وٹامن ڈی اور اومیگا تھری کی اہمیت وافادیت | آنکھوں کی بینائی اور مدافعتی نظام بچانے میں مددگار تحقیق

ماہرین ِ طب

امریکا میں ہونے والی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وٹامن ڈی اور اومیگا تھری پر مشتمل غذائیں یا سپلیمینٹس آٹو امیون ڈیزیز یا خودکار مدافعتی بیماریوں سے بچانے میں مددگار ہوتے ہیں۔اس سے قبل ہونے والی تحقیقات سے بھی وٹامن ڈی اور اومیگا تھری کے فوائد سامنے آ چکے ہیں اور دونوں اجزا متعدد بیماریوں کی علامات کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ دونوں اجزا خودکار مدافعتی بیماریوں جنہیں آٹو امیون ڈیزیز کہا جاتا ہے، ان میں بھی مددگار ہو سکتے ہیں جب کہ اومیگا تھری سب سے زیادہ فائدہ دے سکتی ہے۔امریکی طبی ماہرین نے 25 ہزار رضاکاروں پر تحقیق کی، جن پر پانچ سال تک تجربہ کیا جانا تھا اور ابتدائی دو سال کے تجربے سے معلوم ہوا کہ وٹامن ڈی کے مقابلے اومیگا تھری زیادہ فائدہ مند ہے۔رضاکاروں میں 50 سال کی عمر کے مرد جب کہ 55 برس کی عمر کی خواتین شامل تھیں اور تحقیق شروع کرتے وقت 300 کے قریب رضاکاروں میں آٹو امیون ڈیزیز کی تشخیص ہوئی تھی۔
ماہرین نے آٹو امیون ڈیزیز کے رضاکاروں کو دو گروپس میں تقسیم کیا، ایک کو اومیگا تھری کی غذائیں دیں جب کہ دوسرے گروپ کو مصنوعی غذائیں دی گئیں اور دو سال بعد ان میں بیماری کی علامات کا جائزہ لیا گیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ جن رضاکاروں کو اومیگا تھری کی غذائیں دی گئیں ان میں نہ صرف خودکار مدافعتی بیماری بڑھنے سے رک گئی بلکہ ان میں بیماری کی علامات بھی کم ہوئیں جب کہ دوسرے مریض جوں کہ توں رہے۔اسی طرح وٹامن ڈی کا استعمال کرنے والے رضاکاروں میں بھی آٹو امیون ڈیزیز کی علامات بہتر ہوئیں، یعنی ان میں بیماری کی شدت کم ہوئی لیکن ان میں اومیگا تھری کی غذائیں استعمال کرنے والے رضاکاروں کے مقابلے بہتری کم ریکارڈ کی گئی۔ماہرین نے تجویز کیا کہ آٹو امیون ڈیزیز کے شکار افراد کو دونوں اجزا پر مشتمل خوراکیں یا میڈیکل اسٹورز پر دستیاب فوڈ سپلیمینٹس استعمال کرنے چاہئیے اور یہ کہ مذکورہ معاملے پر مزید تحقیق کی بھی ضرورت ہے۔خیال رہے کہ آٹو امیون ڈیزیز(autoimmune disease) یا خود کار مدافعتی بیماریاں اس وقت ہوتی ہیں جب غلطی سے انسان کے اینٹی باڈیز اپنے ہی ساتھی خلیات پر انہیں دشمن سمجھ کر ان پر حملہ کرتے ہیں۔اینٹی باڈیز انسانی خود میں پائےجانے والے وہ محافظ ہوتے ہیں جو کہ انسان کو بیماریوں سے بچاتے ہیں اور ان کی جنگ تقریبا ہر وقت بیماریوں، انفیکشنز اور وائرسز سے ہوتی رہتی ہے جس کا انسان کو علم نہیں ہوتا۔لیکن یہی اینٹی باڈیز اس وقت پریشان ہوجاتے ہیں جب کسی انسان میں کسی آٹو امیون ڈیزیز کا انفیکشن ہوتا ہے، اس وقت وہ دشمن اور دوست خلیات کو پہنچاننے کے قابل نہیں رہتے اور غلطی سے اپنے ہی ساتھی خلیات کو دشمن سمجھ کر ان پر حملہ کردیتے ہیں، اسی وجہ سے مذکورہ بیماری کو خود کار مدافعتی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔عام طور پر خود کار مدافعتی بیماریوں سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں، جنہیں آرتھرائٹس یعنی جوڑوں کا درد، جلد پر خارش، لپس اور دیگر بیماریاں ہوجاتی ہیں۔وٹامن ڈی انسانی صحت کے لیے اہم ترین جز ہے، جسم میں اس کی کمی صحت کے متعدد مسائل کا سبب بن سکتی ہے، تاہم اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کی کمی بینائی کے لیے بھی خطرات پیدا کر سکتی ہے۔ آنکھوں کی بیماری میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) بھی ہوسکتی ہےاور یہ بیماری اگرچہ زائد العمری میں عام ہوتی ہے، تاہم اس سے وٹامن ڈی کی وجہ سے ادھیڑ عمر اور یہاں تک کے نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔اس مسئلے کے دوران متاثرہ شخص کا وژن یا ںظر بلر ہوجاتی ہے، اسے تمام چیزیں غیر واضح یا دھندلی دکھائی دیتی ہیں اور مذکورہ مسئلہ مسلسل رہنے سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔اگرچہ میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس کا کوئی مستند علاج بھی دستیاب نہیں، تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہے اور متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وٹامن ڈی کی اچھی مقدار اس بیماری سے بچا سکتی ہے۔
عام طور پر وٹامن ڈی کو انسانی جسم سورج کے درجہ حرارت سے حاصل کرتا ہے لیکن اس باوجود جسم کو وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، اس لیے ماہرین صحت وٹامن ڈی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانے سمیت وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