چینی مسلمانوں پر ظلم اور مسلم ممالک کی خاموشی؟ ندائے حق

اسد مرزا
چینی سرکاری نیوز ایجنسی ’’شہنوا‘‘ نے جمعہ یعنی 15 جولائی کو خبردی کہ چینی صدر ژی چنگ پی نے سنکیانگ کے چار روزہ دورے کے دوران اپنی مختلف مجالس اور تقاریر میں چینی ایغور مسلمانوں پر زور دیا کہ انھیں حکمران کمیونسٹ پارٹی کے نقطۂ نظر کے مکمل اور دیانتدارانہ نفاذ پر، جس میں سماجی استحکام اور دیرپا سلامتی کو اہم اہداف کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے، اسے قبول کرنا چاہیے۔ژی نے اپنے دورے جسے ”معائنے کے دورے” کے طور پر بیان کیا گیا، کہا کہ اس اصول کو برقرار رکھنے کے لیے بہتر کوششیں کی جانی چاہئیں کہ چین میں اسلام کا رجحان چینی ہونا چاہیے۔اگر ہم ان الفاظ کی گہرائی میں جائیں تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ دراصل ژی ایغور مسلمانوں سے اپنا اسلامی تشخص ترک کرنے اور اس کی جگہ کمیونسٹ اور دیگر نظریاتی اصولوں کو اپنانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔جس سے کہ مستقبل میں چین میں ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کا تشخص اور وجود بالکل ختم ہوجائے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ان کے حوالے سے بتایا کہ جہاں مذہبی ماننے والوں کی ضروریات کو یقینی بنایا جانا چاہیے، وہیں انہیں کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کے ساتھ مل کر متحد ہونا چاہیے۔انہوں نے چینی قوم، ثقافت اور کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اپنی شناخت کو مضبوط بنانے کے لیے تمام نسلی اقلیتوں کے لوگوں کو تعلیم دینے اور ان کی رہنمائی کرنے پر زور دیا۔
چینی مسلمانوں پر ظلم :گزشتہ دس سالوں کے دوران چینی ایغور مسلمانوں پر چینی حکومت کے ظلم و تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ رونما ہوا ہے اور اس میں سنکیانگ کے دارالحکومت ارمکی میں 2009میں ہونے والے مذہبی فسادات کے بعد ان میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔دراصل 1950کے بعد سے جب چین نے سنکیانگ کو اپنے حدود میں شامل کیا تھا اور 1954میں وہاں پر سنکیانگ خود مختار ادارے کا قیام کیا تھا، تب سے چینی حکومت وہاں پر موجود مسلم اقلیتوں پر لگاتار ظلم و تشدد کا پہاڑ توڑے ہوئے ہے، جس کا مقصد خطے سے ان کے مذہبی تشخص کو ختم کرنا اور انھیں بے دین چینی معاشرے میں کمیونسٹ اصولوں پر شامل کرکے چینی کمیونسٹ پارٹی کی سبقت کو تسلیم کرنا ہے۔اگرچہ کوئی صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ہزاروں اور ممکنہ طور پر ایک ملین یا اس سے زیادہ افراد کو حراست میں لیاجاچکا ہے۔ ناقدین نے اس کریک ڈاؤن کو ثقافتی نسل کشی کے طور پر بیان کیا ہے جس نے ہزاروں افراد کو جیل نما کیمپوں میں بھیجا جاچکا ہے۔امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے چینی حکام کو غیر قانونی حراستوں، خاندانوں سے علیحدگی اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے یا غیر ملکی رابطوں کے لیے لوگوں کو قید کرنے کے لیے ویزا پابندی کے تحت ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
2014 میں یکے بعد دیگرے پرتشدد حکومت مخالف حملوں کے عروج پر پہنچنے کے بعد، کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ژی جن پنگ نے کریک ڈاؤن میں تیزی سے اضافہ کیاتھا، نسلی ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کو پارٹی کے وفادار شہریوں اور حامیوں میں تبدیل کرنے کے لیے ایک ناقابل معافی مہم شروع کی تھی۔ 2017 میں سرکاری نیوز میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، ژی نے حکام کو بتایا، ”سنکیانگ دہشت گردی کی سرگرمیوں، علیحدگی پسندی کے خلاف شدید جدوجہد اور اس کے علاج کے لیے تکلیف دہ مداخلت کے ایک فعال دور میں ہے۔” بڑے پیمانے پر حراست میں لینے کے علاوہ، حکام نے مخبروں کے استعمال کو تیز کر دیا ہے اور پولیس کی نگرانی کو بڑھا دیا ہے، یہاں تک کہ کچھ لوگوں کے گھروں میں کیمرے بھی نصب کر دیے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مہم نے ایغور معاشرے کو صدمہ پہنچایا ہے، جس سے ٹوٹی ہوئی برادریوں اور خاندانوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں سنکیانگ کے ماہر مائیکل کلارک نے کہا، ’’روزمرہ کی زندگی میں حکومت کا دخول اب تقریباً مکمل ہے۔آپ کی نسلی شناخت ہے، خاص طور پر ایغور شناخت، جسے اس قسم کی پیتھالوجی کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔‘‘گزشتہ سال امریکہ نے جبری مشقت کی اطلاعات پر خطے سے کپاس اور دیگر مصنوعات کی کچھ درآمدات پر پابندی عائد کردی تھی۔
