پونچھ میں زعفران کی کاشت کو فروغ دینے ضرورت توجہ طلب

محمد عمر ملک۔ پونچھ
زعفران کی کاشت کے لئے جموں وکشمیر کا پانپور علاقہ مشہور ومعروف ہے۔ جہاں کا زعفران جس کو کیسر بھی کہتے ہیں،ملک بھر کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی درآمد کیاجاتاہے۔ لیکن کیا جموں وکشمیر میں صرف پانپور کا علاقہ ہی زعفران کی کاشت کے لئے موزون ہے؟کیا صرف وہیں کی آب وہوا ہی اس کی کاشت کے کارگر ہے؟ کیا اس کے علاوہ یہاں کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں زعفران کی پیداوار ہو سکتی ہے؟جبکہ مشاہدہ اور بنیادی طور تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر کے دوسرے اضلاع میں کیسر کی کاشت کی جاسکتی ہے۔اس کی مثال جمو ں کے سرحدی علاقہ پونچھ کا بائیلہؔ ہے۔ضلع کے منڈی تحصیل  سے چار کلومیٹر کی دوری پر واقع پنچائیت بائیلہ کے ائریا میں بھی کیسر کی کاشت کا تجربہ کیاگیاجو کامیاب رہا۔اس کے کاشت کار خواجہ اعجاز احمد ،جن کا سیب اور اخروٹ کا باغ ہے، انہوں نے بتایا کہ ہم نے محکمہ زراعت کے اشتراک سے سال2019 میں زعفران کے پیداوار کی شروعات کی تھی۔ جس میں پھل دار پودوں کے ساتھ ساتھ زعفران کی کاشت بھی کی گئی جو کہ کارگر ثابت ہوئی۔بقول ِ ان کے یہاں بائیلہ میں ایک پروگرام ہوا تھا جس میں ضلع ترقیاتی کمشنر، پونچھ راہول یادھومہمان خصوصی تھے،اُن کو زعفران کا تحفہ دیاگیا تھا۔جب انہیں بتایا گیا کہ یہاں ہر سال اس کی کاشت کی جاتی ہے تو وہ کافی خوش اور حیران بھی ہوئے تھے۔ خواجہ اعجاز احمد نے بتایا کہ بائیلہ کے علاوہ باقی گاؤں میں بھی زعفران کی کاشت کی گئی لیکن مکمل جانکاری نہ ملنے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔ان کا مزید کہناہےکہ ضلع پونچھ کے منڈی بلاک کے گاؤں بائیلہ،اڑاہی اور لورن میں زعفران کی پیداوار اچھی ہو سکتی ہے۔ ان علاقوں میں زعفران کی پیداوار کیلئے کچھ جگہوں پر پلانٹ لگائے گئے ہیں جیسے باییلا میں لگایا گیا ہےاور دیگر علاقوں میں بھی یہ پلاٹ لگائے گئے تاہم تاحال کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ وہ اس لئے کہ  اس کے کاشت کی صحیح جانکاری کا فقدان اورکاشت کاری میں شوق کی کمی ہے۔
ایک اور کاشت کار محمد خواجہ فاروق سے معلوم ہوا کہ بائیلہ کے علاوہ منڈی تحصیل کے بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں دیگر فصلوں کی کاشت کو ترک کرکے زعفران کی کاشت کی جارہی ہے۔ مگر زعفران کی کاشت کے لئے سخت محنت اور کسان کے لئے صحیح جانکاری لازمی ہے۔جبکہ جنگلی جا نوروں سے محفوظ رہنے کے لئے بندوبست ہونے کی ضرورت ہے، تبھی زعفران کی کاشت کامیاب ہوسکتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ یہاں زعفران کی پیداوار میں جو مشکلات پیش آرہی ہے، ان میں جنگلی جانور کی گھس پیٹھ نقصان دہ ثابت ہورہی ہے،جو اکثر رات کے اندھیرے میں فصل کو نقصان پہونچا تے ہیں۔مزید زعفران فصل کےلیے کھاد ،وغیرہ یا بیج کا انتظام بھی پونچھ میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس کے لئے ایک اسٹور کا انتظام ہونا چاہیے۔دو اور کاشت کاروں اعجاز احمد اور عبد الاحدنے بھی اس کی کاشت کی تھی جو مختصرہی سہی، لیکن کامیاب رہی ہے۔جبکہ گاؤں اڑائی میں بھی چند افراد نے اپنے کھیت میں زعفران کے پلاٹ لگائے تھے۔ جن میں سید مسرت حسین شاہ،لیاقت حسین شاہ اورمقصود احمد خان نے بھی اپنی اپنی زمین پرزعفران کی کھیتی کی تھی۔ اگر چہ ان علاقوں میں یہ کاشت ابھی تک زیادہ کامیاب نہیں ہوپائی ہے، تاہم ان علاقوں کے کاشت کار اس میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ایسے میں جموں وکشمیر کے پانپور کی طرح محکمہ کو یہاں بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ کام کاشت کاروں کی رہنمائی کرنی ہوگی۔کیونکہ یہاں کی زمین اور آب وہوا زعفران کی کاشت کے لئے نہائیت موزون ہے۔
