نظریہ ، فکر اور عمل! ہم کس نظریۂ حیات کی طرف کھڑے ہیں؟

توصیف احمد وانی ،اونتی پورہ

ہمارے عمل کی بنیاد ہمارا فکر ہے اور ہمارے فکر کی اساس ہمارا نظریہ ہے۔ ہم جس نظریۂ حیات کو قبول کرتے ہیں، اس کے مطابق ہمارے فکر کا رخ متعین ہوتا ہے اور پھر اس فکر کے مطابق ہم زندگی میں اپناعمل ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان کو دیگر ذی حیات سے ممتاز رکھنے والی چیزوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ایک نظریہ رکھتا ہے۔ انسان ، پڑھا لکھا ہو، یا اَن پڑھ ، مذہبی ہو یا لامذہب، مجبور ہو یا مختار، کوئی نہ کوئی نظریہ اپنے شعور کے ساتھ نتھی کیے رکھتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ، تجربات کے ساتھ اور پھر بڑھتے ہوئے شعور کے ساتھ اُس کا نظریہ حیات تبدیل بھی ہو سکتا ہے، لیکن تبدیل ہونے کے بعد بھی وہ کسی نظریے سے منسلک ضرور رہے گا۔ مادّی نظریہ حیات رکھنے والا شخص کسی روحانی تجربے کے ساتھ ، کسی روحانی شخصیت کی سنگت کے زیرِ اثر بتدریج کسی روحانی نظریے کا قائل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دینی نظریہ رکھنے والا شخص اپنے جبلی تقاضوں کے زیرِ اثر کوئی مادّی نظریۂ حیات قبول کر لے۔ بہرطور نظریہ انسان کی معنوی زندگی کے لیے ایسے ہی لازم و ملزوم ہے جیسے اُس کی مادّی زندگی کے لیے کھانا پینا، ہوا اور پانی۔
نظریے کو ماننے والے ایمان والے کہلاتے ہیں اور اس نظریے کا انکار کرنے والے اس کے کافر قرار پاتے ہیں۔ اللہ پر ایمان لانے والوں کے مقابلے میں جن لوگوں کا تذکرہ ہوا ہے ، ان کے بارے میں قرآن میں کہا گیا،’’وہ لوگ جو کافر ہو گئے‘‘۔ اسی طرح اولیاء اللہ کے مقابلے میں قرآن میں اولیاء الطاغوت کا ذکر موجود ہے۔ اولیاء اللہ ایمان والوں کو ظلمت سے نکال کر نور میں داخل کرتے ہیں جبکہ اولیاء الطاغوت انہیں نورِ ہدایت سے نکال کر کفر کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔
آدم تا این دم حضرتِ انسان دو قسم کے نظریۂ حیات میں منقسم ہے۔ ایک روحانی نظریۂ حیات پر یقین رکھنے والوں کا قبیلہ ہے اور دوسرا مادّی نظریہ رکھنے والوں کا قبیلہ ہے۔مادی طرزِ فکر کے قبیل کا سردار قابیل ہے۔ روحانی نظریے کا سرخیل ہابیل ہے۔ قابیل صرف طاقت پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک کوئی روحانی یا اخلاقی طاقت وجود ہی نہیں رکھتی۔ طاقت اور تعداد کے زور پر کامیاب ہونا اس کے نزدیک حقیقی کامیابی ہے۔ اس کے برعکس ہابیل کا نظریۂ حیات آسمانی ہے۔ وہ زمین کو آسمان کے تحت دیکھتا ہے۔ وہ زمینی راستوں پر چلنے کے لیے بھی آسمان سے اُتری ہوئی ہدایت کو تھامتا ہے۔ آسمان سے اُترنے والی ہدایت کسی انسان پر اترتی ہے۔ وہ اس انسان کی تکریم کرتا ہے جس پر ہدایت نازل ہوتی ہے۔ سو! ہابیل کے فکری قبیلے سے تعلق رکھنے والے تکریم آدم و بنی آدم کے قائل ہیں۔ وہ آدم کے کسی روپ کی تذلیل نہیں کرتے۔ قابیل اور اس کے ہم نوا ہر حال میں کامیابی چاہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں انسان کا خون بہانا پڑے ۔ وہ ’’محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے‘‘ کے قائل ہیں۔ اس کے برعکس ہابیل اور اس کے ہم مکتب باہمی مسابقت و مبارزت میں بھی اصول ، ضابطے اور اخلاق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ وہ مقدار کی بجائے معیار کے قائل ہیں۔ وہ طاقت کو اصول نہیں مانتے بلکہ اصول کو طاقت مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر منزل پاک ہے تو اس تک پہنچنے کا راستہ بھی پاک ہونا چاہیے۔ کوئی غلط راستہ کسی ضحیح منزل تک نہیں پہنچا سکتا ہے۔ حج کے لیے کمائی بھی پاک ہونی چاہیے۔ خدمت خلق کے لیے خلق سے مال چھیننا جائز نہیں۔ مجاز تک پہنچنے کے لیے بھی حقیقت کو فراموش کر دینا درست اقدام ہر گز نہیں۔