چین کا اصل منصوبہ :سنکیانگ کی سرحدیں روس، افغانستان اور غیر مستحکم وسطی ایشیا سے ملتی ہیں، جنھیں چین نے اقتصادی ترغیبات اور سیکورٹی اتحاد کے ذریعے اپنے مدار میں لانے کی کوشش کی ہے۔دراصل سنکیانگ صوبے میں خام تیل، قدرتی گیس اور دیگر معدنی وسائل کا بہت بڑا ذخیرہ موجو د ہے۔ پوری دنیا میں سولر پینلس بنانے کا تقریباً 45فیصد کاروبار سنکیانگ سے ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر اس کے لیے ضروری پولی سیلی کون بڑی مقدار میں موجود ہے۔اس کے علاوہ سنکیانگ صوبہ چین میں قدرتی گیس نکالنے والا سب سے بڑا صوبہ بھی ہے، جسے مختلف صوبوں میں گھریلو اور صنعتی ضروریات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سنکیانگ چین کے BRI-Belt and Road Initiativeکا شروعاتی مرکز ہے۔BRI کے ذریعہ چین وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے یوروپ تک اور افریقہ تک سڑکوں اور ریل کا ایک پورا جال بچھا چکا ہے۔دراصل اس کا منصوبہ ہے کہ BRIکے ذریعے وہ یوروپی ممالک اور دیگر ملکوں کو اپنے یہاں بنائے گئے مال کو با آسانی سڑک اور ریل کے ذریعے ان تک پہنچا سکے، اس کا دوسرا مقصد یہ بھی ہے کہ جس طرح کورونا وبا کے دوران عالمی سپلائی چینس متاثر ہوئی تھیں، اور بحری جہازوں کے ذریعہ چینی مال کو دوسرے ملکوں کو بھیجنے میں دشواری پیدا ہوئی تھی، اس کو ختم کیا جاسکے اور BRIکے ذریعے ایک دوسرا نظام چین کے پاس موجود رہے جس سے کہ اس کی درآمدات پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔سنکیانگ کی اسی جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اس کی خاص
اہمیت ہے۔ اورکسی بھی حالت میں چین یہ نہیں چاہتا ہے کہ اس کے کاروباری سلسلے میں ایغور مسلمانوں یا دیگر مذہبی اقلیتوں کی جانب سے کوئی رکاوٹ پیش آئے، اسی لیے وہ وہاں پر چینی نژاد افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں بھیج کر ایغور اور دیگر قوموں پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے تحت چین نے اب سنکیانگ صوبے میں بڑی بڑی فیکٹریاں اور دیگر معاشی ادارے بھی قائم کرنا شروع کردیے ہیںاور ایسی خبریں ہیں کہ ان فیکٹریوں میں ایغور مسلمانوں کو بطور بندھوا مزدور استعمال کیا جاتا ہے۔
کیوں چپ ہیں مسلم ممالک؟ اگر ہم اس پورے معاملے کا طائرانہ تجزیہ کریں تو پائیں گے کہ چین نے ایغور مسلمانو ںکے خلاف حکومتی تشدد پر ابھی تک کسی بھی مسلم ملک نے اپنی آواز نہیں اٹھائی ہے یا چین سے اس بارے میں کوئی وضاحت طلب کی ہے۔ جولائی 2019 میں 22 ممالک نے جن میں سے کوئی بھی نام نہاد مسلم یا اسلامی ملک نہیں تھا اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے کمیشن (UNHRC)کو ایک خط لکھ کر سنکیانگ میں ہونے والے مظالم پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھااور اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایغور مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔چین نے اس کوشش کے جواب میں ایک دوسرے گروپ کے ذریعے جس میں 37ملک شامل تھے ایک دوسرا خط یواین ایچ آر سی کو بھجوایا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ سنکیانگ کے حالات سے مطمئن ہیں۔ ان 37میں سے 13 ملک اپنے آپ کو اسلامی یا مسلم ملک کہتے ہیںاور ان میں سعودی عرب اور پاکستان جیسے ملک بھی شامل تھے۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چین کیوں کسی رکاوٹ کے بغیر سنکیانگ میں اپنے مظالم جاری رکھے ہوئے ہے۔ دراصل آج کی عالمی معیشت اتنی پیچیدہ ہوچکی ہے کہ زیادہ تر ملک اپنی بقا اور معاشی استحکام کی وجہ سے چینی حکومت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں، کیونکہ انھیں خطرہ ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو چین کی دوستی اور تجارت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ چند ایک ممالک نے چینی طرز پر ایسی کیمپ اپنے یہاں بنانے شروع کردیے ہیں جہاں پر کہ مذہبی اقلیتوں کو قید کیا جاسکے، اس کی مثال آپ خود اپنے گھر میں دیکھ سکتے ہیں۔مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی کبھی عالمی سطح پر حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کا ذکر آتا ہے تو ان کو چیلنج کرنے کے لیے آپ مغربی ممالک کو ہی صفِ اول میں پاتے ہیں۔ اور نام نہاد اسلامی یا مسلم ممالک زیادہ تر خاموشی اختیار کرتے ہیں کیونکہ وہ سب بھی اپنے یہاں ان سب پامالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔جب تک ہم اپنے آپ کو درست نہیں کریں گے تب تک ہم دوسرے پر انگلی نہیں اٹھا سکتے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com