اس لئےیہاں کے کاشت کاروں کو پانپور کے کاشتکاروں کے ذریعے بھی تربیت دلوائی جاسکتی ہے کہ کس طرح اس کی بوائی، گوڈائی ودیگر لوازمات پورے کئے جاسکتے ہیں۔ متعلقہ محکمہ کی خصوصی توجہ پلاٹ لگانے والے خواہش مند حضرات کے لئے آسان نرخوں پر قرضہ فراہم کرنے پر بھی ہونی چاہئے تاکہ مزید بہتری کے ساتھ زعفران کی کاشت ہوسکے۔اس حوالے سے ایگریکلچر آفیسر منڈی نیشو گنائی کہتے ہیں کہ اگر چہ محکمہ زراعت کے زیر اہتمام سبزیوں کا شعبہ نہیں آتاہے، تاہم پھر بھی یہاں اکثر علاقوں میں زعفران کی کاشت، جو ستمبر اکتوبر میں کی جاتی ہے،بہت ہی کارگر ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ محنت اور اصولوں کو بروئے کارلایاجائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ اب زعفران کے لئے الگ سے شعبہ قائم کرے۔جس سے کہ منڈی، بائیلہ،اڑائی اور لورن میں زعفران کے کاشت کو فروغ مل سکے۔ زعفران ایک خوشبودار پودا ہے۔ بھارت کے علاوہ اسپین، اٹلی، یونان، ترکی، ایران اور چین میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں، یہ جموں کے کستوار کے محدود علاقوں اور کشمیر میں پانپور میں اُگائی جاتی ہے۔ یہ ہر سال اگست ستمبر میں لگایا جاتا ہے اور اکتوبر دسمبر تک اس کے پتے اور پھول نکل آتے ہیں۔ تقریباً 80 اقسام کے ساتھ، یہ دنیا کے مختلف حصوں میں پایا جاتا ہے۔ دنیا کی کل پیداوار کا 80 فیصد صرف اسپین اور ایران میں ہوتا ہے۔ جبکہ اس کا شمار دنیا کے قیمتی پودوں میں ہوتا ہے۔ کیونکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت تین سے ساڑھے تین لاکھ روپے فی کلو تک ہوتی ہے۔
وکی پیڈیا پر دستیاب معلومات کے مطابق خزاں کی آمد کے ساتھ ہی پانپور کے کھیتوں میں خوشبودار اور قیمتی جڑی بوٹی زعفران اُگتی ہے۔ یہ کھیت زیادہ تر سال تک بنجر رہتے ہیں کیونکہ زعفران کے کند خشک مٹی میں اُگتے ہیں، لیکن موسم خزاں کے آخر میں سورج کی روشنی میں برف پوش چوٹیوں سے گھری ہوئی مٹی کے میدانوں میں یہ کھیت جامنی رنگ کے پھولوں سے سج جاتے ہیں۔ جس کی خوشبو پورے ماحول میں بسی ہوتی ہے۔ کسان ان جامنی رنگ کے زعفرانی پھولوں کو بہت احتیاط سے چن کر جمع کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صرف 450 گرام زعفران بنانے کے لیے تقریباً 75 ہزار پھولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہیں تقریباً ڈیڑھ لاکھ پھولوں سے تقریباً ایک کلو خشک زعفران حاصل ہوتا ہے۔ اس سے اس کی خاصیت کا پتہ چلتا ہے۔یہ نہ صرف کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال ہوتا ہے بلکہ طبی نقطہ نظر سے بھی یہ بہت فائدہ مند ہے۔آیورویدک ادویات میں اس کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ آیورویدک ڈاکٹروں کے مطابق زعفران انسانوں میں توانائی کی قوت بڑھاتا ہے۔ یہ مثانہ، تلی، جگر، دماغ اور آنکھوں کے مسائل میں بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اس میں سوزش کو دور کرنے کی خاصیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی مہنگی ہونے کے باوجود دنیا بھر میں اس کی اتنی زیادہ مانگ ہے۔
یسے میں تحصیل منڈی ہی نہیں بلکہ ضلع پونچھ کے مختلف علاقوں میں زعفران کے کاشت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔اس سے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو جوڑنے اور اس کے کاشت کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔جس کے لئے لازم ہے کہ یہاں کے نوجوان زمین سے جڑ جائیں اور ہمت و حوصلےکے ساتھ آگے بڑھیں۔ جب نوجوان زمین سے لپٹ جائیںگے تو یہ زمین بھی زعفران کی شکل میں سونا اُگلے گی اور نوجوانوں کی زندگی کو تبدیل کردے گی۔(چرخہ فیچرس)