بہر حال وہ لوگ might is right کے قائل ہیں ، صبحِ از ل سے ان لوگوں سے جدا ہیں جو right is might کے قائل ہیں۔ طاقت اصول سے بڑی ہے یا اصول طاقت سے بڑا ہے،اس کے فیصلے میں ہی تاریخ اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ چھوٹا انسان طاقت کو اپنا آقا تسلیم کر لیتا ہے۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ایسے ہی لوگوں کا نظریۂ حیات ہے۔ سورج ہر آن اپنا زاویہ بدلتا رہتا ہے، بس ان کا قبلہ بھی ہربدلتے لمحے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ طاقت کے سورج کو سجدہ کرنے والے اپنے سائے سے نجات نہیں پا سکتے۔ حق پرست اگر کسی غار میں بھی پناہ گزیں ہو جائیں تو سورج ان سے پہلو بچا کر گزرتا ہے۔ بہرطور Divine School of thought اور Darwinian school of thought میں فرق واضح ہے۔ یہ فرق نظریے سے شروع ہوتا ہے اور فکر کے راستے ہوتا ہوا عمل کی صورت متشکل ہوتا ہے۔ خون بہانے والے اور ہیں اور خون دینے والے اور، زخموں پر نم چھڑکنے والے اور ہیں اور مرہم لگانے والے اور،’’پہلے میں‘‘ کہنے والے اور ہیں اور ’’پہلے آپ‘‘ بولنے والے اور۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے ایک مرتبہ سرِ محفل بتایا: اسلام کا خلاصہ اس جملے میں ہے:
my brother thy need is greater than mine. ” دین پرست دوسروں کے جان مال اور عزت کی تکریم کرتے ہیں اور دنیا پرست دنیاوی فوائد کے لیے اپنے ہم نسبوں کی جان مال اور عزت پامال کرنے میں پل بھر کا تامل نہیں کرتے۔
سیرت کی کتابوں میں درج ہے: ’’آپؐ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے اور ساتھ ہی یہ فرما رہے تھے : اے کعبہ !تُو کیا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے، تُو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے،لیکن قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے، مومن کی حرمت، اس کے مال و جان کی حرمت ،اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر ہے۔‘‘
سو! بنیادی طور دو نظریات ہی انسان کے فکر و عمل کے رخ کو متعین کر رہے ہیں۔ ایک تکریمِ آدم کا نظریہ ہے جس کی تاثیر خدمت، محبت، عاجزی، انکسار اور اخلاق کی صورت میں نظر آتی ہے۔ دوسرا نظریہ اپنی اَنا کو مکرّم و مقدم جاننے کا نظریہ ہے جس کا اثر غرور، تکبر، ضد، پامالی آداب و اخلاق اور قطع ِ جان و تعلق کی صورت میں ظاہر ہوتا رہتاہے۔ نظریہ بیانیہ پیدا کرتا ہے اور بیانیہ ہمارے فکر پر اثر انداز ہوتا ہے — اور فکر ہمارے عمل کا موجد ہے۔
نظریہ ہمارے ذہنی قوا ء تک محدود ہے یا ہمارے قلب کے صدف میں اتر چکا ہے؟ اس کا فیصلہ عمل کے دوراہے پر ہو جاتا ہے۔ اگر حالات کا جبر ہمارے فکر و عمل کو متاثر کر رہا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ نظریہ دل میں نہیں اُترابلکہ ابھی ذہن کی سطح پر منڈلارہا ہے اور دلیل کا محتاج ہے۔ جونہی مخالف دلیل دکھائی دی، یہ اپنا بوریا بستر اٹھا کر اس کوچہ فکر سے نکل جائے گا۔ جب نظریہ روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے تو دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے،تب یہ دلائل ، زمینی حالات و واقعات کا محتاج نہیں رہتا۔
تکریمِ انسانیت کے برعکس کوئی بھی نظریہ اس حیوانِ ناطق کو کوچہِ آدمیت اور پھر شہرِ انسانیت میں آباد کرنے میں ناکام رہتا ہے۔دین تکریمِ انسانیت کا سبق لے کر آیا ہے۔ دینِ اسلام کا سبق یہ ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہ ہوں۔ دین کا سبق یہ ہے کہ میزانِ عمل میں سب سے بھاری عمل حسنِ اخلاق ہے۔ دین مرقع عبادت سے کہیں زیادہ مرقعِ اخلاق ہے۔ والدین سے حسنِ سلوک، بڑوں کا ادب ، چھوٹوں سے شفقت، اپنے اردگرد ہم سفروں اور ہمسایوں کو اپنے نفس کے شر سے محفوظ رکھنا، یہ سب تکریمِ انسانیت کے اسباق ہیں۔ قرآن کریم میں رسولِ کریمؐ کا اُسوہ ہمارے لیے بہترین اُسوہ بتایا گیا ہے اور قرآن ہی میں فرمایا گیا: ’’بے شک آپؐ اخلاق کی بلندیوں پر فائز ہیں۔‘‘ آپؐ کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’مجھے اخلاقی اقدار کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘
عمل کی اصلاح مطلوب ہو تو فکر کی اصلاح کی طرف توجہ چاہیے۔ اگر فکر کسی اُلجھن یا اشکال کا شکار ہو تو دیکھنا چاہیے کہ ہم کس نظریۂ حیات کی طرف کھڑے ہیں۔ فکر ہمارے اعمال کا امام ہوتا ہے، اگر امام قبلہ رُو نہ ہو تو مقتدیوں کی نماز قائم نہیں رہتی۔ مادّی نظریۂ حیات رکھنے والا اگر بظاہر نیک صورت نظر آئے تو اس سے زیادہ چوکنا رہنا چاہیے، وہ کسی بھی لمحے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کسی بھی اخلاقی اور روحانی اصول کا سودا کر سکتا ہے، کسی بھی انسان کو دھوکا دے سکتا ہے۔
<[email protected]>