہانی سامنے لائی گئی ہے۔’’خواب اور آنسو‘‘ ایک دلچسپ افسانچہ ہے‘جس کا نصف سے زائد قصہ ایک خواب کی صورت میں پیش ہوا ہے ۔ افسانہ’’عندلیب‘‘کا مرکزی موضوع اردوزبان ہے۔اس میں افسانہ نگار نے ایک محب اردو بصورت مرکزی کردار’جمیل صاحب‘ کی اردوزبان سے محبت کرنے کی ایک دلچسپ کہانی پیش کی ہے جس میں وہ اپنی لڑکی کا رشتہ اس وجہ سے اس نوجوان سے نہیں جوڑتا ہے جو اردو زبان سے ناواقف ہوتا ہے۔افسانے کا یہ اقتباس قابل غور ہے:’’مسودہ کے آخر میں جمیل صاحب نے لکھا تھا کہ اس نے ہمیشہ ہی اپنی طاقت اور مقدور کے مطابق اردو کی خاطرخواہ خدمت کی ہے۔وہ کیسے اپنی بیٹی جوخوداردوکی طالبہ اوراب لیکچرر تھیں، کسی ایسے لڑکے کےحوالے کرتا جس کو اردو سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔‘‘
مجموعی طور پر دیکھیں تو اس مجموعے کے کئی اور افسانے بھی اچھے ہیں۔ مطالعہ سے ظاہر ہے کہ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کو اردو زبان سے بے حدمحبت ہے اور وہ اپنے خیالات کو بصورت افسانہ سلیس زبان میں پیش کرتے ہیں۔ان کے بیشتر افسانے اصلاحی نوعیت کے ہیں اور افسانہ نگار ہر افسانے کا انجام اصلاحی پیغام کی طرف موڈ دیتا ہے۔ان کے کئی افسانوں میں سماجی برائیوں کی عکاسی بھی نظرآتی ہے اور انسان کی بداعمالی کی بری سزا بھی دکھائی دیتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کہیں کچھ افسانے انشائیہ نگاری کی طرف جارہے ہیں اور چندایک کااسلوب مضمون نویسی جیسا ہے۔تاہم ہر جگہ ان کی دینی واصلاحی فکر جلوہ گر نظرآتی ہے۔
[email protected]